کیا پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے اپنی اکلوتی بیٹی کو عاق کردیا تھا؟


 

دنیا جناح

یہ 15 نومبر سنہ 1938 کی بات ہے جب قائداعظم محمد علی جناح کی صاحبزادی دینا جناح نے نیول واڈیا نامی ایک پارسی نژاد عیسائی نوجوان سے شادی کرلی۔

یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ جناح اس شادی سے خوش نہیں تھے۔ انھوں نے اپنے طور پر دینا جناح کو اس شادی سے باز رکھنے کی تمام کوششیں کیں مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ شادی میں شرکت نہ کرنے کے باوجود وہ اپنی بیٹی کی زندگی کے اس اہم دن پر گلدستہ بھیجنا نہیں بھولے۔ انھوں نے یہ گلدستہ اپنے ڈرائیور عبدالحیی کے ذریعے بھجوایا تھا۔

دینا جناح محمد علی جناح کی اکلوتی صاحبزادی تھیں۔ 1929 میں صرف 10 برس کی عمر میں وہ اپنی والدہ رتی جناح کے سائے سے محروم ہوگئی تھیں جس کے بعد محمد علی جناح نے فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان کے بجائے انگلستان میں سکونت اختیار کریں چنانچہ وہ اپنی بہن فاطمہ جناح اور دینا جناح کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے۔

محمد علی جناح نے دینا کو کانونٹ سکول میں داخل کروا دیا مگر انھیں سنہ 1934 میں ہندوستان لوٹنا پڑا۔ ان کی واپسی سے پہلے ہی بمبئی کے مسلمانوں نے انھیں اپنی زندگی کے لیے مجلس قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب کرلیا تھا۔ چنانچہ واپس آتے ہی وہ سیاسی سرگرمیوں میں بری طرح مصروف ہوگئے اور ان کا اور محترمہ فاطمہ جناح کا زیادہ تر قیام دہلی میں رہنے لگا۔

سنہ 1936 میں محمد علی جناح نے دینا کو بھی ہندوستان واپس بلا لیا۔ انھوں نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر دینا کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اسے اس کی ننھیال میں چھوڑ دیا جائے۔ یہ فیصلہ اس حوالے سے تو بڑا اچھا ثابت ہوا کہ دینا کو ایک محبت سے بھرپور فضا میسر آگئی مگر اس حوالے سے بڑا نقصان دہ ثابت ہوا کہ وہ آہستہ آہستہ ایک سراسر غیر اسلامی ماحول میں ڈھل گئیں۔

سر ڈنشا پیٹٹ اور لیڈی پیٹٹ پارسیوں کے انتہائی معزز ارکان میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا خاندان بہت آزاد خیال اور جدت پسند واقع ہوا تھا۔ دینا آہستہ آہستہ اس ماحول کے رنگ میں رنگتی چلی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ رفتہ رفتہ اسلام اور اس کی رسوم و رواج حتیٰ کہ اپنے والد کے اصولوں سے دور ہٹتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایک پارسی نژاد عیسائی شخص نیول واڈیا سے شادی کا فیصلہ کرلیا۔

جب قائداعظم کو اس صورت حال کا علم ہوا تو انھیں سخت فکر لاحق ہوئی۔ انھوں نے پہلے تو خود دینا کو اس روش پر چلنے سے روکنا چاہا۔ انھیں سمجھایا، بجھایا، افہام و تفہیم سے کام لے کر اسے اپنے خیالات پر نظرثانی کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد انھوں نے مشہور مسلمان رہنما مولانا شوکت علی کے ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ دینا کو اسلام کے اصولوں اور ان کی اہمیت سے روشناس کروائیں۔ مگر وہ بھی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود دینا کے خیالات میں تبدیلی پیدا کرنے میں ناکام رہے۔

قائداعظم کے ایک دوست جسٹس ایم سی چھاگلہ نے اپنی سوانح حیات ‘روزز ان دسمبر میں لکھا:

جناح نے حسب معمول اپنے نادر شاہی انداز میں دینا سے کہا ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکے موجود ہیں اور وہ جسے پسند کرے اسی کے ساتھ اس کی شادی کردی جائے گی۔‘ اس پر دینا نے جو حاضر جوابی میں اپنے باپ سے بڑھ کر تھی، برجستہ کہا ابا جان! ہندوستان میں لاکھوں مسلمان لڑکیاں موجود تھیں، آپ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ شادی کیوں نہیں کی تھی؟

’پاپا نے جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہایت پرسکون لہجے میں فیصلہ سنایا‘

دینا نے اپنی شادی کے ایک طویل عرصے بعد اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’پاپا نے میری بات سکون سے سننے کے بعد انتہائی متانت سے جواب دیا ‘میری پیاری بیٹی، تمھاری ممی نے بھی مجھ کو منتخب کرنے کے بعد اپنے ڈیڈی سے شادی کی اجازت طلب کی تھی جو انھوں نے بطبیب خاطر دے دی تھی۔ میں بھی تمھیں اس کی خوشی کے ساتھ اجازت دوں گا لیکن شرط ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ تمھارا ہونے والا شوہر اسلام قبول کرلے تاکہ تمھارا نکاح اسلام کی شرط کے مطابق ہوسکے۔‘ پھر پاپا نے نہایت شفقت سے مجھے ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی عقائد میں ہم آہنگی سے ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔‘

’پاپا نے یہ سب باتیں کسی قسم کے جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہایت پرسکون لہجے میں کہیں۔ مجھے خوب معلوم تھا کہ پاپا کا ایک ایک لفظ معنی رکھتا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ میری زندگی کا پہلا فیصلہ کن مرحلہ ہے، میں نے پاپا سے وعدہ کیا کہ میں اپنے شوہر کے اسلام قبول کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گی اور اگر ضرورت پڑی تو اس سلسلے میں پاپا کی رہنمائی بھی حاصل کروں گی۔‘

’جب میں نے مسٹر واڈیا سے شادی سے پہلے اسلام قبول کرنے کے متعلق کہا تو انہوں نے ایسا کرنے سے صاف صاف انکار کردیا۔ اب میرے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو میں اپنے باپ کی خواہشات کے مطابق مسٹر واڈیا سے شادی کرنے سے انکار کردوں یا مسٹر واڈیا سے شادی کر کے باپ کی ناراضی مول لے لوں۔ میں نے دل میں کہا، واڈیا سے شادی کر لینی چاہیے باپ آخر باپ ہے چند دن، مہینے، ہفتے یا زیادہ سے زیادہ چند ماہ ناراض رہنے کے بعد خود بخود مان جائیں گے چنانچہ میں نے ایک دن پاپا کو اپنے اس ارادے سے مطلع کردیا۔‘

’میری باتیں سننے کے بعد پاپا نے برف کی سی ٹھنڈک کے ساتھ مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ’بیٹی، تم جانتی ہو کہ تمھارے سوا میری اور کوئی اولاد نہیں۔ مجھے تم سے جتنی محبت ہے اس کا اندازہ لگانا تمھارے لیے ممکن نہیں۔ میرا بیٹا بھی کوئی نہیں اس لیے لے دے کے زندگی میں تم ہی میری آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہو لیکن اب تم بالغ ہو۔ میں تمھارے فیصلے میں دیوار بننا پسند نہیں کرتا۔ اب تم میرا فیصلہ بھی سن لو اگر تم نے جان بوجھ کر برضا ورغبت ایک غیر مسلم سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو تم شرع محمدی کے مطابق مسلمان نہیں رہ سکتیں۔ تم مرتد قرار پائوگی۔ اسلام خون کے رشتوں کو قبول نہیں کرتا اس لیے اس کے بعد تم میری اصطلاحی بیٹی تو شاید کہلا سکو۔ لیکن درحقیقت تم میری بیٹی اور میں تمہارا باپ نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اس فیصلے کے بعد جونھی تم میرے گھر کی چار دیواری سے باہر پانو رکھوگی تمھارے اور میرے درمیان تمام تعلقات منقطع متصور ہوں گے۔‘

’تھوڑی دیر توقف کے بعد پاپا نے قدرے جذباتی لہجے میں کہا ’کاش میں تمھیں تمھارے فیصلے سے باز رکھ سکتا۔ کاش، تمھیں معلوم ہوتا کہ میرے سینے میں باپ کے دل کی جس کی ایک ہی بیٹی ہو کیفیت کیا ہے، لیکن میں اسلامی احکام کے آگے اپنے آپ کو بے بس اور لاچار پاتا ہوں۔‘ یہ کہہ کر پاپا گردن جھکائے ہوئے میری سسکیوں کے درمیان اپنے بیڈ روم میں چلے گئے۔‘

’جب میرے پاپا مجھ سے یہ گفتگو کر رہے تھے تو ان کی آنکھیں، ان کا چہرہ کسی اور ہی دنیا کے نظر آتے تھے۔‘

قائداعظم کے بیشتر سوانح نگاروں نے جن میں سٹینلے وولپرٹ تک شامل ہیں، یہ لکھا کہ قائداعظم نے شادی کے بعد اپنی لاڈلی بیٹی سے کبھی گفتگو نہیں کی۔

بعض مصنفین نے یہاں تک لکھا کہ جب قائداعظم شدید علیل ہوئے اور ان کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو دینا نے باپ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، مگر قائداعظم نے اس ملاقات کی بھی اجازت نہ دی۔ اس طرح وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور زندگی کی آخری سانس تک وہ دینا کی اور دینا ان کی شکل نہ دیکھ سکی۔ مگر حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔

30 مئی 1939 کو قائداعظم نے اپنا آخری وصیت نامہ تحریر کیا۔ اس وصیت نامے کی پہلی شق تھی، یہ میرا آخری وصیت نامہ ہے۔ میں اپنے دیگر وصیت نامے منسوخ کرتا ہوں۔ دوسری شق میں انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح، سولسٹر محمد علی چائے والا اور نواب زادہ لیاقت علی خان کو اس وصیت نامے کا موصی، عامل اور ٹرسٹی مقرر کیا۔ اس وصیت نامے کی شق نمبر10 میں واضح طور پر تحریر تھا کہ ’میں اپنے عاملین کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ 200000روپے (دو لاکھ یا دو سو ہزار) مختص کر دیں جن سے چھ فی صد کے حساب سے ایک ہزار روپے آمدنی ہوگی اور وہ اس سے جو بھی آمدنی ہو ہر ماہ میری بیٹی کو تاحیات ادا کریں اور اس کی وفات کے بعد دو لاکھ کی مذکورہ رقم اس کے بچوں، لڑکے یا لڑکیوں میں برابر تقسیم کردیں اور بے اولاد ہونے کی صورت میں وہ رقم میری بقیہ جائیداد کا حصہ شمار ہوگی۔‘

قائداعظم نے اپنی وصیت میں واضح طور پر اپنی بیٹی کو اپنی جائیداد کے ایک حصے کا وارث قرار دیا مگر اس کے باوجود چند برس تک وہ اپنی بیٹی سے ملنے سے گریز کرتے رہے۔ جبکہ دینا مسلسل کوشش کرتی رہیں کہ ان کے تعلقات ان کے والد سے دوبارہ استوار ہوجائیں۔

اپریل 1941 میں قائداعظم مدراس میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے دوران بیمار ہوگئے۔ یہ خبر دینا کو ملی تو اس نے فوری طور پر ایک ٹیلی گرا م کے ذریعے اپنے والد کی خیریت دریافت کی۔ ٹیلی گرام کی عبارت یہ تھی:

’ایم اے جناح، صدر مسلم لیگ مدراس، آپ کی صحت کے بارے میں بہت تشویش ہے۔ بہت پیار دینا بائی۔‘

یہ ٹیلی گرام حکومت پاکستان کے نیشنل آرکائیوز ڈپارٹمنٹ میں آج بھی محفوظ ہے۔

سنہ 1943 کے لگ بھگ دینا اور ان کے شوہر نیول واڈیا میں علیحدگی ہوگئی۔ اس وقت تک دینا دو بچوں، بیٹی ڈائنا اور بیٹے نصلی کی ماں بن چکی تھیں۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد قائداعظم اور ان کی بیٹی میں ایک مرتبہ پھر روابط استوار ہوگئے، گو اب ان میں پہلی جیسی گرم جوشی موجود نہ تھی۔

دینا اپنی ایک یادداشت میں تحریر کرتی ہیں:

’میرے والد اگرچہ اپنے جذبات کو چھپانے والے شخص تھے لیکن وہ ایک محبت کرنے والے باپ تھے۔ میری ان سے آخری ملاقات سنہ 1946 میں بمبئی میں ہوئی۔ وہ نئی دہلی سے آئے تھے جہاں وہ انتہائی اہم مذاکرات میں مصروف رہے تھے۔ انھوں نے مجھے فون کیا اور مجھے اور میرے بچوں کو چائے پر مدعو کیا۔ وہ ہم سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ اس وقت میری بیٹی ڈائنا پانچ برس کی اور بیٹا نصلی دو برس کا تھا۔ وہ تمام وقت بچوں اور سیاست کے بارے میں بولتے رہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ پاکستان ناگزیر ہے۔ وہ دہلی میں انتہائی مصروف وقت گزار کر آئے تھے مگر ہمارے لیے تحفے خریدنا نہیں بھولے تھے۔ جب ہم ان سے رخصت ہونے لگے تو وہ نصلی کو بازوؤں میں جکڑنے کے لیے جھکے۔ ان کی سرمئی ٹوپی، جو وہ اب اکثر پہننے لگے تھے اور جو انھی کے نام کی نسبت سے جناح کیپ کہلانے لگی تھی، نصلی کے ہاتھ میں آگئی۔ میرے والد نے اگلے ہی لمحے وہ ٹوپی نصلی کے سر پر رکھ دی اور بولے ’میرے بچے! یہ تمہاری ہوئی۔‘ نصلی یہ تحفہ پا کر بہت خوش ہوا۔ مجھے یہ واقعہ اس لیے ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس سے میرے والد کی وہ بے کراں محبت ظاہر ہوتی ہے جو ان کے دل میں میرے اور میرے بچوں کے لیے تھی۔‘

’میرے والد کے کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ وہ بہت متکبر تھے۔ یہ غلط ہے۔ دراصل وہ جیسے کو تیسا کے قائل تھے۔ وہ میری طرح ایک بہت نجی شخص تھے۔ اصولوں کی خاطر وہ اپنا سر ہمیشہ اونچا رکھتے تھے۔ وہ خود سے اور دوسروں سے عوامی یا ذاتی زندگی میں کبھی جھوٹ بھی نہیں بولتے تھے۔ جب لوگ ان کے بارے میں غلط سلط باتیں کرتے ہیں تو مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ ایسے لوگ جو ان سے کبھی ملے تک نہیں وہ بھی میرے اور میرے والد کے تعلق کے حوالے سے غلط باتیں بیان کرتے ہیں۔ وہ میرے والد کو عام انسانوں کی سطح پر لانے کے لیے داستان طرازیوں سے بھی گریز نہیں کرتے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں: ’برصغیر نے مسلمانوں کے بہت سے رہنما پیدا کیے مگر میرے والد کے علاوہ کسی نے انھیں ایک آزاد ملک نہیں دلوایا۔ اہل پاکستان کو اگر میرے والد پر فخر ہے تو بالکل ٹھیک فخر ہے۔ جناح نہ ہوتے تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔‘

قائداعظم اور دینا میں قیام پاکستان سے کچھ پہلے تک باقاعدہ خط کتابت بھی رہی۔ اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے ڈپارٹمنٹ آف آرکائیوز میں دینا کے ایسے کئی خطوط موجود ہیں جو انھوں نے اپنے عظیم باپ کو وقتاً فوقتاً تحریر کیے تھے۔

ان خطوط کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دینا اپنے باپ کی سیاسی سرگرمیوں سے نہ صرف لمحہ بہ لمحہ باخبر رہتی تھیں بلکہ ان پر اظہار رائے بھی کرتی رہتی تھیں۔

انھوں نے اپنے ایک خط میں جو 28 اپریل سنہ1947 کو لکھا گیا تھا، قائداعظم کو مبارک باد پیش کی ہے کہ پاکستان کا مطالبہ اصولی طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک خط میں جو دو جون1947 سنہ کو شروع ہوا اور پانچ جون تک لکھا جاتا رہا، قائداعظم کی اس تاریخی تقریر پر اظہار رائے کیا گیا جو انھوں نے تین جون سنہ 1947 کو آل انڈیا ریڈیو سے کی تھی۔ اس خط میں دینا نے لکھا:

’میں نے تین جون کو آپ کی تقریر سنی۔۔۔ میرا خیال ہے آپ کی تقریر بہترین اور برمحل تھی۔ اگرچہ آپ وہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکے جو آپ چاہتے تھے مگر جو کچھ آپ کو مل گیا ہے کانگریس سے وہ بھی ہضم نہیں ہوگا۔ ہندو پاکستان کے مطالبے کے مانے جانے اور دو آزاد ریاستوں کے قیام سے بہت ناخوش ہیں۔ تاہم آپ کا اصل کام تو پاکستان بننے کے بعد شروع ہوگا۔۔۔ میں جانتی ہوں آپ اس میں بھی کامیاب رہیں گے۔‘

28 اپریل1947 سنہ کے خط میں دینا نے قائداعظم کو یہ بھی لکھا تھا:

’میں نے سنا ہے کہ آپ نے ’ساؤتھ کورٹ‘ بیس لاکھ روپے میں ڈالمیا کو بیچ دیا ہے۔ یہ بہت اچھی قیمت ہے اور یقیناً آپ بھی خوش ہوں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مکان کی قیمت میں فرنیچر اور رتی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ رتی کی کتابوں میں سے کچھ کتابیں بالخصوص بائرن، شیلے اور آسکر وائلڈ کے شعری مجموعے مجھے دلوا دیجیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں مطالعہ کی کتنی شوقین ہوں اور یہاں بمبئی میں اچھی کتابوں کا حصول کتنا مشکل ہے۔‘

تین اور پانچ جون والے خط میں دینا نے ایک مرتبہ پھر سائوتھ کورٹ کا ذکر کیا اور لکھا:

’مجھے افسوس ہے کہ سائوتھ کورٹ کو فروخت کرنے والی اطلاع غلط ثابت ہوئی۔ میں نے اس بارے میں فورم میگزین میں پڑھا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کا رسالہ اس قدر جھوٹی خبریں شائع کرتا ہے۔‘

سائوتھ کورٹ میں قائداعظم کا جو فرنیچر اور ذاتی اشیا تھیں، انھیں قائداعظم کے دوست رجب علی بھائی ابراہیم باٹلی والا نے اپنی نگرانی میں پیک کروایا اور برٹش انڈیا کے بحری جہازوں دوارکا اور دمرا کے ذریعہ کراچی بھجوا دیا۔

کراچی میں لکڑی کے ان بڑے بڑے صندوقوں کے میکننز کے منیجر اقبال شفیع نے وصول کیا۔ لگتا ہے کہ ان صندوقوں میں رتی کی کتابیں بھی تھیں۔۔۔ قائداعظم کا یہ فرنیچر اس وقت فلیگ سٹاف ہاؤس (قائداعظم ہاؤس) کراچی میں موجود ہے۔ جبکہ رتی کی کتابیں جامعہ کراچی کی ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے قائداعظم سیکشن کی زینت ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد دینا اپنے بچوں کے ہمراہ بمبئی میں مقیم رہیں۔ ایک روایت کے مطابق قائداعظم کی علالت کی خبریں سن کر دینا نے ان کی عیادت کے لیے پاکستان آنا چاہا مگر قائداعظم کی ذاتی ہدایات کے باعث انھیں ویزا جاری نہیں کیا گیا۔

11 ستمبر1947 کو قائداعظم وفات پاگئے۔ 12 ستمبر1948 کو صبح سوا آٹھ بجے گورنر جنرل کا ایک طیارہ خصوصی طور پر انڈیا گیا جہاں سے وہ دینا کو لے کر شام سوا پانچ بجے واپس کراچی آگیا۔۔۔ اس وقت تک قائداعظم کی تدفین نہیں ہوئی تھی۔

روزنامہ جنگ کراچی نے تدفین کی خبر رقم کرتے ہوئے تحریر کیا: ’قائداعظم کی اکلوتی صاحبزادی مسز نیوائل واڈیا ایک خاص طیارے میں بمبئی سے کراچی پہنچیں تاکہ اپنے مرحوم باپ کا آخری دیدار کرلیں۔‘

اسی خبر میں آگے چل کر مزید کہا گیا تھا: ’مس فاطمہ جناح علی الصبح سے برابر رو رہی تھیں۔ وہ سفید لباس میں ملبوس تھیں اور ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ قائداعظم کی صاحبزادی کے آجانے سے ذرا آپ کو تسلی ہوئی۔‘

دینا کے بیان کے علاوہ قائداعظم کی تدفین کے موقع پر دینا جناح کو ایک چارٹرڈ پرواز کے ذریعہ انڈیا سے بلوایا جانا بھی اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ قائداعظم اپنی بیٹی کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے، والا افسانہ محض افسانہ ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

قائداعظم کی تدفین کے اگلے روز 13 ستمبر1948 کو محترمہ فاطمہ جناح اور دینا واڈیا فلیگ سٹاف ہاؤس تشریف لے گئیں جسے نہ تو قائداعظم نے خود تعمیر کرایا تھا اور نہ ہی اس میں کبھی رہے تھے۔

ان کی وہ ذاتی اشیا جو گورنر جنرل ہاؤس میں استعمال نہیں کی جاسکتی تھیں، اس عمارت میں محفوظ کردی گئی تھیں۔ ان میں عمدہ قسم کے قالین اور فرنیچر بھی شامل تھا۔ مسز واڈیا فلیگ سٹاف ہاؤس کے کمروں میں گئیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس موقع پر انھوں نے بہت ساری اشیا شناخت کرلیں۔ انھیں ان کی خریداری کا سال اور جگہ بھی یاد تھی۔ انھیں ہر شے کے متعلق ہر وہ تعریفی جملہ بھی یاد آرہا تھا جو قائداعظم نے اس چیز کے متعلق فرمایا تھا۔ یہ بات اور بھی تکلیف دہ تھی کیونکہ ان اشیا کو تقریباً 10 سال سے وہ نہیں دیکھ سکی تھیں۔

قائداعظم کی وفات کے 55 برس کے بعد 23 مارچ سنہ 2004 کو دینا جناح ایک مرتبہ پھر پاکستان تشریف لائیں۔ اس مرتبہ وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلی جانے والی ایک روزہ کرکٹ سیریز کے آخری میچ کو دیکھنے کے لیے پاکستان آئی تھیں اور انھیں اس دورے کی دعوت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے دی تھی۔ ان کے ہمراہ ان کے بیٹے نصلی واڈیا، بہو اور پوتے نیس واڈیا اور جہانگیر واڈیا بھی تھے۔ پاکستان میں انھیں سرکاری مہمان کا درجہ دیا گیا اور یہاں ان کے اعزاز میں کئی تقریبات منعقد ہوئیں۔

26 مارچ سنہ 2004 کو محترمہ دینا واڈیا اپنے والد قائداعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دینے کے لیے کراچی تشریف لائیں جہاں انھوں نے 56 برس بعد اپنے والد کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور کچھ دیر احتراماً خاموش کھڑی رہیں۔ انھوں نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات درج کئے کہ’آج کا دن میرے لیے انتہائی دکھ کا اور حیرت انگیز دن ہے خدا کرے کہ قائداعظم نے پاکستان کے لیے جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہو۔‘

اس موقع پر انھوں نے اپنی پھوپھی محترمہ فاطمہ جناح کے مزار پر بھی حاضری دی اور مزار قائد کے کمرہ نوادرات کو بھی دلچسپی سے دیکھا۔ انھوں نے وہاں نمائش پزیر تصویروں میں سے تین تصاویر کی نقول بھی مانگیں، بعدازاں انھوں نے اپنے بیٹے اور پوتوں کے ہمراہ فلیگ سٹاف ہاؤس اور وزیر مینشن کا دورہ بھی کیا۔

انھوں نے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں مختلف شخصیات سے ملاقات بھی کی اور سات گھنٹے قیام کے بعد ممبئی واپس روانہ ہوگئیں۔

دو نومبر سنہ 2017 کو دینا جناح 98 سال کی عمر میں نیویارک میں وفات پاگئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp