جنرل جذباتی نہیں ہوتے – ناقابلِ اشاعت کالم


اکتوبر 1958 شروع ہوا تو جنرل ایوب خان فوج کے کمانڈر انچیف تھے۔ اکتوبر ختم ہوتے ہوتے ایوب خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، وزیر اعظم، صدر اور فیلڈ مارشل کی منزلیں مارتے ان رفعتوں کو پہنچ چکے تھے جہاں فوج کی کمان ایک غیر اہم ذمہ داری تھی جسے کسی مطیع اور مودب ماتحت کو سونپا جا سکتا تھا۔ چنانچہ 28 اکتوبر 1958 کی گلابی دھوپ میں صدر ایوب خان نے فوج کی کمان جنرل موسیٰ خان کے سپرد کر دی۔ اس تقریب میں باوردی اہل حشم سے الوداعی تقریر کرتے ہوئے ایوب خان کی آواز بھرا گئی۔ ایک اردو اخبار نے یہ خبر دیتے ہوئے لکھا کہ صدر ایوب فوج سے 30 سالہ وابستگی کو خیر باد کہتے ہوئے جذباتی ہو گئے۔ اس پر بڑا طوفان اٹھا۔ ایک کرنل صاحب نے اخبار کے مدیر کی میز پر ڈنڈا بجاتے ہوئے دھمکیاں دیں۔ دست بستہ گزارش کی گئی کہ اس خبر میں ہونے والی غلطی کی نشاندہی کی جائے۔ کرنل صاحب نے فرمایا ’جنرل جذباتی نہیں ہوتے‘ ۔

اس تجربے سے اہل صحافت نے عبرت پکڑ لی، اپنی بصیرت رہن رکھ دی اور کسی بھی حادثے پر حیران ہونے کی بجائے فیصلہ ساز حلقوں سے رہنمائی چاہنے کا ہنر سیکھ لیا۔ تاریخ نے مگر یہ سکھایا کہ جس زمیں پر بھونچال کی فالٹ لائن دریافت ہو جائے، وہاں حیرتوں کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ ہم نے 62 برس میں اہل عساکر کے غیر جذباتی ہونے کا درس ذہن نشین کیا لیکن گزشتہ ہفتے رشد و ہدایت کے مرکزی دفتر سے جاری کیے گئے کوئی دو سو الفاظ کے فرمان امروز نے ہماری تین نسلوں کی ریاضت پر پانی پھیر دیا۔

ہمیں بتایا گیا کہ 18 اکتوبر 2020 ء کے کراچی واقعہ میں سندھ پولیس کے سربراہ کے تحفظات (اہل صحافت توجہ فرمائیں، وفادار رعایا کے شاہی کارندوں پر کسی ممکنہ الزام کو تحفظات کہا اور لکھا جائے) کی دادرسی کے لئے بٹھائی گئی کورٹ آف انکوائری اس نتیجے پر پہنچی کہ 18 اور 19 اکتوبر کی درمیانی شب پاکستان رینجرز (سندھ ) اور آئی ایس آئی (کراچی سیکٹر ہیڈ کوارٹر) کے بندگان عالی مزار قائد کی بے حرمتی کے نتائج پر شدید تشویش میں مبتلا تھے۔ ان پر عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا تھا کہ قانون کے مطابق فوری کارروائی کی جائے۔ اس نازک اور ہیجانی صورت حال میں پولیس حکام کے ردعمل کو سست اور ناکافی سمجھتے ہوئے آئی ایس آئی اور رینجرز کے متعلقہ حکام نے کسی قدر جوش سے کام لیا۔ ان تجربہ کار حکام سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ تحمل سے کام لیتے ہوئے ایسی صورت حال پیدا کرنے سے اجتناب کریں گے جس سے دو ریاستی اداروں میں غلط فہمی پیدا ہوئی۔ ( ”غلط فہمی“ کی بلاغت کی داد اگر آپ نے نہیں دی تو واللہ روز قیامت متعلقہ پریس ریلیز لکھنے والے کا ہاتھ دامن گیر ہو گا۔ ) کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ حکام کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ جنرل ہیڈ کوارٹر میں مزید محکمانہ کارروائی کی جا سکے۔

ایک قطعی ذاتی عرض داشت پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ درویش کو کچھ عرصے سے گمان ہو چلا ہے کہ تیس برس کی صحافتی مشق کے بعد وہ ایک ایسا رنگ تحریر ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے جسے زیر آب بیانیے کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ قلمی احتساب کے بد ترین ادوار میں بھی درویش نازک ترین امور پر اس ڈھنگ سے خامہ فرسائی کرنے کا دعویٰ رکھتا ہے جس پر گرفت کرنا اس لئے مشکل ہوتا ہے کہ اصل بات لفظوں کی بجائے کیفیت میں رکھ دی جاتی ہے۔ اس سے پیران جبہ و عمامہ، قومی مفاد کے از خود مامور محافظ اور مطالعہ پاکستان میں درس بے خودی پانے والے جوانان جذبہ و جنون سخت اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ درویش خاک نشین کی ناقابل اصلاح گمراہی جانتے ہیں مگر زانو پیٹ کر رہ جاتے ہیں کہ کس لفظ کو نشان زد کریں۔

ایران توران کی حکایات ہیں، کوفہ و رے کے قصے ہیں، قدما کی غزل اور متاخرین کی نظم کے ٹکڑے ہیں۔ کاغذ پر بے ترتیبی سے بنائے ان نشانات سے مگر جو دھواں اٹھتا ہے وہ لکھنے والے کی پاکوبی کا درد پڑھنے والے کے دل میں منتقل کر دیتا ہے۔ اسے خود ستائی نہیں سمجھیے۔ یہ نہیں کہا کہ ایسا ہی لکھتا ہوں۔ صرف اپنا گمان بیان کیا ہے۔ اور اب اس گمان سے اس عالی دماغ اور مصفا قلم ہستی کے حق میں دست بردار ہونے کا اعلان کرتا ہوں جس نے آئی ایس پی آر کی مذکورہ پریس ریلیز کا مسودہ تیار کیا ہے۔ درویش کیا بیچتا ہے، واللہ غالب مرحوم نے عود ہندی اور اردوئے معلیٰ کے مسودے اٹھا کر گلی میں پھینک دیے ہوتے، ڈپٹی نذیر احمد ڈی لٹ حیات ہوتے تو انہوں نے انگریز حکام سے ملنے والی خلعت فاخرہ یہ کہتے ہوئے آگ میں جھونک دی ہوتی کہ آئی ایس پی آر کے اس نابغہ عرشی کے ہوتے ہوئے کوئی کس منہ سے برکات حکومت انگلشیہ لکھنے کا دعویٰ کرے گا۔

الزام تھا کہ آئی جی سندھ کو اغوا کیا گیا۔ اس الزام کی تصدیق یا تردید کا تکلف نہیں کیا گیا۔ مزار قائد کی بے حرمتی کو ایک مصدقہ حقیقت کے طور پر بیان کیا گیا۔ جس عوامی دباؤ کے نیچے دبے ہوئے حکام کی پریشانی بیان کی گئی، اس دباؤ کی کوئی واقعاتی شہادت کہیں نہیں۔ یہ وضاحت کہیں نہیں کہ پولیس حکام کے ردعمل کی جانچ کیسے کی گئی۔ اور اس جانچ پڑتال کی ذمہ داری کس قانون کے تحت اپنے نازک کندھوں پر اٹھائی گئی۔ آئی جی کا اغوا تعزیرات پاکستان کے تحت قابل دست اندازی جرم ہے یا آرمی ایکٹ مجریہ 1952 حرکت میں آئے گا۔ اور ہاں، وہ ایک معزز خاتون کے کمرے کا شکستہ دروازہ ایک الگ رزمیہ ہے جو بن لکھی رہ گئی۔ صاحبو، خط ملفوف کے اس خاقانی کی تحریر سے ہمارے علم میں یہ اضافہ ہوا کہ عسکری نفسیات میں ارتقا ہوا ہے۔ اب اہل عساکر جذباتی بھی ہو جاتے ہیں۔ ایک روز جذباتی ہونے کا موقع محل بھی سیکھ ہی لیں گے۔

جنرل جذباتی نہیں ہوتے – آڈیو ویڈیو کالم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).