اب تو پیوند لگانے کی بھی گنجائش نہیں رہی



جس طرح پنجاب کے شہر قصور میں آٹھ سالہ زینب کے ریپ اور قتل اور پھر مجرم کی پھانسی کے بعد حکومت نے زینب الرٹ قانون متعارف کروایا، اسی جذبے کے تحت موجودہ حکومت نے اگلے ہفتے ریپ مقدمات کو تیز رفتاری سے نمٹانے کے لیے خصوصی عدالتیں متعارف کروانے کا آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے سندھ کے شہر کشمور میں ایک پانچ سالہ بچی اور اس کی والدہ کے ریپ کے مجرم کو اپنی بیٹی کی مدد سے پکڑنے والے اے ایس آئی محمد بخش برڑو سے بھی فون پر بات کر کے اس کی بے لوث جرات کو سراہا۔

دریں اثنا کشمور واقعے کا ملزم ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا اور اس کے ساتھی کو حراست میں لے لیا گیا۔ یوں ایک طرح سے ’فوری انصاف‘ ہو گیا۔

اس طرح مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ عدالتی نظام جڑوں تک کرپٹ ہو چکا ہے لہٰذا کمزور ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر جاتا ہے اور طاقتور سینہ چوڑا کرتے ہوئے پیسے، اثر یا دباؤ کے سبب چھوٹ جاتا ہے۔

اہل عدالت اپنی کمزوری کا ذمہ دار کمزور قوانین، ناقص تفتیشی نظام، وکلا گردی اور فیصلوں پر نامکمل عمل درآمد کے کلچر کو قرار دیتے ہیں اور جنھیں اسمبلیوں میں جدید و موثر قانون سازی کرنا ہے وہ اس دلیل کے پیچھے پناہ ڈھونڈتے ہیں کہ جب تک عام آدمی باشعور نہیں ہو گا، اپنی مدد آپ کے تحت انفرادی اخلاقی نظام خود پر لاگو نہیں کرے گا تب تک کچھ بھی ٹھیک ہونے والا نہیں۔

ایسی جملہ تاویلات سے خود کو تو مطمئن کیا جا سکتا ہے مگر لاقانونیت کا جن قابو میں نہیں لایا جا سکتا۔ ہر لرزہ خیز واردات کے بعد ہم ’مجرموں کو سرعام پھانسی دو‘ کے نعرے لگا کر اور ’یہ انسان نہیں درندے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ کہہ کر دو تین دن کے لیے اپنے ضمیر کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر مسئلہ جوں کا توں ہی رہتا ہے۔

ہم دہشت گردی کے تدارک کے لیے خصوصی عدالتیں بنانے کے ماہر ہیں۔

خصوصی عدالتوں سے کام نہیں چلتا تو ان کے اوپر فوجی عدالتیں بنا دیتے ہیں اور پھر ان عدالتوں کے اکثر ناقص فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں الٹ جاتے ہیں۔ اور پھر ہم سوچتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کا کیا کریں۔

کہیں یہ پڑے پڑے خراب نہ ہو جائیں تو پھر ہم انھیں زنگ سے بچانے کے لیے فیسوں میں اضافے کے خلاف جلوس نکالنے والے طلبا سے لے کر ریپ کے ملزم تک سب پر انسداد دہشت گردی کی دفعات لگا دیتے ہیں۔

ہم نے روایتی عدالتی نظام کی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے شرعی عدالتی نظام بھی اپنا کر دیکھ لیا۔

ہم نے روایتی جرگہ سسٹم کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دے کر اسے کاغذی طور پر اسی طرح ختم کر دیا جس طرح برسوں پہلے سرداری نظام کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

قانونی ترامیم کے بعد اب ہمارے ہاں غیرت کے نام پر قتل کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہر قتل کو بلا امتیاز بظاہر ایک ہی آنکھ سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔

اس قدر قانون سازی، اتنے بہت سے اعلانات، اتنی بھانت بھانت کی عدالتیں، اتنی پھانسیاں اور عمر قید جیسی سزائیں سنانے کے بعد بھی ریپ، عورتوں کے خلاف جرائم، غیرت کے نام پر قتل، اغوا اور منشیات کی تجارت جیسے سنگین جرائم میں کتنی واضح کمی آئی؟
سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ریپ کی جتنی وارداتوں کے پرچے کٹتے ہیں ان میں سے پانچ فیصد وارداتوں کے ملزموں پر باقاعدہ مقدمہ چلتا ہے اور ان پانچ فیصد کے بھی پانچ فیصد مجرموں کو واقعی سزا ملتی ہے۔
زیادہ تر متاثرین اپنا مقدمہ مالی و سماجی کسمپرسی کے سبب آگے بڑھانے کی سکت ہی نہیں رکھتے اور ریاست ایسے تمام مقدمات میں لازمی فریق بننے میں دلچسپی نہیں لیتی۔ بس اس مقدمے میں فریق بنتی ہے جس کا میڈیا پر ڈنکا پٹ جائے۔
بات یہ ہے کہ ہمارا سنہ 1861 کا پولیس ایکٹ، انگریز آقاؤں کا عطا کردہ دیوانی و فوجداری نظام، نوآبادیاتی دور کا ایجاد کردہ سرپرستی و بالادستی کا نظام نمائشی تبدیلیوں کے باوجود نہ صرف جوں کا توں قائم ہے بلکہ اب تو گل سڑ چکا ہے بلکہ اب تو خود انگریز کو بھی یاد نہیں کہ اس نے یہ نظام کس مقصد کے لیے اور کتنی مدت کے لیے بنایا تھا۔
ویسے تو باقی دنیا میں کیا نا انصافی ہو رہی ہے اور کیوں ہو رہی ہے کی تشخیص اور علاج کے ہم ماہر ہیں مگر جب اپنے ہی گھر میں نا انصافی و ناکارہ پن کی دیمک سے جوج رہے نظام کی جگہ ایک جدید، فعال نظام قانون و انصاف کی عمارت اٹھانے کی خواہش انگڑائی لیتی ہے تو ہم ایک دوسرے کی مفاداتی مروت میں اس کام کو بیچ راستے میں ہی ترک کر دیتے ہیں۔
ہم بس یہ کر رہے ہیں کہ نظام کی خستہ چادر میں جہاں جہاں سوراخ نظر آتا ہے وہاں وہاں فوری طور پر ایڈہاک قانون سازی کا پیوند لگا دیتے ہیں۔ اب تو پیوند کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ اب تو پیوند پر پیوند لگ رہے ہیں۔
خود کو ایک مسلسل دھوکے میں رکھنا اور پھر یہ سمجھتے رہنا کہ ہم دھوکے میں نہیں۔ اس عذاب سے تو نجات بھی شاید ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).