پروین میر: بلوچستان کے علاقے اوستہ محمد کی خاتون نے 350 کلومیٹر طویل پیدل مارچ کیوں کیا؟


پروین میر
جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت خاتون نے 350 کلومیٹر طویل پیدل لانگ مارچ کا آغاز کیا توان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ یہ مارچ کٹھن ہو گا لیکن انھوں نے تمام تر تکالیف اور مشکلات کے باوجود یہ مارچ کیا۔

اس مارچ میں اس خاتون کے ساتھ جو دیگر 19 افراد شامل تھے وہ سب مرد تھے۔ آخری دس کلومیٹر کے سوا وہ مارچ میں دیگر شرکاء سے پیچھے نہیں رہی۔ یہ خاتون آخری دس کلومیٹر میں اس لیے پیچھے رہی کیونکہ ان کے دائیں پیر میں تکلیف کی وجہ سے ان کے پیدل مارچ کی رفتار انتہائی کم ہو گئی تھی۔

یہ کہانی ہے پاکستان کے صوبے بلوچستان کی ایک باہمت خاتون پروین میر کی جنھوں نے اپنے علاقے اوستہ محمد کے مسائل کے حل کے لیے 12روز کوئٹہ تک پیدل مارچ کیا۔

یہ بھی پڑھیے

لاپتہ افراد: کراچی سے اسلام آباد تک کے مارچ کا آغاز

بلوچستان کے طلبہ پنجاب کی سڑکوں پر پیدل مارچ کیوں کر رہے ہیں؟

’بھائی لاپتہ ہوا تو نقاب اتارا اور احتجاج شروع کر دیا‘

پروین میر

پروین میر کون ہیں؟

پروین میر کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے علاقے اوستہ محمد سے ہے۔ وہ ایک پڑھی لکھی سماجی کارکن ہیں۔ ویسے تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والی خواتین نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک دو ہزار سے زائد کلومیٹر پیدل مارچ کیا تھا لیکن پروین میر بلوچستان کی وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے ایک علاقے کے عوام کی مشکلات اور تکالیف کو اجاگر کرنے اور ان کے مسائل کو حل کروانے کے لیے اتنا طویل پیدل مارچ کیا۔

اگرچہ 12روز مسلسل چلنے کی وجہ سے مارچ کے زیادہ تر شرکا کے پیر چھالے پڑنے کے باعث زخمی ہوئے تھے اور ان کے لیے بھی ایک مناسب رفتار کے ساتھ چلنا مشکل تھا لیکن پروین میر کا دایاں پیر بری طرح زخمی ہوا تھا۔

پروین میر کہتی ہیں ’کوئٹہ شہر سے دس کلو میٹر پہلے جب ان کے پیروں میں تکلیف بہت زیادہ ہو گئی تو ان کے لیے دیگر ساتھیوں کے رفتار سے چلنا مشکل تھا اس لیے وہ ان کے پیچھے چلتی رہی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’دائیں پیر میں درد زیادہ ہونے کی وجہ سے جب وہ ہسپتال گئیں تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے یہ بات باعث حیرت تھی کہ ان 12 دنوں کے سفر کے دوران میں کہیں گری نہیں تو فریکچر کیسے ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ زیادہ چلنے کی وجہ سے ان کے پیروں میں سٹریس فریکچر ہے جو کہ پاﺅں پر زیادہ دباﺅ ڈالنے سے ہوتا ہے۔ اس لیے انھوں نے میرے دائیں پیر پر پٹی کی ہے۔‘

اگرچہ ڈاکٹروں نے ان کو ایک ماہ تک آرام کا مشورہ دیا تاہم وہ آرام کی بجائے پریس کلب کے باہر پہنچ گئی جہاں ان کے دوسرے ساتھی اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج پر بیٹھے ہیں۔

پروین میر کا کہنا ہے کہ ان کو اور ان کے دیگر ساتھیوں کو راستے میں شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پیر زخمی ہوئے، راستے میں کھانے اور پینے کے حوالے سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن چونکہ علاقے کے لوگوں کی تکالیف ہمیں لانگ مارچ کے دوران پیش آنے والی تکالیف سے بہت زیادہ ہیں اس لیے مجھے مارچ کو ترک کرنے کا خیال نہیں آیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سفر کی مشکلات کے علاوہ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے ان کی مارچ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

’کوئٹہ شہر میں داخل ہونے سے پہلے اتنی بھاری نفری کھڑی تھی کہ ہم حیران ہوئے کہ ہم چند لوگوں کے لیے اتنی بڑی نفری کی کیا ضرورت ہے۔‘

پروین میر نے بتایا کہ ’کوئٹہ شہر میں داخل ہونے سے جب ہمیں روکا گیا تو ہمارے استفسار پر بتایا گیا کہ ہم نے کوئٹہ شہر میں احتجاج کے لیے این او سی نہیں لیا ہے اس لیے ہمیں آگے جانے نہیں دیا جائے گا۔ ہم نے کہا کہ ہم اتنے دور سے واپس جانے کے لیے نہیں آئے اور اگر ہمیں جانے نہیں دیا جاتا تو پھر ہمیں گرفتار کیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے انتظامیہ کے کہنے پر اپنا مارچ ختم نہیں کیا اور ہم کوئٹہ پریس کلب پہنچے تو ہمیں پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ بھی نہیں لگانے دیا گیا۔‘

لانگ مارچ کے مظاہرین

مارچ کرنے والوں کے مطالبات کیا ہیں؟

مارچ کرنے والوں کے مطالبات 15 نکات پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے اہم مطالبات اوستہ محمد کو ضلع کا درجہ دینا، وہاں گرلز کالج اور یونیورسٹی کا قیام، کھیر تھر کنال پر سیاسی مداخلت کا خاتمہ، اوستہ محمد میں صحت کی سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ سیوریج کی نظام کی بہتری شامل ہیں۔

اس کے علاوہ 2013 سے لے کر تاحال اوستہ محمد کے لیے ملنے والے سرکاری فنڈز کی نیب کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ بھی ہے۔

پروین میر نے بتایا کہ اوستہ محمد کی آبادی پانچ لاکھ ہے جہاں گرلز کالج نہیں ہے جس کے باعث وہاں کی خواتین میٹرک کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ وہاں نہ صرف گرلز کالج ہو بلکہ یونیورسٹی بھی قائم کی جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اوستہ محمد میں لوگوں کے معاش اور روزگار کا انحصار زراعت پر ہے جبکہ زراعت کا انحصار کھیر تھر کنال پر ہے لیکن کھیر تھر کنال پر بااثر لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے غریب کاشتکاروں کو پانی نہیں ملتا جس کی وجہ سے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کھیر تھر کنال پر سیاسی اور بااثر شخصیات کی مداخلت کا خاتمہ ہو تاکہ تمام لوگوں کو منصفانہ طور پر کاشتکاری کے لیے پانی ملے۔

ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں جس کی وجہ سے وہ مشکلات کے علاوہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں جبکہ اوستہ محمد شہر میں سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ہی خاندان کی موروثی سیاست کی وجہ سے خطیر فنڈز ملنے کے باوجود علاقے کے مسائل حل نہیں ہوئے اس لیے دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ ہمارا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ 2013 سے لیکر تاحال اوستہ محمد کو جو بھی فنڈز ملے ہیں ان کے بارے میں نیب تحقیقات کرے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ فنڈز کہاں خرچ ہوئے۔‘

پروین میر

پروین میر اور لانگ مارچ کے دیگر شرکامطالبات منوانے کے لیے پرعزم

پروین میر کا کہنا ہے ’ہم اپنے علاقے کے لیے جو حقوق مانگ رہے ہیں وہ لوگوں کے بنیادی آئینی حقوق ہیں۔ اگر یہ لوگوں کو حقوق نہیں دے سکتے تو ان کو آئین سے نکالا جائے۔ گرلز کالج مانگنا یا یونیورسٹی یا پانی مانگنا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور یہ ایسے مسائل بھی نہیں جو حل نہیں کیے جا سکتے ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکمرانوں کو خواب غلفت سے جھاگ جانا چاہیے اور ہمیں ہمارے حقوق دیئے جائیں تاکہ کل کوئی اور بیٹی نہیں نکلے اور اس طرح ہڈیاں تڑواتی نہیں پھرے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آج ایک بیٹی نکلی ہے اگر آپ گرلز کالج نہیں دیں گے تو کل سو بیٹیاں نکلیں گی اور بعد میں ہزاروں نکلیں گی اور جب اوستہ محمد کی لاکھوں کی آبادی نکلے گی تو پھر کیا ہو گا۔‘

بلوچستان میں مسائل کے حل کے لیے پیدل مارچ کے رحجان میں اضافہ

بلوچستان میں گزشتہ چند برسوں سے لوگوں کا اپنے مسائل کے حل کے لیے پیدل لانگ مارچ کرنے کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دوردراز کے علاقوں میں لوگوں کے احتجاج کو میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر بہت زیادہ کوریج نہیں ملتی ہے۔

یہ مارچ خضدار سے کوئٹہ، مستونگ سے کوئٹہ، لورالائی سے کوئٹہ اور ژوب سے کوئٹہ تک کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ مارچ نیشنل ہائی ویز پر بڑھتے ہوئے حادثات اور منشیات کے خلاف، کاشتکاروں اور دیگر علاقائی مسائل کے حل کے لیے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔

اوستہ محمد سے ہونے والے پیدل مارچ میں ایک خاتون کی حیثیت سے اپنی شرکت کے بارے میں پروین میر نے بتایا کہ اوستہ محمد کے جن مسائل کے حوالے سے انھوں نے مارچ کیا ان سے خواتین بھی سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گیس پریشر میں کمی ہونے یا بجلی نہ ہونے کی وجہ سے جب خواتین وقت پر کھانا وغیرہ نہیں پکا سکتی ہیں یا وقت پر مردوں کے کپڑے دھو نہیں سکتیں یا استری نہیں کرسکتی ہیں تو مردوں کے غصے کا سامنا بھی خواتین کو ہی کرنا پڑتا ہے۔

اوستہ محمد کہاں واقعہ ہے؟

اوستہ محمد بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کی تحصیل ہے۔ جعفرآباد کوئٹہ سے اندازاً ساڑھے تین سو کلومیٹر جنوب مغرب میں بلوچستان کا سندھ سے متصل سرحدی ضلع ہے۔

اس ضلع کا شمار ان تین چار اضلاع میں ہوتا ہے جن کو بلوچستان کا گرین بیلٹ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں نہری نظام کی وجہ سے زراعت زیادہ ہے۔ بلوچستان کے حصے کا جو پانی ہے وہ ان اضلاع میں سندھ سے آتا ہے۔

جہاں بلوچستان حکومت کو یہ شکایت ہے کہ سندھ سے اس کو اس کے حصے کا پورا پانی نہیں ملتا ہے وہاں مقامی کاشتکاروں کو یہ بھی شکایت ہے کہ علاقے کے سیاسی اور دیگر بااثر شخصیات کی وجہ سے غریب کاشتکاروں کو کم پانی ملتا ہے۔

بلوچستان کے دیگر اضلاع کی طرح جعفر آباد سمیت اس کی تحصیل اوستہ محمد میں بھی بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے لوگ مشکلات سے دوچار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp