اڑن کاریں سر پر آن کھڑی ہیں اور یہ دنیا بدل سکتی ہیں


اڑن کاریں
اصل ’بلیڈ رنر‘ فلم تو 2019 کے ایک تصوراتی لاس اینجلس میں فلمائی گئی تھی، ایک ایک ایسا مستقبل کا شہر جہاں تیزابی بارش آسمانوں سے گرتی ہے اور جو ’سکمرز‘ سے بھرا پڑا تھا۔ یہ ’سکمرز‘ اڑن گاڑیاں تھیں جو فضائی شاہراہوں پر رواں دواں تھیں۔ 1982 میں دکھائی گئی اس فلم کے بعد ٹیکنالوجی نے شاید ہالی ووڈ کی سوچ سے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے۔ سیلفی سٹکس، قاتل ڈرون، ہیش ٹیگ پولیٹکس اور کیا نہیں۔ لیکن شاید ابھی بھی ہوور کرافٹ ٹیکسیاں بہت دور کی بات لگتی ہیں، جو صرف سائنس فکشن ناولوں اور تھیم پارک کی رائیڈز تک ہی محدود ہیں۔

لیکن اصل میں اڑن کاریں ایک حقیقت ہیں اور آنے والے عشروں وہ یہ طے پائیں گی کہ ہم نے سفر کس طرح کرنا ہے، کام کس طرح کرنا ہے اور زندگی کیسے گذارنی ہے۔ بیٹری کی توانائی کی کثافت، میٹریلز سائنس اور کمپیوٹر سمیولیشن میں ترقی کی وجہ سے اڑنے والی نجی گاڑیوں اور ایسے نیویگیشن سسٹم میں پیشرفت ہوئی ہے جو انھیں چلانے میں مدد دیتا ہے۔ اس میں الیکٹرک گلائیڈرز سے کواڈکاپٹر ڈرونز تک شامل ہیں۔

یہ جہاز چاہے اسی طرح نہ لگیں جیسے بلیڈ رنر میں دکھائے گئے تھے، لیکن وہ اس سے بہت دور بھی نہیں ہیں۔ یہ کمرشل جہازوں سے بہت زیادہ چھوٹے ہیں اور ان میں سے اکثر میں پروں کی بجائے روٹرز لگے ہوئے ہیں، جو عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ میں مدد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹلٹ روٹرز لمبے فاصلے کی آگے جانے والے پرواز میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں جبکہ ملٹی روٹرز اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ وہ ہوور کرافٹ میں شور کو کم کرتے ہیں۔ لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ یہ گاڑیاں ایسے ڈیزائن کی گئی ہیں کہ یہ لوگوں کے سفر کرنے کے روایتی طریقوں سے زیادہ تیز رفتار ہوں، خصوصاً پرہجوم شہروں میں۔

یہ بھی پڑھیئے

پچاس برس قبل لوگ کیا سمجھتے تھے کہ نصف صدی بعد دنیا کیسی ہو گی؟

اڑنے والی گاڑی، اوبر میں ناسا کے انجینیئر کی بھرتی

اب سپورٹس کار اڑے گی؟

کیا آپ بغیر پائلٹ والی ہوائی ٹیکسی میں سفر کریں گے؟

ابھی تک تو خود مختار شہری ایئر کرافٹ مارکیٹ ایک کھلی مارکیٹ ہے۔ درجنوں سٹارٹ اپ کمپنیاں کمرشل جیٹ پیکس، اڑنے والی موٹر بائیکس اور ذاتی ہوائی ٹیکسیاں بنانے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں۔ وینچر کیپیٹلسٹس، آٹو اور ایوی ایشن کارپوریشنز جن میں ابر بھی شامل ہے، اس بڑھتی ہوئی صنعت میں اپنے حصے کے دعوے کر رہی ہیں جس کا حجم 2040 تک 1.5 کھرب ڈالر تک ہو سکتا ہے۔

ذاہو ڈیلی 2019 میں چین میں اس اڑنے والی موٹر بائیک پر سفر کر رہے ہیں جو انھوں نے خود ہی بنائی ہے

ذاہو ڈیلی 2019 میں چین میں اس اڑنے والی موٹر بائیک پر سفر کر رہے ہیں جو انھوں نے خود ہی بنائی ہے

مثال کے طور پر جرمنی میں قائم ولوکوپٹر نے اپنے ولوسٹی کرافٹ کو بطور ایک پہلی لائنسنڈ بجلی سے چلنے والی ایئر ٹیکسی کے متعارف کیا ہے، ایک ایسی گاڑی جو بعد میں پائلٹ کے بغیر اڑا کرے گی۔ ولوکاپٹر کے عوامی امور کے نائب صدر فیبئن نیسٹمین کہتے ہیں کہ ’یہ ابر بلیک اور کسی بھی دوسری پریمیئم سروس کی طرح ہے۔‘

لیکن تھوڑے سے مختلف فیچرز کے ساتھ۔ ابتدائی طور پر ولوسٹی میں صرف ایک مسافر کی گنجائش ہو گی۔ اس کا مطلب ہے کہ شروع میں فی سفر زیادہ خرچہ ہو گا۔ لیکن ولوکاپٹر مکمل خود مختار ماڈل کو متعارف کرانے سے پہلے صارفین کا اعتماد حاصل کرنے کی امید کرتا ہے۔ یہ ماڈل ایک برقی، پروں کے بغیر کرافٹ ہو گا جو نو بیٹریوں کی مدد سے اڑے گا، اور جو اہم شہروں میں بنائے گئے ورٹی پورٹس اور ہوائی اڈوں کے ایسے نیٹ ورک کے ذریعے مسافروں کو لانے لے جانے میں مدد کرے گا جہاں جہاز عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کریں گے۔ ولوسٹی کی پہلی کمرشل فلائٹس شروع کرنے کا منصوبہ 2022 کا ہے۔

پہلی فلائٹ کا ٹکٹ 350 ڈالر فی کس ہو گا۔ لیکن نیسٹمین کہتے ہیں کہ کمپنی کا ارادہ ہے کہ اسے بعد میں ابر بلیک کے برابر ہی رکھا جائے گا۔ ’ہم نہیں چاہتے کہ یہ صرف امیر لوگوں کا کھلونا ہو، بلکہ یہ شہری علاقوں میں کسی کے بعد مربوط اچھے سفر کا حصہ ہو۔ ہر ایک کے پاس پیدل چلنے، کسی کے ساتھ جانے، سائیکل پہ یا اڑ کے جانے کا آپشن ہونا چاہیئے۔‘

A Volocopter air taxi performs a demonstration in Singapore in October 2019 (Credit: Reuters)

اکتوبر 1919 میں سنگاپور میں ولو کاپٹر اڑایا جا رہا ہے

دیگر کمپنیوں نے موجودہ کار مینوفیکچررز کے ساتھ شراکت کی ہے تاکہ وہ ایسے ماڈل تیار کریں جو وہ حتمی تجارتی استعمال کے لیے استعمال کر سکتے ہوں۔ مثال کے طور پر جاپانی سٹارٹ اپ سکائی ڈرائیو حال ہی میں ٹویوٹا کے ساتھ مل کر اپنی مکمل طور پر الیکٹرک ایئر ٹیکسی کے لیے آزمائشی پرواز کی تیاری کر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے چھوٹی برقی گاڑی ہو گی جو عمودی حالت میں ٹیک آف اور لینڈنگ کر سکتی ہو گی۔ اس موسم گرما میں کمپنی نے کامیابی کے ساتھ اپنے ایس ڈی -03 کرافٹ کو ایک پائلٹ کے ساتھ ائیر فیلڈ کے ارد گرد کئی منٹ تک اڑایا بھی تھا۔

سکائی ڈرائیو کے نمائندے تاکاکو واڈا کا کہنا ہے کہ ’صارفین کی طلب میں اضافہ ہوا ہے، لیکن انسانوں نے ابھی تک ٹریفک کا واضح حل فراہم نہیں کیا ہے، یہاں تک کہ الیکٹرک کاروں یا (فرانس کی انٹرسٹی) ٹی جی وی ٹرین جیسے تیز تر متبادل ذرائع کے ذریعے بھی نہیں۔‘

’آپ کہہ سکتے ہیں کہ سکائی ڈرائیو کی نقل و حرکت کو کھپت کے مطالبات کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں ترقی نے بھی پروان چڑھایا ہے۔‘

یقیناً اس پیش قدمی سے بہت سارے طیاروں کے ڈیزائنرز کی ائیر ٹائم کے لیے آواز بلند ہوئی ہے۔ لیلیئم، وسک، جوبی ایوی ایشن، بیل اور ان گنت دیگر کمپنیاں بجلی سے چلنے والی ایجادات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ایک ایسی صنعت جو کہ ابھی اپنے ابتدائی دور میں ہے، اس میں عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ (وی ٹی او ایل یا ویٹولز) ڈیزائنوں کی کوئی کمی نہیں ہے، یا پھر خیالی اونچائی جس میں جہاں تک اڑ جا سکے۔

گریویٹی انڈسٹریز کو ہی لے لیں، جو کہ برطانیہ میں قائم ایک ایروناٹیکل انڈسٹری ہے اور جس نے 1,050 ہارس پاور کی پہننے والی جیکٹ تیار کی ہے۔ چیف ٹیسٹ پائلٹ اور کمپنی کے بانی رچرڈ براؤننگ کہتے ہیں کہ ’یہ کچھ کچھ فارمولا ون کار کی طرح ہے۔ جیٹ سوٹ ایک مخصوص آلہ ہے جسے ابھی صرف تربیت یافتہ پروفیشنل اور ملٹری فلائیر پہن کر اڑ سکتے ہیں۔‘ براؤننگ اپنے سٹوڈیو میں بیٹ مین کی طرح کے ایک لباس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’کسی دن شاید جیٹ پیک کا مطلب ایک اڑتا ہوا طبی معاون سپر ہیرو ہو جو یہ فیصلے کر رہا ہو کہ کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔‘

یہ کوئی خیالی پلاؤ نہیں ہے۔ حال ہی میں گریٹ نارتھ ایئر ایمبولینس سروس نے گریویٹی انڈسٹریز کے ساتھ سرچ اینڈ ریسکیو مشن کی داغ بیل رکھی ہے۔ براؤننگ نے اپنی جیکٹ میں انگلینڈ کے لیک ڈسٹرکٹ میں واقع لینگڈیل پائیکس کی وادی میں ایک فرضی جائے حادثہ تک پرواز کی تھی۔ اگر کوئی وہاں پیدل چل کر پہنچتا تو یہ کم از کم 25 منٹ کی مشکل چڑھائی ہوتی۔

پرواز میں صرف 90 سیکنڈ کا وقت لگا۔ اس مشق سے یہ بات سامنے آئی کہ جیٹ پیکس دور دراز کے مقامات تک اہم نگہداشت کی خدمات فراہم کرنے کے لیے کتنے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔

کیلیفورنیا کی سلیکون ویلی میں ایمیز ریسرچ سینٹر میں ناسا کے ایروناٹکس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پاریمل کوپرڈیکر کا کہنا ہے کہ ’ہوائی نقل و حمل کا خواب ایک طویل عرصے سے دیکھا جا رہا تھا۔ اب ایسا طاقتور موقع موجود ہے کہ اس طرح کی گاڑیاں ڈیزائن کی جائیں جو سامان اور سروسز کو اس جگہ بھی پہنچائیں جہاں موجودہ ہوا بازی کے ذریعے نہیں پہنچا جا سکتا۔‘

کوپرڈیکر خود مختار اور جدید ہوائی نقل و حرکت، بشمول ویٹولز، کے ہوا بازی کے رجحانات کی تحقیق کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس کام کی مشکل کو سامنے رکھتے ہوئے ناسا میں ٹیم کے لیے سارے ایکو سسٹم کے عوامل کو دیکھنا ضروری ہے۔ ان میں ایئر کرافٹ، ایئر سپیس، کمیونٹی میں ہم آہنگی، موسم کے نمونے، جی پی ایس، شور کے سٹینڈرڈز، دیکھ بھال، ترسیل، پرزوں کو حاصل کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

انسانی پرواز کا ازسر نو تصور کرنے کے لیے نہ صرف ایسی گاڑیاں درکار ہوتی ہیں جو ’قانونی طور پر سڑکوں‘ پر چل سکیں اور اڑنے کے لیے محفوظ ہوں، بلکہ ان میں عوام بھی پرواز کرنے کے لیے تیار ہو۔ صنعت کے رہنماؤں کو سواروں کو راضی کرنے کی ضرورت ہے کہ ویٹولز صرف اس لیے ضروری نہیں کہ ان کے لیے ٹیکنالوجی ممکن ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ نقل و حمل کے دوسرے طریقوں سے بہتر ہے اور محفوظ ہے۔

نیسٹمین، جو وولوکاپٹر کے عوامی آگہی کے اقدامات کی نگرانی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ آپ انتہائی سخت آزمائشی طریقوں کے بغیر تجارتی خدمات کی پیش کش نہیں کر سکتے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ ان مشینوں کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا جائے۔‘ اس کا ایک مطلب ہو سکتا ہے کہ ورٹی پورٹس کے ہارڈویئر کو بنایا جائے اور سٹوریج کی سہولیات کو برقی طاقت سے لیس کیا جائے، یا پردے کے پیچھے سافٹ ویئر چلتا رہے۔ جو نظام ویٹولز کو چلانے کے لیے درکار ہوتے ہیں انھیں بلا شبہ تقریباً مکمل طور پر آٹومیشن کی ضرورت ہے تاکہ وہ مناسب طریقے سے گاڑیوں کی تصوراتی بھیڑ میں ہم آہنگی لا سکیں۔ اگرچہ ہم آج جن تجارتی ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں ان کی نگرانی ٹاور میں انسانی کنٹرولرز کے ذریعہ کی جاتی ہے، لیکن کل کی اڑنے والی مشینوں کا انحصار یو ٹی ایم (انمینڈ ٹریفک مینجمنٹ) پر ہو گا۔ اس ڈیجیٹل ٹریکنگ کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تمام ویٹولز کو اپنے راستے میں دیگر پروازوں کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہو۔

مکمل طور پر خود کار عمودی ٹرانسپورٹ جس کا ٹریک ریکارڈ اچھا ہو شاید عوام کے لیے باعث راحت ہو، لیکن اڑن والی چیزوں کا ایک وسیع نیٹ ورک نئے چیلنجوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ویٹلوز رن وے یا گراؤنڈ پر پارکنگ کی ضرورت کو ختم کر دیں گے، لیکن ان کو وقف شدہ ہوائی راہداریوں اور جہازوں کو رکھنے کے لیے ’آسمانی بندرگاہوں‘ کی ضرورت ہوگی۔ ہوائی ٹیکسیوں کی وجہ سے شاید زمین پر کاروں کی تعداد میں کمی آ جائے، لیکن آسمان میں جب اتنی بڑی تعداد میں عمارتیں، پرندے، ترسیل کے ڈرون اور ہوائی جہاز موجود ہیں تو پائلٹوں (کم از کم ویٹولز کے پائلٹوں کو تو ضرور) کو بھی بچ کے نکلنے کی نئی طرح کی تربیت کی ضرورت ہوگی۔ ’سکائی وے‘ کو اپنے قوانین بنانے ہوں گے۔

اس کے علاوہ مینوفیکچررز اور آپریٹرز کو یہ دکھانا ہوگا کہ مسافروں یا نیچے زمین پر لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن اور دیگر ریگولیٹری اداروں کے ساتھ مل کر کوپرڈیکر اور ناسا کی ٹیم نے ایک ’اربن ایئر موبیلٹی میچیوریٹی لیولز سکیل‘ تشکیل دیا ہے، جو کرافٹ، ایئر سپیس اور دیگر نظاموں کی ایک سے چھ کے سکیل کی بنیاد پر پیچیدگی اور شہری کثافت پر درجہ بندی کرتا ہے۔ وہ کاک پٹ آپریشنز کو آسان بنانے کے طریقے بھی وضع کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسی گائیڈلائنز کہ خراب موسم، پرندوں کے ٹکرانے، یا اچانک کسی جیٹ پیک پہنے ہوئے شخص کے سامنے آنے کے بعد ویٹیولز کو کیا کرنا چاہیئے۔

پہلے ہی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے ان گائیڈ لائنز کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اکتوبر 2020 میں لاس اینجلیز کے ایل اے ایکس ہوائی اڈے کے قریب عملے کے ایک رکن نے 6,000 فٹ کی بلندی پر ایک جیٹ پیک کو دیکھا تھا جو کہ اس بلندی پر ایک بڑا خطرہ تھا۔

یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے بھی ویٹولز کے لیے تکنیکی وضاحتوں کا ایک سیٹ تیار کیا ہے، حالانکہ ایجنسی نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ان کی تصدیق کیسے کرنی ہے۔ ان وضاحتوں کا مقصد اڑن کاروں کی منفرد خصوصیات اور پرواز کی صلاحیت کے معیار کی تفصیل ہے جیسے ہنگامی حالت میں باہر نکلنا، بجلی سے بچاؤ، لینڈنگ گیئر سسٹم اور کیبن میں ہوا کا دباؤ شامل ہے۔ ای اے ایس اے کے بیان کے مطابق ’ہوائی جہاز، روٹرکرافٹ یا دونوں کی ڈیزائن خصوصیات رکھنے کے باوجود، زیادہ تر کیسز میں ای اے ایس اے ان نئی گاڑیوں کی روایتی ہوائی جہاز یا روٹرکرافٹ کے طور پر درجہ بندی نہیں کر سکا۔‘ دوسرے الفاظ میں ایسا لگتا ہے کہ ای اے ایس اے یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ ویٹولز کو فکسڈ ونگ کمرشل جیٹ طیاروں یا ہیلی کاپٹروں سے کیا چیز الگ کرتی ہے۔ یہ بات صاف ہے کہ ویٹولز کے کامیاب آپریشن کے لیے حکومت، ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹیشن ، شہری منصوبہ بندی اور پبلک آؤٹ ریچ سمیت مختلف شعبوں میں مربوط تعاون کی ضرورت ہو گی۔

ای کامرس کے عروج، آب و ہوا میں تبدیلی، آزادانہ مارکیٹ کا نظام اور ایک مربوط سپلائی چین جیسے عالمی رجحانات نے ذاتی ہوائی سفر میں دلچسپی کو تیز کر دیا ہے، جبکہ ہمارے موجودہ بنیادی ڈھانچے اور اس سے متعلقہ صنعتوں میں ناکامی ان کی ضرورت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ چونکہ نیویارک، ہانگ کانگ اور بیجنگ جیسے شہر پھیلنے کی اپنی پوری حدوں تک پہنچ چکے ہیں، شہری زندگی کم سے کم پائیدار ہوتی جا رہی ہے، لیکن پھر بھی ہماری آپس میں جڑی معیشت مستقل نقل و حرکت کا مطالبہ کرتی ہے۔

اس کے اثرات سفر اور زندگی کو بدل سکتے ہیں۔ کوپرڈیکر کہتے ہیں ’اس وقت زیادہ تر لوگ نقل و حمل تک رسائی کی بنیاد پر زندگی کو بہتر بناتے ہیں۔ ویٹولز اور ڈرونز لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں، چاہے وہ جہاں بھی ہوں، اور اس سے وہ رہائش کی بنیاد پر نقل و حمل کو بہتر بنا سکیں۔‘ کاروباری اداروں کو اب اپنے ہیڈ کوارٹر کے لیے مرکزی کاروباری اضلاع کا رخ نہیں کرنا پڑے گا، جبکہ ملازمین کہیں بھی رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں جہاں ہوائی ٹیکسی تک رسائی قریب ہو۔ ویٹول رکھنا بائیسکل رکھنے کی طرح ہی گنجائش کے مطابق ہو سکتا ہے، جو ہر کوئی برداشت کر سکتا ہے۔

نیسٹمین کا کہنا ہے کہ اگر وسیع سطح پر دیکھیں تو بڑھتے ہوئے شہروں میں شہریوں کی نقل و حرکت کی بڑھتی ہوئی ضرورت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ’اس سے شہر کے متعلق دوبارہ غور کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے، کیونکہ کار کے گرد ہر چیز بنانا میعارِ زندگی بہتر نہیں بناتا۔‘

ٹریفک کے مسائل ہمارے شہروں کی شاہراہوں اور ان پر چلنے والی کاروں کو کثرتِ استعمال سے فرسودہ کر دیتی ہیں جس سے گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے سیارے کے حساس ماحولیاتی نظام اور ہماری اپنی صحت کو خطرہ ہوتا ہے۔ دریں اثنا ، ای ویٹولز (جو کہ برقی ہیں) ڈرامائی طور پر اخراج یا ڈیزل پر انحصار کم کر دیں گے۔

اڑن کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد قدرتی طور پر ہمارے شہروں کے ڈیزائن کو بدل دے گی۔ وہ اونچائی کی طرف جائیں گے، چھتوں پر لینڈنگز بڑھ جائیں گی اور ایئر ہائی ویز سپر سکائی سکریپرز کو آپس میں جوڑیں گی، جس سے نیچے جگہ خالی ہو گی۔ زمین پر کم کاروں سے بھیڑ کم ہو گی اور اس کی وجہ سے شاید پارک اور سبز جگہیں بڑھ جائیں۔ کوپرڈیکر کہتے ہیں کہ ’طویل مدت میں، 2045 اور اس سے آگے، کاروبار اور سبز جگہیں آپس میں زیادہ ضم ہو جائیں گی۔ اگرچہ ہم شاید کبھی میٹروز اور سڑکوں کو ختم نہ کر سکیں، لیکن شاید ہم ان مشینوں سے ان کے نشانات کم کرنے کے قابل ہو جائیں۔

ویٹولز کے مستقبل کی ٹرانسپورٹ، کام کرنے کے طریقے، کھپت، شہری ڈیزائن، بلکہ ہیلتھ کیئر اور ماحولیات پر بھی بڑے گہرے مضمرات ہوں گے۔ تقریباً 2030 میں ہی صارفین شاید ایک بٹن کو دبانے سے اپنے بادلوں میں گھرے دفتر میں ایک ہوائی ٹیکسی منگوا سکیں۔ اور اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں شاید ہمارے پاس نیچے زمین پر آنے کی بہت ہی کم وجوہات رہ جائیں اور ہم اپنے کاروبار اور زندگیوں کا انتظام آسمان پر ہی کسی ایک شہر سے کر رہے ہوں۔

کوپرڈیکر کہتے ہیں کہ ’سڑک پر ایک میل آپ کو صرف ایک میل دور ہی لے کر جا سکتا ہے، جبکہ ایوی ایشن کا ایک میل آپ کو کہیں بھی لے کر جا سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp