اوریا مقبول جان کے آدھے سچ اور پورے جھوٹ


\"hashir\"آدھا سچ بھی پورے جھوٹ سے کم مہلک نہیں ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بات عالی مرتبت اوریا مقبول جان کو معلوم ہو گی۔ پر یہ بھی جانتا ہوں کہ انہیں سودا بیچنے سے دلچسپی ہے اور برسوں کے تجربے نے انہیں اس امر میں طاق کر دیا ہے کہ مال اگر جھوٹ کی ترازو میں تلا ہو اور منڈی میں آدھے ادھورے سچ کی دھول اڑا دی جائے تو بکری کئی گنا ہو جاتی ہے۔ جناب کا تازہ کالم نیویارک سے وارد ہوا ہے جس میں وہ دشت لیلی کے قتل عام کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔ خلاصہ کلام امریکی بربریت اور وحشت کی ایک ایسی داستان ہے جس میں امریکی پندرہ سال قبل14000 \”مجاہدین\” کے قتل عام کے مرتکب ٹہرے ہیں اور گلہ یہ بھی ہے کہ کسی نے کبھی یہ بات نہیں کی اور اگر اوریا صاحب اس پر کالم نہ لکھتے تو دنیا شاید اب بھی اس المیے سے بے خبر رہتی۔ کالم کا مطمح مجاہدین کی بے بسی اور امریکی فوجوں کی مطلق درندگی پر روشنی ڈالنا تھا تاکہ اوریا صاحب کی مستقبل کی صف بندیوں میں کچے ذہنوں کی نئی کھیپ ٹھونسی جا سکے جن کے پاس امریکہ سے، سفید فاموں سے اور غیر مسلموں سے نفرت کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔

علمی \”دیانت\” کے اس مظہر میں ہمیشہ کی طرح کچھ باتیں حضور بھول گئے، کچھ سے کمال استغنا کے ساتھ صرف نظر برتا اور بس چند کلیدی مقامات پر زیب داستان کے لیے چند اعدادوشمار میں ہیر پھیر کر لیا گیا ورنہ باقی تو سب ٹھیک ہی تھا۔

دسمبر 2001 میں دشت لیلی کے جس واقعے کا ذکر ہے اس کا اصل سرا 1992 اور 1997 سے جا ملتا ہے لیکن اگر پوری تاریخ بتا دی جائے \"orya\"    تو چاٹ کے بارہ مصالحے پورے نہیں ہوتے اور نفرت کے زاویوں کا ارتکاز بگڑ جاتا ہے۔ اوریا مقبول جان کے مطابق 2001 میں امریکی فوجوں نے دھوکے سے قندوز میں مجاہدین سے ہتھیار ڈلوائے، 60 کنٹینروں میں 14000 مجاہدین کو ٹھونسا اور دشت لیلی میں لا کھڑا کیا ۔ اکثر گھٹن اور پیاس سے مر گئے جبکہ باقیوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ کوئی بیس لوگ کسی طرح بچ گئے تو ان کے توسط سے یہ المیہ سامنے آیا ۔کسی نے یہ بات دنیا کو نہ بتائی اور اگر اوریا صاحب کو الہامی قوتیں آگاہ نہ کرتیں تو یہ راز راز ہی رہتا۔ امریکہ نے نہ اس پر تحقیقات کیں نہ معافی مانگی۔ خون ریت میں مل گیا اور کالم کا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ امریکی سفید فام ہر سیاہ فام، مسلمان، عیسائی اور ہسپانوی سے نفرت کرتا ہے۔ اس تان پر کالم ختم ہو جاتا ہے۔

زور بیان میں جن سچائیوں کو فاضل کالم نگار بھول گئے وہ ہم عرض کیے دیتے ہیں باقی آپ اپنا سچ کھوجنے میں آزاد ہیں ۔

1۔ دسمبر 2001 میں قندوز کا محاصرہ امریکی افواج نے نہیں بلکہ عبدالرشید دوستم کی جنبش ملی نے کیا تھا۔ جنبش ملی میں کوئی سفید فام امریکی عیسائی نہیں تھا بلکہ یہ ملیشیا مسلم برادران پر مشتمل تھی۔

2۔ عبدالرشید دوستم 1991 سے افغان خانہ جنگی کا بنیادی کردار رہا۔ پہلے احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار کا اتحادی رہا اور پھر احمد شاہ مسعود اور کریم خلیلی کے ساتھ شمالی اتحاد کی سربراہی کی۔ افغان خانہ جنگی کے اس دور میں روس یا امریکہ جنگ سے باہر تھے۔

\"abdul-rashid-dostum\"3۔ طالبان کے ظہور میں آنے کے بعد دوستم کی جنبش ملی کو مئی 1997 میں بڑی ہزیمت اٹھانی پڑی اور جناب برادر اسلامی ملک ترکی پناہ گزین ہو گئے۔ تاہم ان جھڑپوں میں دونوں اطراف سے بربریت کی ناقابل فراموش داستانیں رقم ہوئیں۔ بتاتے چلیں کہ طرفین الحمدللہ کلمہ گو تھے

4۔اکتوبر 97 میں واپس لوٹے اور طالبان کے خلاف صف آراء ہوئے تاہم 1998 میں شمالی اتحاد اور جنبش ملی کو مکمل شکست ہوئی

5۔ 8 اگست 1998 کو طالبان جو کہ سفید فام امریکی عیسائی نہیں تھے، نے مزار شریف اور اس سے ملحقہ علاقوں کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ دوستم پھر برادر اسلامی ملک ترکی فرار ہوگئے

6۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق طالبان نے مزار شریف کی فتح کے بعد سینکڑوں فوجیوں اور شہریوں کو جو کہ باقاعدہ مسلمان تھے، ہلاک کیا۔ ہزارہ، تاجک اور ازبک برادری کے لوگوں کو گھر گھر گھس کر نکالا گیا اور اکثر مردوں اور 14 سے 15 سال تک کے لڑکوں کو فائرنگ اسکواڈ کے آگے باڑھ پر رکھا گیا۔

7۔ انہی برادریوں سے تعلق رکھنے والے اور مسلکی مخالف گروہوں کے ہزاروں مسلمانوں کو قیدی بنا لیا گیا جنہیں پہلے شہر جیل میں رکھا گیا اور پھر دھاتی کنٹینروں میں شبرغان، ہرات اور قندھار کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ ان کنٹینروں میں 200 سے ڈھائی سو قیدی ایک وقت میں ٹھونسے جاتے اور منزل تک پہنچنے سے پہلے ان میں سے اکثر جان کی بازی ہار جاتے۔ کم ازکم دو مصدقہ واقعات میں پورے کانوائے میں سے ایک بھی شخص دوسری جیل تک زندہ نہیں پہنچا۔ یاد رہے کہ اس وقت نہ وہاں سفاک سرخ روسی تھے اور نہ درندہ نما سفید امریکی۔ یہ موت کا کھیل مسلمان مسلمان کے ساتھ کھیل رہا تھا جس کا بدلہ سود سمیت وقت آنے پر چکایا گیا۔\"a2_2291815b\"

8۔ 2002 کی نیوز ویک کی ایک طویل رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ ڈیتھ بائی کنٹینر یا موت براستہ کنٹینر کئی برسوں سے افغانیوں کا پسندیدہ طریق رہا ہے اور جس کا بس چلا اس نے مخالف قیدیوں کو اس عزابناک موت سے ہمکنار کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

9۔ طالبان کا وقت ختم ہوا تو دسمبر 2001 میں 8000 طالبان نے جنبش ملی کے کمانڈر کمال کے آگےہتھیار ڈالے۔ کمانڈر موصوف مسلمان تھےا ور سفید فام بھی نہیں تھے۔ ان 8000 قیدیوں کو قلعہ جنگی جیل منتقل کر دیا گیا جہاں کچھ دن بعد خونریز بغاوت پھوٹ پری۔ بغاوت پر قابو پانے کے بعد جنبش ملی کی افغان مسلم قیادت نے 7500 قیدیوں کو شبرغان جیل بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ منتقلی کے لیے پرانا آزمودہ کنٹینر والا نسخہ استعمال کیا گیا۔ اس بہانے پرانے حساب برابر کیے گئے۔

10۔ اسی ماہ پہلی دفعہ غیر مسلم سفید فام عیسائی آبادی کے نمائندہ نیویارک ٹائمز نے پہلی دفعہ یہ الزام لگایا کہ منتقلی کے دوران درجنوں قیدی دم گھٹنے سے مر گئے جنہیں انہی کمانڈر کمال کی نگرانی میں شبرغان سے مغرب میں موجود دشت لیلی میں اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا۔

\"hqdefault\"11۔2002 میں ایک اور سفید فام آئرش غیر مسلم جیمی ڈوراننے \”موت کا قافلہ\” کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی جس میں کہا گیا کہ مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ اگرچہ اس قتل عام کا الزام دوستم پر رکھا گیا لیکن پہلی دفعہ یہ بات کہی گئی کہ کچھ امریکی فوجی بھی اس دوران وہاں موجود تھے

12۔ سن 2002 میں ایک اور انتہائی غیر مسلم تنظیم فزیشن فار ہیومن رائٹس نے اس مسئلے پر سنجیدہ تفتیش کا ڈول ڈالا۔ ایک اجتماعی قبر بھی دریافت ہوئی مگر اس میں پندرہ لاشیں ہی مل پائیں۔ اس تفتیش کو افغانستان میں دوستم کی دھمکیوں کی وجہ سے روکنا پڑ گیا۔ فزیشن فار ہیومن رائٹس اگلے دس سال تک یہ جنگ لڑتی رہی۔ 2009 میں انہی کے مطالبے پر اوبامہ انتظامیہ نے تحقیقات شروع کیں جو بے نتیجہ رہیں

13۔2002 میں ہی نیوز ویک نے جو کہ پھر غیر مسلموں کا نمائندہ پرچہ تھا، اس سانحے میں امریکی فوجیوں کے ملوث ہونے پر سوال اٹھایا اور یہ دعوی کیا کہ مرنے والے ایک ہزار سے زائد تھے۔

14۔2008 میں احمد رشید نے اپنی کتاب میں لکھا کہ کل تیس کنٹینر تھے اور ہر کنٹینر میں 250 طالبان کو ٹھونسا گیا۔ یہ تعداد اوریا صاحب کی بتائی گئی تعداد کا ٹھیک نصف بنتی ہے۔ احمد رشید کے مطابق بہت کم لوگ زندہ بچ پائے۔ انہوں نے امریکیوں پر براہ راست ملوث ہونے کا الزام نہیں لگایا مگر یہ ضرور کہا کہ امریکی افواج اس علاقے میں موجود تھیں اور انہوں نے اس سانحے کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

15۔ 2008 میں امریکی حکومت کو فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت خفیہ دستاویزات جاری کرنا پڑیں۔ ان دستاویزات کے مطابق دشت لیلی میں مرنے والوں کی تعداد 1500 سے 2000 کے درمیان تھی۔

16۔ 2009 میں مشہور غیر مسلم صحافی جیمز رائزن اور سوزانہ سرکن نے اس موضوع پر مضمون تحریر کیے اور امریکی میڈیا پر آ کر کہا کہ 2000 لوگ اس سانحے میں مرے اور یہ کہ امریکی انٹیلی جنس کو اس بارے میں معلومات تھیں تاہم اس سارے قتل عام میں کوئی امریکی سپاہی شریک نہیں تھا۔

\"2014-0930_seg2_afghan-massacre-2\"تو بھائی یہ تھا پورا سچ۔ سانحے سے انکار نہیں ۔ قتل عام سے انکار نہیں۔ امریکی دوغلی پالیسی سے انکار نہیں۔ تحقیقات کے بند گلی میں ختم ہونے سے انکار نہیں پر کہانی کے کچھ اور کردار بھی ہیں۔ کچھ اور زاویے بھی ہیں۔ یہ کفر اور حق کا معرکہ نہیں تھا۔ نسلی، مسلکی اور عصبی تفاخر تھا۔ آواز اٹھانے والے وہ نکلے جن سے نفرت کا درس آدھا ادھورا سچ دے رہا تھا اور بندوقوں پر ہاتھ ان کا نکل آیا جو کلمہ گو بھی تھے اور اجتماعی تجزیے میں معصوم اور مظلوم بھی۔

میں نہیں جانتا کہ اوریا مقبول جان اور ان کے قبیلے کے اور صحافی جھوٹ کیوں لکھتے ہیں، سچ کو پورا کہنے سے کیوں گریز کرتے ہیں اور نفرت کی فصل کیوں بوتے ہیں ۔ پر یہ جانتا ہوں کہ ان کی آواز سنی جاتی ہے۔ لوگ ان پر یقین کرتے ہیں۔ ان کی بات کو نوائے سروش گردانتے ہیں۔ مقام یہ ہو تو ذمہ داری کا جوا بھی اتنا ہی بھاری ہوتا ہے۔ اگر یہ ذمہ داری وہ نبھانے سے گریزاں ہیں تو کسی کو تو آواز اٹھانی ہے۔ ہوا تیز ہے تو رہے، ہم اپنے حصے کا دیا جلائے جاتے ہیں۔ ہاں روشنی دیکھنے والی آنکھ پر پٹی بندھی ہے یا نہیں ، یہ سوال آپ اپنے آپ سے خود پوچھ لیں۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments