” خضر کی کہانی“ اور پاکستان کا سفر


بہت انتظار کے بعد آخر کار پاکستان کے سفر کا موقع ملا تو جیسے ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ مارچ کے آخر میں اسی سفر کی ساری تیاریاں مکمل کر کے جب جانے کا وقت قریب آیا تھا تو کرونا کی وبا کی وجہ سے ساری پروازیں منسوخ ہو گئی تھیں اور یوں میرا سفر بھی۔ میں پچھلے کئی سالوں سے کینیڈا میں مقیم ہوں لیکن اپنے پیاروں کی محبت اور اپنی مٹی کی کشش مجھے ہر سال جانے پر مجبور کرتی ہے۔ اور ہر بار جانے کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے اسی سال اکتوبر کے مہینے میں آخرکار اس سفر کا وسیلہ بن گیا۔

پاکستان کے سفر کا ایک اہم حصہ پشتو کے عظیم شاعر غنی خان کے حوالے سے چند ملاقاتیں اور ان کے مزار اور گھر پر حاضری دینا تھا۔ غنی خان اور ان کی شاعری کے ساتھ مجھے ایک روحانی لگاؤ ہے۔ جو مجھے ان کے گھر اور مزار پر ایک بار پھر لے کر گیا۔

طویل سفر میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے عموماً میں ایک دو کتابیں ساتھ لئے چلتی ہوں۔

اس بار غنی خان کی کلیات اور جناب خالد سہیل کی کتاب ”، The Seeker خضر کی کہانی اور سچائی کی تلاش“ ساتھ لی۔

غنی خان کی کلیات اور میرا تو پچھلے تیس برس کا ساتھ ہے۔ یہ کتاب میں نے کبھی بک شیلف پر سنبھال کر نہیں رکھی۔ اور ہمیشہ اس قدر قریب رہتی ہے کہ جب بھی موقع ملے، اٹھا کر کچھ نہ کچھ پڑھ کر ان کی شخصئت کی گہرائی کو محسوس کیا۔

ڈاکٹر خالد سہیل کی کتاب کو پڑھنے کے بعد، یہ بھی میری ان کتابوں میں شامل ہوئی جو میں نے کبھی بک شیلف پر سنبھال کر نہیں رکھی۔ اور جب بھی موقع ملا، اور جتنا بھی، کسی بھی عنوان کے نیچے پڑھ سکی۔ ہر دفعہ مزید گہرائی محسوس ہوئی۔ اور یوں ان کی یہ کتاب میرے لئے ایک پاکٹ بک بن گئی جسے میں اکثر اپنے بیگ میں اپنے ساتھ لے کر جاتی ہوں۔

خالد سہیل کی کتاب انھوں نے ایک ادبی نشست میں مجھے تحفے کے طور پر اپنے آ ٹو گراف کے ساتھ عنایت کی تھی۔ ان کی پہلی کتابوں کی نسبت قدرے ہلکی کتاب، کور پر ان کے پورٹریٹ کی تصویر اور اس کے نیچے ٹائٹل ”The seeker، خضر کی کہانی اور سچائی کی تلاش“ ۔ یہ ڈاکٹر خالد سہیل کی 140 صفحے کی مختصر آپ بیتی ہے۔ جو انھوں نے ایک انتہائی انفرادی انداز میں لکھی ہے۔ کہنے کو تو یہ ان کی آپ بیتی ہے لیکن ہر بات قاری کو اپنے دل سے نکلتی محسوس ہوتی ہے۔

جب مجھے یہ کتاب ملی تو مجھے کور پر پورٹریٹ کے ساتھ The seeker عنوان تو پرکشش لگا ہی تھا لیکن میرے لئے زیادہ پرکشش ٹائٹل کا بقیہ حصہ ”خضر کی کہانی اور سچائی کی تلاش“ تھا۔

دو تاریخی شخصیات جن کی طلسماتی خاصیتیں مجھے بہت متاثر کرتی ہیں وہ خضر اور شمس تبریزی ہیں۔ دونوں کی پراسراریت، دانائی، اور خلاف روایت شخصیات انسانی ذہن پر ایک انفرادی اثر چھوڑتی ہیں۔ دونوں کا کوئی مرکز سکونت نہیں، دونوں کا کسی مادی چیز سے جڑاؤ نہیں اور دونوں سچ کی تلاش میں ہر روایت کے خلاف اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے خضر کے کردار کو اپنے ہمزاد کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جو کہ ان کی سادہ اور غیر روایتی شخصئیت کے لئے ایک مناسب کردار ہے۔

میں نے ذاتی طور پر ڈاکٹر خالد سہیل کی شخصیت میں کئی منفرد اور متاثر کن خصوصیات کو محسوس کیا ہے۔ ان کی سادہ شخصیت، ان کے اپنے مقاصد کے بارے میں صاف اور مرکوز خیالات، ان کا غیر روایتی انداز، ان کا ہر ایک سے دوستی کا رشتہ اور میل جول کے لئے وقت نکالنے کی خصوصیات بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور یہی ان کی انفرادیت ہے۔

انہوں نے اس کتاب میں بہترین انداز میں اپنی شخصیت اور اپنی زندگی کا سفر قاری کے سامنے رکھ دیا ہے۔ جو ادب، انسانی تجربات اور رہنمائی کی بہترین آمیزش ہے۔ جس طرح ان کی شخصیت سادہ ہے۔ لیکن اس میں ایک گہرائی ہے۔ ایسے ہی سادہ اور مختصر الفاظ میں لکھی گئی اس کتاب میں گہرائی ہے۔ جس کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی ایک اہم خوبصورتی اس میں کرداروں کو افراد اور مقامات کی خصوصیات کے مطابق استعاراتی کرداروں میں بدل کر پیش کرنا ہے۔ مثلاً پاکستان کو روایات کی زمین، کینیڈا کو آزادی کی زمین، ماں کو مذہب اور نانی کو دانائی کے ناموں سے پیش کرنا۔

اس کتاب کے اختصار میں چھپی ہوئی دانائی نے مجھے اس کو بار بار پڑھنے پر مجبور کیا۔ یوں یہ میرے لئے وہ کتاب بن گئی جو میرے قریب رہتی ہے اور جب بھی موقع ملے بغیر کسی ترتیب کی فکر کے، کوئی بھی صفحہ کھولوں اور پڑھوں تو تحریر دل کو چھوتی محسوس ہوتی ہے اور اکثر تو ایسا لگتا ہے کہ ”گویا یہ بھی میرے دل میں ہے“ ۔ ان کی بات کے ساتھ ایک جڑاؤ محسوس ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب کے تعارف میں اس کے لکھنے کے تجربے کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ”مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اپنی ذات کی اوپری منزل میں رہ رہا تھا۔ اور پھر مجھے ایک اندرونی دروازہ ملا۔ دروازہ ہمیشہ سے تھا لیکن میں نے کبھی نہیں کھولا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اسے کھولا جا سکتا ہے۔ اور میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ دراصل وہ دروازہ کبھی بند نہیں تھا۔ جب میں اس دروازے سے داخل ہوا تو مجھے وہ سیڑھی ملی جو مجھے اپنی ذات کی گہرائی میں لے گئی۔ اور اس گہرائی میں میں نے ان احساسات کو چھو لیا جو پہلے کبھی نہیں چھو سکا تھا“

نظم اور نثر کی خوبصورت آمیزش پر مبنی، کہانی ایک انسان سے شروع ہوتی ہے اور پوری انسانیت کی کہانی بن جاتی ہے۔ ہر عنوان کی اپنی تاثیر ہے۔ میرے ذاتی پسند کے عنوانات میں سے ایک ہے ”محبت“ ۔ اس عنوان کے تحت انہوں نے جیسے محبت کے وسیع دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔ اس میں محبوب کی محبت سے ہوتے ہوئے خاندان کی اور بچوں کی محبت کو آگے انسانیت کی محبت تک لے گئے ہیں۔ جس کا مزید بہترین اظہار انھوں نے اپنی دو خوبصورت نظموں ”when we are in love“ ، اور ”daughter of the world“ میں کیا ہے۔ انہوں نے محبت کو جس طرح طمانیت سے ملایا ہے۔ وہ خاص طور پر توجہ کے قابل ہے۔

اس کتاب میں رہنمائی کا عنصر ہے۔ جو دنیا اور معاشرے سے انسان کے ہر رشتے پر لاگو آتا ہے۔ میری نظر میں یہ رہنمائی وہی انسان کر سکتا ہے جسے اپنی ذات کی خود آگاہی اور انسانیت کا بھر پور احساس ہو۔ اور خالد سہیل میں ان دونوں خصوصیات کی کمی نہیں۔

اس کتاب میں شامل ایک نظم جو مجھے بہت پسند ہے۔ اس کا عنوان ہے invisible chains۔ جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہو گا۔

ان دیکھی زنجیریں
جب ہم کچھ کرنا چاہیں
کچھ الگ سا
کچھ منفرد سا
اور کچھ تخلیقی
تو ہم محسوس کرتے ہیں،
ایک دباؤ
ان دیکھی زنجیروں کا
روایات کی زنجیروں کا،
جو خبردار کرتی ہیں،
کہ خاص حد میں رہنا،
اور اگر،
حد کی لکیر پار ہو جائے،
تو ایک قیمت ادا کرنی ہے،
روایتی لوگ حوصلہ نہیں رکھتے،
اس حد کو پار کرنے کا،
لیکن،
تخلیقی لوگ،
پار کر لیتے ہیں،
اور قیمت ادا کرتے ہیں،
ان دیکھی زنجیروں کو توڑنے کی،
اور پھر،
ایک نئی دنیا میں داخل ہوتے ہیں،
خوابوں کی دنیا،
اور نئی منزلوں کی دنیا۔

میں اس کتاب کے لکھنے پر ڈاکٹر خالد سہیل کو مبارکباد دیتی ہوں۔ اور ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ کہ ہمیں اس کتاب کی شکل میں ایک خوبصورت اور منفرد تحفے سے نوازا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).