سوشل میڈیا پر معلومات کی افراتفری کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟


سوشل میڈیا
دنیا کے بہت سے ممالک سوشل میڈیا سے متعلق ضابطے اور قوانین بنانے پر غور کر رہے ہیں لیکن یہ ضوابط کیا ہو سکتے ہیں؟

ایک نئی رپورٹ میں ایسی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن کے متعلق مصنفین کا کہنا ہے کہ ان کے ذریعے ‘معلومات کی افراتفری سے جمہوریتوں کو لاحق خطرات ختم کیے جا سکتے ہیں۔’

اس کی ایک تجویز یہ ہے کہ سوشل نیٹ ورکس کو اپنے الگورتھم (حساب) اور بنیادی کام کاج کی تفصیلات قابل اعتماد محققین کو جاری کرنا چاہیے تاکہ ان کی ٹیکنالوجی کو جانچا جا سکے۔

رپورٹ میں غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آن لائن شیئرنگ کی ‘جانچ’ کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کو فورم فار انفارمیشن اینڈ ڈیموکریسی نے شائع کیا ہے۔ اس کا قیام 38 ممالک کو غیر پابند سفارشات دینے کے لیے عمل میں آیا تھا۔ ان میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، انڈیا، جنوبی کوریا اور برطانیہ جیسے ممالک شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

24 گھنٹوں میں نفرت انگیز مواد ہٹانے کا قانون

آن لائن فراڈ کا اگلا نشانہ کہیں آپ تو نہیں!

امریکہ کی ٹک ٹاک پر پابندی: ایک چھوٹی سی ایپ کا ’بڑا معرکہ‘

اس رپورٹ میں حصہ لینے والوں میں کیمبرج اینالیٹیکا کی وِسل بلوور کرسٹوفر ویلی اور فیس بک کے سابق سرمایہ کار راجر میک شامل ہیں۔ راجر ایک عرصے سے سوشل نیٹ ورک کے ناقد رہے ہیں۔

اس کے لیے الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے ساتھ آزادی اظہار کے گروپ آرٹیکل 19 اور ڈیجیٹل حقوق گروپس سے بھی مشورہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کیا کہتی ہے؟

بنیادی سفارشات میں سے ایک ‘قانون سازی کے کوڈ’ یا ضابطے بنانا ہے جس کے تحت ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے لیے لازمی حفاظت اور معیار کو برتنے کی ضروتوں کا ذکر ہو گا۔

مسٹر ویلی نے بی بی سی کو بتایا: ‘اگر مجھے باورچی خانے کے لیے کوئی سامان تیار کرنا ہے یعنی اگر ایک ٹوسٹر تیار کرنا ہے تو بھی ہمیں بہت سے تعمیلی ضابطوں کی پابندی کرنی ہوگی لیکن فیس بک بنانے کے لیے ایسا نہیں ہے۔’

انھوں نے کہا کہ سوشل نیٹ ورکس کو ان تمام ممکنہ نقصانات کا حساب کتاب لگانا چاہیے جو ان کے ڈیزائن اور انجینئرنگ کے فیصلوں کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی تجویز پیش کی گئی ہے کہ اگر آزاد فیکٹ چیک کرنے والوں کی جانب سے کسی کہانی کے جھوٹے ہونے کی شناخت کی جاتی ہے تو سوشل نیٹ ورکس کو چاہیے کہ کہ وہ ہر اس فرد تک یہ بات پہنچائے جس کا اس کہانی سے کسی صورت سابقہ پڑا ہے۔

کیمبرج اینالیٹیکا کے وھسل بلوور کرسٹوفر ویلی

کیمبرج اینالیٹیکا کے وھسل بلوور کرسٹوفر ویلی نے بتایا کہ کس طرح صارفین کو متاثر کرنے کے لیے فیس بک کے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا تھا

دیگر تجاویز مندرجہ ذیل ہیں:

  • ‘سرکٹ بریکر’ کا نفاذ تاکہ نئے وائرل مواد کو عارضی طور پر پھیلنے سے اس وقت تک روک دیا جائے جب تک اس کی جانچ پڑتال نہ ہو جائے۔
  • سماجی نیٹ ورکس پر اس بات کے لیے زور دیا جائے کہ وہ یہ انکشاف کرے کہ آخر صارف کو جس مواد کی سفارش کی جارہی تو وہ کس بنیاد پر کی جا رہی ہے۔
  • مائیکرو سطح تک اپنے ہدف تک پہنچنے والے اشتہاری پیغامات کے استعمال کو محدود کرنا
  • نسل یا مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو مواد سے محروم کرنے کو غیر قانونی بنایا جائے، جیسے غیر سفید فام لوگوں سے خالی کمرے کے اشتہار کو چھپانا
  • نام نہاد مشکل پیٹرنز کے استعمال پر پابندی لگائی جائے جسے صارف کو الجھانے یا مایوس کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے یا پھر آپ کو اپنا اکاؤنٹ ڈلیٹ کرنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس میں کچھ ایسی تجاویز بھی شامل تھیں جو فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب رضاکارانہ طور پر پہلے سے ہی کرتی ہیں، جیسے:

  • ریاستی کنٹرول والی نیوز تنظیموں کے اکاؤنٹس کو لیبل لگانا
  • اس بات کو محدود کرنا کہ پیغامات کو کتنی بار یا کتنے بڑے گروپس میں بھیجا جاسکتا ہے، جیسا کہ فیس بک واٹس ایپ پر کرتا ہے

بدھ کے روز ان تینوں پلیٹ فارمز والے اداروں کو اس رپورٹ کی ایک کاپی بھیجی گئی تھی اور بی بی سی نے انھیں تبصرہ کرنے کی دعوت دی تھی۔

ٹویٹر کے عوامی پالیسی کی حکمت عملی کے سربراہ نک پکلز نے کہا: ‘ٹویٹر ا انٹرنیٹ کو محفوظ اور عوامی گفتگو کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم اوپن انٹرنیٹ، اظہار رائے کی آزادی کے متعلق مستقبل پر نظر رکھنے والے ضابطے اور انٹرنیٹ کے شعبے میں منصفانہ مقابلے کی حمایت کرتے ہیں۔

‘ٹویٹر کی نظر میں کھلاپن اور شفافیت کلیدی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ ہمارے عوامی اپے پی آئی، ہماری معلوماتی کارروائیوں کے آرکائو، صارف کی پسند کے متعلق ہمارے عہد، سیاسی اشتہار پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے اور ان پر لیبل لگانے میں ںظر آتا ہے تاکہ ہم معلومات کے مطابق سیاق و سباق فراہم کر سکیں۔ اس کے علاوہ ہماری ٹوئٹر ٹرانسپیرنسی رپورٹ ہے۔

‘بہر حال ٹیکنالوجی کمپنیاں ایک جیسی نہیں ہیں اور نہ ہی صرف ٹیکنالوجی میڈیا کے نظام کا واحد حصہ ہے۔ ان اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے معاشرے کے ہر شعبے کی جانب سے ردعمل کو یقینی بنانا ضروری ہے۔’

لکیر

بی بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے مسٹر ویلی نے کہا کہ اس رپورٹ کی سفارشات کسی فرد کے آزادانہ اظہار خیال کو تحفظ فراہم کرنے کے پیش نظر تیار کی گئی ہیں۔

اس انٹرویو کو ایجاز و اختصار اور وضاحت کے لیے کاٹا چھانٹا گیا ہے؛

جب بھی سوشل میڈیا کے متعلق ضابطے بنانے کی تجویز سامنے آتی ہے تو اظہار رائے کی آزادی کا گلا کھونٹے کی بات کی جانے لگتی ہے۔ کیا آپ کی تجاویز میں ایسے خطرات نہیں ہیں؟

زیادہ تر مغربی جمہوری ریاستوں میں آپ کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن آزادی اظہار کا مطلب رسائی کا حق نہیں ہے۔ آپ جو چاہتے ہیں اسے کہنے کے لیے آپ آزاد ہیں لیکن وہ منافرت کی زمرے میں یا قانونی چارہ جوئی کے دائرے میں نہ ہو۔ لیکن آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ اپنی آواز کو مصنوعی انداز میں بڑھا دیں۔

یہ پلیٹ فارمز غیر جانبدار نہیں ہیں۔ الگورتھم (حساب کتاب) اس بارے میں فیصلے کرتے ہیں کہ لوگ کیا دیکھیں اور کیا نہیں۔ اس رپورٹ میں کوئی بھی چیز آپ کی مرضی کی بات کہنے کی صلاحیت پر پابندی نہیں لگاتی ہے۔ ہم یہاں جس چیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ ہے پلیٹ فارم کا مصنوعی طور پر وسیع پیمانے پر غلط اور ہیرا پھیری کی معلومات کو پہنچانا۔

فیس بک

کون سی چیز غلط معلومات ہے اس کا فیصلہ کون کرتا ہے؟

میرے خیال سے یہ کافی بنیادی چیزوں کی طرف جاتا ہے: کیا آپ سچائی پر یقین رکھتے ہیں؟ ابھی کچھ ایسی چیزیں فیس بک پر بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں جن کو منطقی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر یہ کہ کووڈ موجود نہیں ہے اور یہ ویکسین دراصل لوگوں کے ذہنوں پر قابو پانے کے لیے ہیں۔ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو صریحاً غلط ہیں اور آپ اسے ثابت کر سکتے ہیں۔

ہمارے جمہوری ادارے اور عوامی گفتگو اس مفروضے کو قبول کرتے ہیں کہ ہم کم از کم ایسی باتوں پر متفق ہو سکتے ہیں جو سچ ہیں۔ ہم اس بارے میں بحث کر سکتے ہیں کہ کسی خاص مسئلے کے تعلق سے ہمارا رد عمل کیسا ہوگا یا ہمارے لیے اس کی قدروقیمت کیا ہے۔ لیکن ہمارے اندر یہ سمجھ عام ہے کہ کچھ چیزیں واضح طور پر سچ ہیں۔

کیا اس ضابطے سے نظریات کے آزادانہ بہاو اور لوگوں کی اپنی خواہش پر یقین کرنے کے حق کو ضرب لگے گی؟

اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ لوگوں کو ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی کا قانونی حق ہونا چاہئے تو ہمارے پاس دھوکہ دہی یا ناجائز اثر و رسوخ کے قواعد نہیں ہوں گے۔ لیکن لوگوں کے جوڑ توڑ کرنے سے بہت زیادہ اور ٹھوس نقصانات ہیں۔ امریکہ میں کووڈ 19 کے بارے میں عوامی صحت کے ردعمل کو زک پہنچی کیونکہ اس وائرس کے وجود کے بارے میں وسیع پیمانے پر غلط معلومات پہنچ رہی تھیں یا مختلف قسم کے علاج کے بارے میں غلط دعوے کیے جا رہے تھے اور وہ در حقیقت علاج نہیں تھے۔

کیا آپ کو اپنی مرضی کی بات پر یقین کرنے کا حق ہے؟ جی بلکل ہے۔ کوئی بھی جس کے بارے میں میں جانتا ہوں وہ کسی بھی طرح سے ذہن و دل پر کسی قسم کے ضابطے کی تجویز نہیں دے رہا ہے۔

لیکن ہمیں پلیٹ فارم کی ذمہ داریوں پر توجہ دینی ہوگی۔ فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب ایسے الگورتھم پر چلتے ہیں جو معلومات کو فروغ دینے اور اجاگر کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ ایک فعال انجینئرنگ کا فیصلہ ہے۔

جب اس کا نتیجہ وبا کے متعلق پبلک ہیلتھ کے ردعمل میں رکاوٹ بنتا ہے یا ہمارے جمہوری اداروں میں اعتماد کو اس لیے مجروح کرتا ہے کیونکہ لوگوں کو غلط معلومات سے متاثر کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ان پلیٹ فارمز کے لیے کسی نہ کسی طرح کی جوابدہی ہونی چاہیے۔

لیکن فیس بک کا کہنا ہے کہ وہ غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے اور نفرت انگیز مواد سے فائدہ نہیں اٹھاتا ہے۔

یہ تو وہی ہوا کہ تیل کی کمپنی یہ کہے کہ ‘ہم آلودگی سے منافع نہیں کماتے ہیں۔’ آلودگی ایک بائی پروڈکٹ ہے اور ایک ن‍قصان دہ بائی پروڈکٹ ہے۔ اس سے قطع نظر کہ فیس بک نفرت انگیز مواد سے منافع حاصل کرتا ہے یا نہیں، لیکن اس کے موجودہ ڈیزائن کا ایک نقصان دہ بائی پروڈکٹ ہے کہ اس سے معاشرے کو نقصانات پہنچتے ہیں۔

سوشل میڈیا

امریکی انتخابات سے قبل فیس بک اور ٹویٹر نے یہ طے کیا کہ اگر کوئی امیدوار وقت سے پہلے جیت کا اعلان کرتا ہے یا اس کے نتیجے پر تنازع کھڑا کرتا ہے تو وہ کیا کریں گے۔ ہم نے دیکھا کہ دونوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹس پر سیاق و سباق کے لیبل لگائے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ سنہ 2020 کے انتخابات کے لیے زیادہ تیار تھے؟

یہ بات واضح ہے کہ فیس بک نے صحیح معنوں میں موثر منصوبہ بندی نہیں کی۔

ان گروہوں کو دیکھیں جو ہر دن جھاگ چھوڑتے ہیں اور امریکی انتخابات میں ‘دھوکہ دہی’ کے بارے میں غلط فہمی پھیلارہے ہیں اور بائیڈن مہم کے بارے میں ہر طرح کے سازشی نظریات کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا نتیجہ تھا جس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔

فیس بک ان مسائل سے جس طرح نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم انتظار کریں گے اور جب کوئی مسئلہ سامنے آئے گا تب دیکھیں گے۔ ہر دوسری انڈسٹری اپنا کم سے کم حفاظتی معیار رکھتی ہے اور ان خطرات پر غور کرتی ہے کہ اس سے لوگوں کو کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اگر آپ بڑے سوشل نیٹ ورکس کو ضابطے کے اندر لاتے ہیں تو کیا اس کے سبب زیادہ سے زیادہ لوگ حاشیے کے ‘اظہار رائے کی آزادی’ والے سوشل نیٹ ورکس کی جانب راغب ہوں گے؟

اگر آپ کے پاس ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں گاہک کو لبھانے کے لیے یہ ہو کہ ‘آئیے ہم آپ کو نفرت انگیز بات کے فروغ کی اجازت دیں گے، ہم آپ کو لوگوں کو دھوکہ دینے اور جوڑ توڑ کرنے کی اجازت دیں گے’ تو مجھے نہیں لگتا کہ کاروباری ماڈل کو اس کی موجودہ شکل میں اجازت دی جانی چاہیے۔

وہ پلیٹ فارم جو صارف کی مصروفیت سے فائدہ کماتے ہیں ان کا اپنے صارفین کے لیے یہ فرض ہے کہ وہ واضح طور پر ان کو لاحق شدہ نقصانات کو روکنے کی کوشش کریں۔ میرے خیال سے یہ مضحکہ خیز ہے کہ کسی کے باورچی خانے کے لیے ٹوسٹر بنانے کے لیے تو اتنے ضوابط ہوں اور ان پلیٹ فارمز کے لیے کو ضابطہ نہ ہو جو ہمارے صحت عامہ کے ردعمل اور جمہوری اداروں پر اس طرح کے واضح اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

دوسرے مسائل کے بارے میں کیا خیال ہے جیسے انسٹاگرام پر ‘پرفیکٹ’ تصاویر ذہنی صحت اور جسمانی شبیہہ کو متاثر کرسکتی ہیں؟

یہ تو پلیٹ فارم کی پیداوار ہے جو آپ کو سفارشات دے رہی ہے۔ یہ اس الگورتھم پر کام کرتا ہے کہ آپ نے کسے دیکھا یا کس پر ردعمل ظاہر کیا اور پھر وہ اسی طرح کی زیادہ سے زیادہ چیزیں آپ تک پہنچاتی ہے۔

رپورٹ میں ہم نے ‘کولنگ آف پیریڈ’ یعنی وقت کی گرد بیٹھنے کے دورانیے کی بات کی ہے۔ آپ کو ایسے الگورتھم کی ضرورت ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں کسی خاص قسم کے مواد کے ‘کولنگ آف پیریڈ’ کے بعد اسے متحرک کیا جا سکے۔

یعنی اگر اس نے ایک ہفتے تک آپ کو باڈی بلڈنگ کے اشتہارات دکھائے تو اس کے بعد اگلے دو ہفتوں تک یہ کام روک دے۔ اگر آپ باڈی بلڈنگ کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو آپ ایسا کر سکتے ہیں۔

لیکن صارف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان پر ایک ہی تھیم کے تحت مواد کی مستقل برسات نہ کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp