ایک روپے میں ہوائی سفر کے خواب دکھانے والا شخص


یہ سنہ 2005 کے موسم گرما کی بات ہے۔ آرمی سے سبکدوشی کے بعد تجارت کی دنیا میں قدم رکھنے والے جی آر گوپی ناتھ نے اعلان کیا کہ وہ لوگوں کے لیے ایک روپے میں ہوائی سفر کو ممکن بنائیں گے۔

اس وقت ملک کی پہلی بجٹ یعنی سستی ایئر لائن کمپنی کے بانی گوپی ناتھ کا یہ وعدہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔

ایزی جیٹ اور راین ایئر جیسی یورپی بجٹ ایئر لائنز سے ترغیب حاصل کرنے والی ان کی دو سال پرانی ایئر لائن کمپنی ‘ایئر ڈکن’ اب لاکھوں لوگوں کو کم قیمت پر ہوائی سفر کرنے کا موقع فراہم کر رہی تھی۔ ان کے حریفوں کے مقابلے میں ان کی کمپنی کی ہوائی سفر کے ٹکٹ کی قیمتیں تقریباً نصف تھیں۔

‘ایئر ڈکن’ ایک ‘نو فرلز ایئر لائن’ تھی، یعنی ایسی ایئر لائن جس میں سفر کی لاگت کو کم کرنے کے لیے مسافروں کو صرف ضروری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ سفر کو سستا بنانے کے لیے فلائٹ انٹرٹینمنٹ، فلائٹ کے دوران کھانا اور بزنس کلاس جیسی غیر ضروری سہولیات پر خرچ نہیں کیا جاتا ہے۔

کیپٹن گوپی ناتھ کی ایئر لائن کمپنی نے ایک ‘ڈائنیمک پرائسنگ’ نظام متعارف کرایا جس کے تحت بہت پہلے خریداری کرنے والے کچھ صارفین صرف ایک روپے میں سفر کرسکتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ایشیا کی اگلی ’سُپر ایپ‘ کون سی ہوگی؟

کورونا وائرس: انڈیا میں ہوا بازی کی صنعت کتنی متاثر ہوئی ہے؟

برٹش ایئر ویز کا تمام بوئنگ 747 طیاروں کو ریٹائر کرنے کا فیصلہ

اس سسٹم کے تحت جو تاخیر سے ٹکٹ خریدتے انھیں اسی سفر کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی، لیکن اس کے باوجود ان کے ٹکٹ کی قیمت دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں کم ہوتی تھی۔

ایسے میں یہ تعجب کی بات نہیں تھی کہ ایئر لائن کے ٹکٹ کاؤنٹرز کے باہر صارفین کی لائنیں ہوتی تھیں، جن میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جنھوں نے پہلے کبھی ہوائی جہاز سے سفر نہیں کیا تھا۔

لیکن ناقدین کا خیال تھا کہ کم قیمت پر ہوائی سفر کی سہولیات کا یہ نظام اس صنعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

کیپٹن گوپی ناتھ نے اپنی سوانح عمری میں لکھا: ‘ایک روپے میں جہاز کے ٹکٹ نے لوگوں کے تخیل کو ایک نئی اڑان دی اور جلد ہی اس کے متعلق گفتگو ہونے لگی۔’

ان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی نے ‘نا صرف عام لوگوں کے لیے ہوائی جہاز کی مہنگی قیمت کی رکاوٹ ختم کردی بلکہ پرواز کے میدان میں ذات پات اور طبقے کے امتیاز کو بھی ختم کردیا۔’

گوپی ناتھ کی زندگی پر مبنی فلم

رواں ہفتے امیزون پرائم پر ‘سورارای پوٹرو’ نامی ایک تامل فلم ریلیز کی گئی ہے جس میں اس تاجر کی جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔

کیپٹن گوپی ناتھ کی سوانح عمری پر مبنی فلم کو اکیڈمی ایوارڈ یافتہ گونیت مونگا نے پروڈیوس کیا ہے۔

مونگا نے بی بی سی کو بتایا: ‘یہ امیر اور متوسط طبقے کے مابین فاصلہ کم کرنے کی کوشش کی ایک حیرت انگیز کہانی ہے۔ کیپٹن گوپی ناتھ کے ذریعے شروع کی جانے والی سستی پرواز کے بارے میں ملک کے بہت سے لوگوں میں جوش تھا۔’

اس فلم میں تمل فلم کے معروف اداکار سوریہ نے بزنس مین کیپٹن گوپی ناتھ کا کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘وہ انڈیا میں ہوا بازی کے شعبے میں انقلاب لائے اور انھوں نے ہوائی سفر میں جو معاشی رکاوٹ تھی اسے دور کیا۔’

‘سوررائی پوٹرو’ میں وہ سب کچھ ہے جو ایک کمرشل تمل فلم میں ہوتا ہے۔ اس میں گیت ہیں، رقص ہے۔ اس میں ذات پات اور طبقے کی تفریق کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں ایکشن اور میلوڈراما بھی ہے۔

لیکن فلم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیپٹن گوپی ناتھ نے ملک میں پڑے 500 ہوائی اڈے اور خالی ہوائی پٹیوں کو تلاش کیا تاکہ ملک کے چھوٹے چھوٹے علاقوں تک ہوائی خدمات پہنچائی جا سکے۔

اس میں دکھایا گیا ہے کہ زیادہ پیسوں کی ضرورت پڑنے پر کس طرح ان کی اہلیہ اپنے بینکنگ کاروبار سے اپنے تمام پیسے انھیں دے دیتی ہیں اور فوج میں کام کرنے والے ان کے دوست کیسے اس خواب کو پورا کرنے میں ان کے سب سے اہم ساتھی ثابت ہوئے۔

سوریہ کا کہنا ہے کہ ‘یہ فلم مساوات کے بارے میں ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کے لیے کیپٹن گوپی ناتھ نے کوشش کی۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ان کے مقاصد ان کی اہلیت سے کہیں زیادہ تھے۔ وہ اپنی کوششوں میں ناکام بھی رہے اور دیوالیہ بھی ہوئے لیکن کبھی نہ ہار ماننے کی ان کی ضد قابل تعریف تھی۔’

اس فلم کے متعلق اچھے تبصرے سامنے آئے ہیں۔ فلم دیکھنے کے بعد ناظرین نے بتایا کہ یہ ایک ‘دلچسپ فلم’ ہے۔ شائقین میں سے ایک شخص کا کہنا تھا کہ ‘غربت سے امیری کی طرف جانے کی اس کہانی میں ملک کے ذات پات کے نظام پر شدید تنقید کی گئی ہے۔’

ایک فلم مبصر نے کہا: ‘یہ سرخیوں میں نہ رہنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جنھوں نے محنت سے اپنی جنگ لڑی اور جیت حاصل کی۔

کیپٹن گوپی ناتھ جنوبی ریاست کرناٹک کے ایک دور دراز گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ایک ٹیچر تھے اور کھیتی باڑی بھی کرتے تھے، جبکہ ان کی والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ انھوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 1971 کی بنگلہ دیش جنگ تک فوج میں شامل رہے۔

28 سال کی عمر میں انھوں نے فوج سے سبکدوشی اختیار کر لی۔ کچھ نیا کرنے کی کوشش میں انھوں نے اپنے دوستوں کی مدد سے ریشم کی کاشتکاری اور ہاسپیٹلیٹی جیسے کاروبار میں قسمت آزمائی کی۔

کیپٹن گوپی ناتھ نے ایک بار بی بی سی کو بتایا تھا کہ ‘جب میں جوان تھا، میں کچھ نیا کرنے کے لیے بے چین رہتا تھا اور میں چاہتا تھا کہ دولت تک ہر ایک فرد کی رسائی ہو۔’

انھوں نے بتایا کہ ان کے دوست کہتے تھے کہ صرف خواب دیکھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اپنے ‘خواب کو فروخت کرنے کا ہنر’ بھی ضروری ہے۔

ایئر ڈکن

گوپی ناتھ کی ایئرلائن ڈکن ایئر سے کمپنی کے مطابق 30 لاکھ افراد نے ایک ایک روپے میں سفر کیا

سنہ 1997 میں انھوں نے نجی کمپنی کے طور پر ہیلی کاپٹر سروس شروع کی۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی ‘کمپنی کا موٹو تھا کہ نقشے پر کوئی جگہ دکھائیں، ہم آپ کو وہاں پہنچائیں گے۔’

سنہ 2000 میں امریکہ میں چھٹیاں گزارنے کے دوران انھیں انڈیا میں سستی ایئر لائن شروع کرنے کا خیال آیا۔

فینکس میں انھوں نے ایک مقامی ایئرپورٹ دیکھا جہاں سے تقریباً ایک ہزار پروازیں اڑان بھرتی تھیں اور روزانہ تقریباً ایک لاکھ مسافروں کو سہولیات پہنچاتی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت ان کے لیے یہ سوچنا مشکل تھا کہ امریکہ کا ایک چھوٹا سا ہوائی اڈہ (جو ملک کے بڑے ہوائی اڈے میں شامل نہیں ہے) اتنی پروازیں چلاتا ہے جتنا کہ انڈیا کے 40 ہوائی اڈے مل کر نہیں چلاتے۔

انھوں نے اس کے متعلق مزید معلومات اکٹھی کیں اور دیکھا کہ امریکہ میں ایک دن میں 40 ہزار تجارتی پروازیں چلتی ہیں جبکہ انڈیا میں صرف 420۔

انھوں نے فورا ہی ایک چھوٹا سا حساب لگایا کہ اگر انڈیا میں بسوں اور ٹرینوں میں روزانہ سفر کرنے والے تین کروڑ افراد میں سے صرف پانچ فیصد ہوائی جہازوں میں آجائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک سال میں ہوابازی کے کاروبار کو 53 کروڑ صارفین ملیں گے۔

انھوں نے وضاحت کی کہ ‘یہ تعداد بظاہر بڑی نظر آتی ہے لیکن واقعتاً ایسا نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ 53 کروڑ لوگ ہوائی جہازوں میں سفر کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 20 کروڑ درمیانے طبقے کے افراد ایک سال میں ڈھائی بار سفر کریں گے۔ اگلے تیس سال کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ خیال سے بھی پرے کی چیز لگتی ہے۔

کیپٹن گوپی ناتھ کہتے ہیں: ‘جب میں انڈیا واپس آیا تو میں یہی سوچتا رہا کہ ملک میں عام آدمی کو بھی ہوائی جہاز میں بیٹھنے کی سہولت ہونی چاہیے۔’

گوپی ناتھ

سنہ 2003 میں کیپٹن گوپی ناتھ نے اپنی ایئرلائنز قائم کی

اگست سنہ 2003 میں کیپٹن گوپی ناتھ نے 48 نشستوں اور دو انجنوں والے چھ فکسڈ ونگ ٹربوپراپ طیارے کے بیڑے کے ساتھ ایئر ڈکن کی بناد ڈالی۔ اس کمپنی کی پہلی پرواز جنوبی انڈیا کے شہر ہبلی سے بنگلور کے لیے تھی۔

سنہ 2007 میں اس کمپنی کی 380 پروازیں ملک کے 67 ہوائی اڈوں سے چلائی جا رہی تھیں۔ کمپنی کا بیڑا اب 45 طیاروں پر مشتمل تھا۔

جب کمپنی شروع کی گئی تھی اس وقت کمپنی کے طیاروں میں صرف دو ہزار افراد روزانہ سفر کر رہے تھے لیکن چار سال بعد یومیہ 25 ہزار افراد سستے داموں سفر کررہے تھے۔ ایک روپے کے ٹکٹ پر تقریباً تیس لاکھ افراد نے ہوائی سفر کیا۔

لیکن وقت کے ساتھ کمپنی کا خسارہ بڑھتا گیا اور بڑھتی قیمتوں کے مطابق اس کمپنی کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ سنہ 2007 میں کیپٹن گوپی ناتھ نے اپنی کمپنی ڈکن ایئر کو شراب کے بڑے تاجر وجئے مالیا کی کمپنی کنگ فشر کو فروخت کر دیا۔ وجئے مالیا کنگ فشر ایئرلائن کے مالک بھی تھے۔ مالیا نے ایئر دکن کا نام کنگ فشر ریڈ رکھا۔

اس وقت تک ملک کی ہوابازی کی صنعت میں بہت سی دوسری کمپنیاں بھی کود پڑی تھیں جو صارفین کو سستے ہوائی سفر فراہم کر رہی تھیں۔ سنہ 2018 میں 14 کروڑ افراد نے ملک کے اندر سستی پروازوں میں سفر کیا۔

ایئر ڈکن کے طیارے اب پرواز نہیں کرتے ہیں۔ ستمبر سنہ 2011 میں مالیا کی کمپنی کنگ فشر ریڈ بھی بند ہو گئی۔ بعد میں ان کا سارا کاروبار دیوالیہ ہوگیا۔

سنہ 2012 میں کیپٹن جی آر گوپی ناتھ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ‘مالیا کے پاس کمپنی کے لیے کبھی وقت نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر انھوں نے کمپنی پر توجہ دی ہوتی تو اس شعبے میں ان سے بہتر اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔’

انھوں نے کہا تھا: ‘یہ افسوسناک ہے لیکن ایئر ڈکن کا خواب اب بھی زندہ ہے اور سستی پرواز فراہم کرنے کے لیے انقلاب بھی جاری ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp