جب میں نے ایک کتے کی عظمت پہچانی


پچھلے سال بچے اپنی چھوٹی بہن کو سالگرہ میں دینے کے لئے ایک چھوٹی سی کتیا لے آئے۔ گھر میں خوب رونق ہو گئی سبھی اس کتیا سے بہت پیار کرتے کھیلتے مل کر نہلاتے۔ سال بھر ہوا تو اس کتیا نے تین بچے دیے سفید جھک کتیا اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے پوررے لان میں اودھم مچا کررکھتے۔ کھیل کا کھیل رہتا اور گھر کی حفاظت بھی ہوجاتی۔

اب اس کے بچے قریب چھ ماہ کے ہو گئے تھے ایک نر تھا اور دو مادہ۔

سر ٹھنڈی راتیں ہیں شام بھی جلدی ہونے لگی ہے سڑکوں پہ سناٹا ہوجاتا ہے ایسے میں جنگلی کتے سڑک پہ منڈلاتے نظر آنے لگے ہیں۔

صاحب زادے شام کو کتیا اور اس کی فیملی کو باہر ٹہلانے لے جاتے ہیں۔ اس چہل قدمی کا یہ فائدہ رہتا ہے کہ کتے گھر کے اندر گندگی نہی کرتے اور ان کی کسرت بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن ایک نقصان بھی ہو رہتا ہے کہ سڑک کے جنگلی کتوں کو کتیا کی خوشبو آجاتی ہے اور وہ اس کے گھر کا پتا لگا لیتے ہیں بس ایسا ہی کچھ ہماری کتیا فیملی کے ساتھ ہوا۔

صبح میں جب چہل قدمی کر کے گھر واپس لوٹی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کتا گیٹ پہ بیٹھا ہے۔ گیٹ کے نیچے اتنی جگہ ہے کہ آسانی سے گھر کے اندر چلا جائے۔ لان میں کتیا کے بچے کھیل میں مشغول ہیں مادہ کتیا کی بچیاں جو ابھی چھ ماہ کی ہیں اچھل کود میں لگی ہیں۔ بڑی کتیا گھر کے پیچھے بندھی ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مجھے اس جنگلی کتے کی حالت پہ خوب ہنسی آئی۔ لیکن ایک لمحے بعد ہی مجھے وہ کتا بہت عظیم لگنے لگا۔ اس کے پاس موقع بھی تھا سامنے دو دو چھوٹی کتیا تھیں لیکن وہ بیٹھا بڑی کتیا کا انتظار کرتا رہا۔

میں سوچ میں پڑ گئی اور یہ سوال اس وقت سے میرے ذہن کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر میرا سر بھاڑے جا رہا ہے کہ کیا انسان اس جنگلی کتے سے بھی گیا گزرا ہے۔ کیا وہ اپنی نفس پہ قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا؟

آہ علیشا بلکہ اور ناجانے کتنے نام ہیں ان معصوم بچیوں کے جو ان درندوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔

سزا وار کو سزا مل گئی ہے لیکن صرف موت دے دینے سے اس معاشرے کی یہ برائی جو بہت اندر تک اپنی جڑیں گاڑ چکی ہے، ختم کر پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).