اصرار اور مزید اصرار کے باوجود یہ ریکارڈنگ نہیں ہو سکی


( شفیق الرحمان سے ملاقات کا احوال دگر )

تب مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری لاٹری نکل آئی ہو جب مجھے بتایا گیا کہ جن شخصیات کے حوالے سے پروفائل ڈوکو منٹریز بننی ہیں، ان میں شفیق الرحمان کا نام بھی شامل ہے۔

اردو ادب سے ذرا سی دلچسپی رکھنے والا اور طنز و مزاح کی طرف زیادہ راغب، شفیق الرحمان کی محبت میں مبتلا ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ خصوصاً جب وہ زمانہ طالب علمی کے مراحل سے دوچار ہو تو ان کے موضوعات، اسے اپنی طرف متوجہ کرنے اور مائل رہنے کا پورا گر جانتے ہیں۔ اس حوالے سے خود شفیق الرحمان نے اپنی حماقتیں کے پیش لفظ میں، ابراہم لنکن کا یہ شہرہ آفاق، دلچسپ تبصرہ نقل کیا تھا کہ ”وہ جو اس قسم کی کتابوں کو پسند کرتے ہیں، اس کتاب کو بالکل ویسا ہی پائیں گے، جیسی کتابوں کو وہ پسند کرتے ہیں“

حقیقت یہ ہے کہ اردو ادب میں ظرافت کو اجاگر کرنے اور اس کا حلقہ اثر وسیع کرنے میں جن لکھاریوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ فہرست، اس نام کے بغیر نا مکمل ہے۔ یہ ان کی سدابہار اور دلچسپ تحریر کا کمال ہے کہ ان کے بیان کردہ متعدد قصے، اب ہمارے ہاں لطائف کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔

ان سے ملاقات کے لئے، لاٹری کا دوسرا حصہ، بریگیڈیئر اسماعیل صدیقی کی صورت، ہاتھ آیا جنہوں نے شفیق الرحمان تک پہنچنے کا معاملہ اپنے سر لیا کہ وہ اور شفیق الرحمان، ویک اینڈ کی باقاعدہ بیٹھک کے ساتھی تھے۔ ( اس نشست کے، ان کے تیسرے ساتھی کرنل محمد خان تھے ) ۔

یہ وہ بریگیڈیئر اسماعیل صدیقی ہیں جو اسلام آباد کے دارالحکومت بننے کے ابتدائی دنوں میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے بھی وابستہ رہے۔ تاریخ اور ادب سے گہرا شغف رکھنے کے علاوہ، تراجم میں مہارت کے سبب، پاکستان ٹیلی وژن کی درآمد شدہ کئی انگریزی فلموں کو انھوں نے اردو میں منتقل کیا۔

یوں بریگیڈیئر صاحب کے طے کردہ، دن اور وقت، میں اس راستے کی طرف گامزن ہوا جس نے اردو ادب کے ڈھیروں بے مثال کرداروں کے خالق اور مزاح کو اردو ادب کا مزاج بنا دینے والے، ایک عظیم تخلیق کار کی طرف لے جانے کے لئے میری رہنمائی کرنی تھی۔

میرے ساتھ، اس سفر میں شفیق الرحمان کے کچھ اور عقیدت مند بھی شریک تھے جن کی مسلسل گفتگو سے سفر مزید دلچسپ ہو چلا تھا۔ ہر کوئی اپنے حوالے سے ان کے ساتھ اپنے تعلق کو زیادہ نمایاں کرنے پر مصر تھا۔ کوئی حماقتیں کا مداح تھا تو کوئی مزید حماقتیں کا دلدادہ۔ کسی کو دجلہ پسند تھی تو کوئی لہریں پر فریفتہ۔ کوئی اپنی پسند کی کردار کے تذکرے کے لئے بے تاب تھا تو کوئی ان کی کتابوں سے اقتباس سنانے کے لئے مضطرب!

ایک صاحب جو شکل سے ہی فلاسفر دکھائی دیتے تھے ( اور شاید اپنی حر کتوں کی وجہ سے اپنے اساتذہ کے ستائے ہوئے تھے ) ، ان کے لبوں پر یہ جملے احتجاج کی صورت میں نمایاں تھے :

” ہمارے ماسٹر صاحب بڑے خوں خوار قسم کے آدمی تھے، وہ ان حضرات میں سے تھے، جو آپ سے سوال پوچھیں گے، آپ کی طرف سے خود جواب دیں گے اور پھر آپ کو ڈانٹیں گے“ ۔

دوسرے صاحب روفی تھے جن کی عادات و اطوار کے بارے میں ان کے دوستوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ”اگر وہ چائے کی دریافت سے پہلے اس دنیا میں ہوتے، تو خدا جانے ان کا کیا حال ہوتا“ ۔ روفی کے بارے میں اس بات پر بھی سب دوستوں میں اتفاق رائے تھا کہ ان میں شیطان کی ساری صفات موجود ہیں۔ اسی لئے ہماری ٹیم کے خلاف، کرکٹ میں نناوے ناٹ آؤٹ کی سازش میں، ان ہی کو قصوروار گردانا جاتا ہے۔

ایک لڑکی جو خاموش تھی، اس کا تعارف کرانے کو کہا گیا تو ان کے دوستوں کی طرف سے جواب ملا کہ ”ان کا نام وہمیدہ، سہمیدہ، یا رحمیدہ وغیرہ ہو گا مگر حلیہ کچھ ایسا بنا لیا تھا کہ شلوار قمیض پہنے، یا غرارہ، ساری ہو یا کوئی اور لباس، دور سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے تہمد باندھ رکھا ہے، چنانچہ سب اسے تہمیدہ کہا کرتے“

مقصود، جنہیں ان کی شباہت یا شاید تیز رفتاری کی وجہ سے، ان کے دوست انھیں، بڑی بے باکی سے گھوڑا کہہ کر مخاطب کر رہے تھے، وہ اپنی مسلسل اداسی کی حالت سے نکل کر، اپنا علم بگھارتے ہوئے بولے ”علم و فن کے شوقین پہلے تلاش یعنی سرچ کرتے ہیں۔ جب پوری تسلی نہیں ہوتی یا علوم اچھی طرح قابو میں نہیں آتے تو پھر دوبارہ ہلہ بول کر ریسرچ کرنی پڑتی ہے“

اس طرح، ان خوش گوار باتوں اور یادوں میں سفر طے ہونے کا بالکل پتہ نہ چلا اور ہم اپنی من چاہی منزل کے مقابل پہنچ چکے تھے۔

لہذا، ضروری تھا کہ اب ذہن سے شفیق الرحمان کے کرداروں کی یاد کو جھٹکتے ہوئے، ہم ان کے سامنے ڈوکو منٹری کی تیاری کا معاملہ، پورے جوش و خروش سے پیش کرنے کا عزم پھر تازہ کر لیں۔

مین گیٹ پر کال بیل بجاتے ہوئے، بریگیڈیئر اسماعیل صدیقی کے وہ جملے، میرے کانوں میں گونجنے لگے جو انھوں نے ہماری ملاقات طے کرتے ہوئے، میرے گوش گزار کیے تھے ”میں نے شفیق الرحمان سے ملاقات کا وقت تو لے لیا ہے مگر یہ بھی بتا دوں کہ ان کو ڈوکو منٹری کے لئے آمادہ کر نا، اتنا سہل نہیں، یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، کیوں کہ کوئی کتنا ہی قائل کرنا چاہے، وہ اب میڈیا کو وقت دینے پر بالکل راضی نہیں ہوتے“
اور بریگیڈیئر اسماعیل صدیقی کا اندیشہ سو فیصد صحیح نکلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).