القاعدہ کے رہنما ابو محمد المصری کی تہران میں ہلاکت پر ایران کی تردید


ایرانی وزارت خارجہ
ایران کا کہنا ہے کہ ملک میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کوئی 'دہشت گرد' موجود نہیں ہیں
ایران نے رواں برس اگست میں عسکریت پسند تنظیم القاعدہ کے رہنما عبداللہ احمد عرف المصری کی دارالحکومت تہران میں ہلاکت کی تردید کی ہے۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے خبر دی تھی کہ شدت پسند تنظیم القاعدہ کے نائب کمانڈر عبداللہ احمد عبداللہ کو تہران میں ایک اسرائیلی ایجنٹ نے امریکہ کی درخواست پر گولی مار دی تھی۔

ایران کا کہنا ہے کہ ملک میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کوئی ‘دہشت گرد’ موجود نہیں ہیں۔

عبداللہ احمد پر سنہ 1988 میں افریقہ میں امریکی سفارتخانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام تھا۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے نامعلوم امریکی انٹیلیجنس اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے خبر شائع کی تھی کہ القاعدہ رہنما عبداللہ احمد جنھیں عرف عام میں ابو محمد المصری کے نام سے جانا جاتا ہے کو ان کی بیٹی سمیت سات اگست کو دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اقوام متحدہ میں ایران اور سعودی عرب کے ایک دوسرے پر تندوتیز لفظی حملے

ایرانی میزائل کہاں تک مار کر سکتے ہیں

ایران کے 18 بینکوں پر نئی امریکی پابندیاں

نیو یارک ٹائمز کی خبر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران نے ابتدا میں المصری کی ہلاکت کو چھپانے کی کوشش کی تھی اور ایرانی اور لبنانی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ سات اگست کو ہلاک ہونے والے افراد لبنانی نژاد تاریخ کے پروفیسر اور ان کی بیٹی ہیں۔

دہشت گرد حملہ

المصری پر سنہ 1998 میں کینیا اور تنزانیا میں امریکی سفارتخانوں پر بم حملے کرنے کا الزام تھا، ان حملوں میں 224 افراد ہلاک ہوئے تھے

تاہم ایران کی وزارت خارجہ نے سنیچر کو ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘ واشنگٹن اور تل ابیب وقتاً فوقتاً جھوٹ بول کر اور میڈیا کو غلط خبریں جاری کر کے ایران کا ایسے گروپوں کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ خطے میں القاعدہ سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کی مجرمانہ کارروائیوں کی ذمہ داری لینے سے بچ سکیں۔’

تاہم اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران کے اس بیان پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

المصری القاعدہ کے جہادی گروہ کے بانیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے علاقوں میں اپنی دہشت گردی کارروائیوں سے تباہی مچائی تھی اور امریکہ میں 11 ستمبر کے حملے کیے تھے۔

ان پر سنہ 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں پر بم حملے کرنے کا الزام تھا، ان حملوں میں 224 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی انٹیلیجنس حکام کا کہنا تھا کہ المصری سنہ 2003 سے ایران میں مقیم تھے، پہلے انھیں نظر بند کیا گیا تھا بعدازاں وہ آزادانہ زندگی گزار رہے تھے۔

ایران اور القاعدہ کے درمیان کوئی تعلق بہت غیر معمولی ہو گا، کیونکہ ماضی میں یہ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور ان دونوں کا تعلق اسلام کے دو اہم مسلکوں سے ہے۔ ایران میں اکثریت شعیہ مسلمانوں کی ہے جبکہ القاعدہ ایک سنی جہادی گروہ ہے۔

المصری آج بھی امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں اور ان کے سر پر دس ملین ڈالر رقم کا انعام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp