چار سال کی بچی سے شادی بھی جائز ہے اور ریپ بھی


پہلی پریگنینسی ہوئی۔ تو ساڑھے تین ماہ بعد پتہ چلا کہ بچہ تو پیٹ میں ہی مر چکا ہے۔ زہر پھیل چکا ہے۔ ڈی این سی ہو گی۔ پہلے بچے کے مس کیرج کا غم وہ سمجھ سکتے ہیں۔ جنہوں نے اس صورتحال کو سہا ہو گا۔ دوسری پریگنینسی اس واقعے کے پونے دو سال بعد ہوئی۔ پہلے سے زیادہ احتیاط کرنے کو کہا جاتا۔ دل میں وہم پڑا رہتا۔ چھٹے مہینے کا الٹرا ساونڈ ہوا۔ تو نرس نے چپکے سے پوچھا۔ پہلا بچہ ہے۔ میں نے کہا جی۔ کہتی بیٹی ہے۔ مگر سسرال میں مت بتانا کہ بیٹی ہے۔

میری سمجھ دانی ایسی باتوں کو سمجھنے کے لیے بہت چھوٹی تھی۔ پہلے خاوند کو بتایا۔ انہوں نے تو کہا مجھے تو بیٹی ہی چاہیے تھی۔ سسرال میں چونکہ ہر چیز نیلی بنائی جا رہی تھی۔ تو جب بیٹی کا پتہ چلا تو واضح طور پہ ناپسندیدگی جتلائی گئی۔ بلکہ یہ تک کہا گیا۔ کہ فلاں سورت پڑھتی تو بیٹا ہوتا۔ موضوع یہ نہیں ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ بیٹا تھا یا بیٹی۔ موضوع یہ ہے کہ اگر مجھے علم ہوتا ہے کہ میں کس معاشرے میں بچہ اور وہ بھی بیٹی پیدا کر رہی ہوں۔ تو خدا کی قسم میں اسے خود ابارٹ کروا دیتی۔

بات بڑی سخت ہے۔ مگر اس سخت بات کو کہنے کی نہج پہ مجھے یہ معاشرہ لے کر آیا ہے۔ اس معاشرے میں جہاں اب نہ تو آپ کے بیٹے محفوظ ہیں۔ نہ ہی بیٹیاں محفوظ ہیں۔ بچہ پیدا کرنے پہ پابندی لگ جانی چاہیے۔ تب تک جب تک یہ شعور کو نہیں پا لیتے۔ جنسی زیادتیوں کی خبریں روزانہ کی بنیاد پہ اتنے تسلسل سے چل رہی ہوتی ہیں۔ کہ ابھی پچھلے سانحے کا درد کم نہیں ہوتا۔ اس سے بڑا سانحہ آ کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ میرے جیسا بندہ جو کسی بھی طرح کی زیادتی ظلم فلموں ڈراموں میں نہیں دیکھ سکتا۔ اسے جب روزانہ بھیانک جرائم سننے و دیکھنے پڑیں تو اس کا ذہنی طور پہ مفلوج ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں۔

نو مہینے کوکھ میں رکھ کے بچہ پیدا کرنا، اسے پیدا کرتے وقت کی اذیت ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ وہ ناقابل بیان ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ بچہ پیدا کرتے وقت ماں دو سو چھ ہڈیوں کے ٹوٹنے جتنی تکلیف برداشت کرتی ہے۔ مگر جونہی بچے کو دیکھتی ہے۔ ساری تکلیف بھول کے اسے چھاتی سے لگا لیتی ہے۔ جو ماں بچے کی مسکراہٹ دیکھ کے ہڈیاں ٹوٹنے والی تکلیف سہ کے اسے بھول جاتی ہے۔ وہ عورت اپنے بچے کی تکلیف کیسے برداشت کر سکتی ہے۔ کر ہی نہیں سکتی۔ ایسی ماؤں کے سامنے جب ان کے بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں، تشدد زدہ اور ہوس کا نشانہ بننے والے جسم بے جان پڑے ہوں تو ان کے کرب کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔

قصور کی سات سالہ زینب اور آج کشمور کی علیشہ تک ایک کربناک سے کربناک کہانی سننے کو ملتی ہے۔ ہم پڑھتے ہیں۔ ہمارے لیے کہانی ہے۔ جن پہ گزرتی ہے ان کے لیے قیامت ہے صاحب۔ قیامت کا کرب کون بتا پائے۔ کبھی مرنے والے نے آ کے بتایا قبر میں اس پہ کیا گزری۔ میرا بچہ جب کرالنگ شروع کرتا تھا تو میں فرش کو ایسے رکھتی تھی کہ جیسے شیشہ ہے۔ واش روم کی بالٹیوں میں پانی نہیں رکھتی تھی۔ ہر نوکدار چیز، ڈیکوریشن پیس، چھریاں کانٹے غرض کہ ہر ایسی چیز جس سے میرے بچے کو ذرا بھی نقصان کا اندیشہ ہوتا، میں غائب کر دیتی۔ میں اکیلی نہیں ہر ماں یہی کرتی ہے۔ بچے کو سب سے زیادہ اعتبار اپنی ماں پہ ہوتا ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے۔ کچھ بھی ہوا تو ماں پاس بھاگنا ہے۔ سوچئیے غور کیجئیے بچی نے پینٹ نیچے کر کے کیا کہا۔

”ماما دیکھو انکل نے میرے ساتھ کیا کیا“

کلیجہ کٹ گیا۔ دل دہل گیا۔ ایک لمحے کو دھیان اپنی بیٹیوں کی جانب گیا۔ دل ڈوب گیا۔ یوں لگا سانس نہیں چل رہی۔ یہ دکھ ابھی کم نہیں ہوا۔ تو ایک وڈیو انٹرنیٹ پہ وائرل ہونے لگی۔ مولویوں کی کوئی وڈیو دیکھنا میرے نزدیک وقت کا ضیاع ہے۔ بار بار سامنے آئی تو وڈیو کھولی۔ مولانا فرماتے ہیں۔ بیوہ اور طلاق یافتہ سے تین شادیاں کرو۔ چوتھی میں سولہ سالہ کنواری سے کراؤں گا۔ سولہ کی نہ ملی تو آٹھ آٹھ سال کی دو۔ اور اگر وہ نہ ملی تو چار چار سال کی چار لے کر دوں گا۔

اس کا وعدہ بھی کیا۔ اور حاضرین سے داد بھی وصول کی۔ اور قہقہہ بھی لگایا۔ حاضرین میں سے کسی کو یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ جناب من اگر آٹھ آٹھ سال کی دو لے کر دیں گے۔ تو پھر طلاق یافتہ و بیوہ جو باقی کی تین ہیں ان میں سے ایک کو طلاق دینی پڑے گی۔ اور اگر چار چار سال کی چار لے کر دیں گے۔ تو پھر تینوں کو طلاق دینی پڑے گی۔ تو جو لوگ اس بات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہ انہوں نے تو بیوہ اور طلاق یافتہ کے لیے اچھا سوچا، ان سے نکاح کی ترغیب دی، تو پھر میری بات کا جواب بھی عطا فرما دیں کہ آٹھ سالہ دو اور چار چار سالہ چار کہاں ایڈجسٹ کرنی ہیں کیونکہ اسلام میں بیک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے، پانچ یا سات رکھنے کی نہیں۔ اب اس کے لیے کیا فتوی ہے۔ بتا دیجئیے۔ فتوی بتانا ہے۔ مجھے گالیاں نہیں دینی۔

چار سال کی بچی سے شادی ہو سکتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ وہ حقوق زوجیت ادا کر سکتی ہے۔ جب وہ حقوق زوجیت ادا کر سکتی ہے تو جنسی طور پر بالغ ہے، پھر ریپ کیوں نہیں ہو سکتی۔ ظاہر ہے ریپسٹ بھی اسی معاشرے کا پلا بڑھا کردار ہے۔ اس نے بھی کسی مسلک کسی فرقے کی بیعت کی ہو گی۔ جب مولوی اسے ریلیکسیشن دے رہا ہے۔ تو وہ کیوں نہ لے۔ چار سالہ بیوی نہ سہی چار سالہ شکار سہی۔

ویسے ابھی تک کسی نے یہ جسٹیفیکیشن نہیں دی کہ بچی نے پینٹ نیچے کی تھی۔ جینز تھی۔ ریپ بنتا تھا۔ اس نے اکسایا ہو گا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اندھی ڈولفن جینز نہیں پہنتی۔ قبر میں مردہ عورت نے چست کپڑے نہیں پہنے ہوتے۔ کفن ہوتا ہے۔ اس کی نبض بھی رکی ہوتی ہے۔ مگر ریپ ہو جاتی ہے۔ تو مان لیجئیے صاحب کہ گندا اور گھٹیا عورت کا لباس اس کی جینز نہیں۔ آپ کی سوچ ہے۔ آپ کا وہ نصاب تعلیم ہے۔ جس میں اخلاقیات نامی کوئی سبق نہیں۔ جس میں سیلف ڈیفینس نامی کوئی چیز نہیں سکھائی جاتی۔ جس میں بچوں کو گڈ ٹچ بیڈ ٹچ کا نہیں بتایا جاتا۔

آپ مان لیجئیے کہ آپ نصاب کے نام پہ ٹریش پڑھا رہے ہیں۔ اور انسانوں کی بجائے درندوں کی نسل پروان چڑھا رہے ہیں۔ یقین مانئیے میرا دل نہیں کرتا کہ میں بچوں کو سکول بھیجوں۔ بچے گلی میں نہیں کھیل سکتے۔ بچے کہیں کسی کے گھر رہنے نہیں جا سکتے۔ بالفرض محال برسوں بعد کسی کے گھر رکنا پڑے تو سحر ہونے تک میں سو نہیں پاتی۔ ان سب کے باوجود ٹکے کی گارنٹی نہیں کہ آپ کے ساتھ کچھ برا نہیں ہو سکتا۔

اس ملک میں سب کچھ اللہ توکل چل رہا ہے۔ اللہ کے پاس کیا چل رہا ہے۔ یہ بھی اللہ جانے۔ شاید اللہ میاں بھی قیامت لانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ سنا ہے کہ قیامت قریب ہے۔ ایسے سانحات سننے سے بہتر ہے کہ قیامت آ ہی جائے تو اچھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).