جنسی ہراسانی اور ’علیل جبری نظریات‘


اسلام آباد کے ایک نجی بینک میں خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا واقعہ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کافی نمایاں رہا ہے۔ خواتین نے اس پر احتجاج اور افسوس کا اظہار کیا جبکہ مردوں نے حسب معمول یہی کہا کہ عورت ذمہ دار اور قصوروار تھی۔ اس نے کیوں خاموشی سے برداشت کیا؟ پلٹ کر ہراساں کرنے والے کا منہ کیوں نہ توڑ دیا؟ اس کی خاموشی کا مطلب تو بظاہر ’رضامندی‘ ہے یا ہراساں کرنے والے سے ضرور کوئی جنسی اور جسمانی تعلق ہو گا۔ جب خواتین اور لڑکیاں ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ہراساں کرنے والے کا ہاتھ روکنے کی جرات نہیں رکھتیں تو بعد میں رونا پیٹنا، لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنا، شور مچانا کیسا؟

انہی سوالات اور چند ساتھی خواتین سے اس موضوع پر ہونے والی گفتگو نے مجھے قلم اٹھانے کی ترغیب دی۔ یہ بات ہمارے ہاں سبھی کو معلوم ہے کہ عزت اور غیرت، شرم و حیا، اور اخلاق و کردار کو نہایت جاہلانہ بلکہ پدرسری طریقے سے صرف عورت کی ذات سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ عورت کی نازک گردن میں یک طرفہ طور پر یہ ’طوق جہالت‘ پہنا کر مردوں نے گویا خود کو اخلاقیات سے بری الذمہ سمجھ لیا ہے۔ خاندان کی عزت میں اضافہ یا کمی عورت کے عمل اور کردار سے وابستہ ہے ؛ شرم و حیا نامی شے صرف عورت پر فرض کی گئی ہے ؛ اخلاقیات اور اعلیٰ کردار کی صلیب بھی عورت ہی کو اٹھانی ہے ؛ اور اگر وہ اپنی نسوانی ذمہ داریوں (جو مردانہ غلبے والے معاشرے نے اس پر عائد کی ہیں ) میں کوتاہی کر جائے تو خاندان کی عزت دار پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ قرار پائے جسے مٹا دینے میں ہی خاندان اور معاشرے کی بھلائی ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے افراد کی اکثریت کے یہی خیالات ہیں۔

عورت اپنی مجبوری یا کم ہمتی کے باعث اگر جنسی زیادتی پر خاموش رہے تو اس کی رضامندی سمجھ لیا جاتا ہے۔ خدانخواستہ زنا بالجبر کا شکار ہو جائے تو وجہ قرار پاتا ہے اس کا لباس، بے باکانہ ادائیں، اور دعوت نظارہ۔ اور اگر ہمت کر کے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے مرضی کے خلاف کسی مرد سے شادی یا دوستی سے انکار کر دے تو کہیں تیزاب گردی، کہیں قاتلانہ حملے، اور کہیں انتقامی آبروریزی کا نشانہ بنتی ہے۔ تو پھر جنسی درندوں سے پناہ کہاں ملے گی؟ شاید گھر کی چار دیواری میں؟ نہیں، وہ بھی بھیڑیوں سے خالی نہیں۔ بچوں بچیوں اور خواتین سے جنسی زیادتی کے کئی واقعات میں گھر اور خاندان ہی کے مرد اور لڑکے ’منہ سفید‘ کرنے کے جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔

عورت کی کم ہمتی؛ بروقت رد عمل ظاہر نہ کر سکنا؛ بدنامی اور تماشا بننے، قصوروار قرار پانے، اور ملازمت چھن جانے کے خوف سے خاموشی۔ اگرچہ اس میں بچیاں اور خواتین بھی یقیناً کسی حد تک قصوروار ہیں لیکن کیا ہمارے ہاں بچیوں کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ ہمت سے کام لے کے جنسی ہراسانی کے خلاف بولیں؟ کیا انہیں اچھے اور برے لمس میں فرق کرنا اور برے لمس کو رپورٹ کرنا سکھایا جاتا ہے؟ اور نہایت اہم سوال یہ ہے کہ کیا لڑکوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ ہر غیر یا رشتے دار عورت کا احترام کریں جیسے وہ اپنی ماں اور بہن کا کرتے ہیں؟

بلکہ یہاں تو ماں اور بہن کے احترام کی بھی تربیت نہیں دی جاتی۔ (گزشتہ دنوں ایک موٹیویشنل سپیکر صاحب اس بات پر زور دیتے نظر آئے کہ بچیوں کو سکول میں اچھی بیوی اور ماں بننے کی تربیت ملنی چاہیے۔ کاش وہ لڑکوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں تہذیب سکھانے پر بھی زور دیتے! ) میں نے کئی نوعمر لڑکوں تک کو ماں اور بہن سے بدزبانی، گالی گلوچ، اور محض لڑکا ہونے کی بنا پر بے جا رعب جماتے دیکھا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ لڑکے تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔ جس معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت میں اتنا گہرا فرق ہو، وہاں عورت کو اپنے جسم اور آبرو کی حفاظت کے لئے صرف اپنی ذات پر اعتماد کرنا ہو گا۔

ہمارے مردانہ صفات سے متصف مرد گھر کی عورت کے ساتھ خدانخواستہ زیادتی یا آبروریزی کی صورت میں یا تو اسے ’بدبو دار غیرت‘ کے نام پر قتل کر دیتے ہیں یا اپنا ’منہ سفید‘ ہونے کے خوف سے مقدمے کی پیروی نہیں کرتے۔ بعض اوقات مجرمان سے پیسے لے کر مفاہمت کر لی جاتی ہے۔ ایسی مثالیں بہت کم ہیں کہ مرد نے اپنے گھر کی عورت یا لڑکی کو ہراساں کرنے والی کی خاطر تواضع کی ہو۔ اکثر ایسے معاملات کو (under the carpet) دھکیل دیا جاتا ہے، کیونکہ عورت کی عزت پر حرف آنے سے مرد کی ناک کٹ جاتی ہے۔ حیرت ہے کہ زنا بالجبر اور آبروریزی کے مجرمان کے خاندانوں کی ناک نہیں کٹتی۔

ہمیں چاہیے کہ ایسے مردوں کے اہل خانہ کو بھی طعنے دے دے کر جینا حرام کر دیں تاکہ وہ بھی اپنے ’سیاہ اور قابل کراہت‘ چہرے چھپاتے پھریں۔ ہر دفعہ صرف عورت یا اس کا خاندان ہی کیوں خمیازہ بھگتے؟ یہی وجہ ہے کہ تماشا بننے کے خوف سے عورت اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو رپورٹ نہیں کر پاتی۔ ہمارے معاشرے کی ذہنیت اس عظیم سرکاری افسر کے الفاظ کی طرح قابل کراہت ہے جس نے کہا تھا: رات کے ایک بجے مرد کے بغیر تنہا اور بچوں کے ساتھ موٹر وے پر سفر کرنے والی خاتون خود ذمہ دار ہے جو اس کے ساتھ سانحہ پیش آیا۔

جہاں جرم کا شکار ہونے والی لڑکی یا عورت ہی کو قصوروار قرار دینا روایت ہو، وہاں عورت بولنے کی جرات بہت کم کر سکتی ہے۔ شکر ہے کہ اسلام آباد میں نجی بینک کی انتظامیہ نے جنسی ہراسانی کا واقعہ رپورٹ ہونے کے بعد ذمہ دار کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔ کاش، ہمارا معاشرہ جنسی ہراسانی، زیادتی، اور زنا بالجبر / آبروریزی کے مجرمان کے ناپاک اور بدبودار وجود کو بھی اپنے گھروں میں رکھنے سے انکار کر دے۔ عورت کی عزت اور خاندان کی غیرت سے منسلک ’علیل جبری‘ نظریات کا خاتمہ اور انہیں مسترد کر دینا ہی عورت کے تحفظ کا ضامن ہے۔

اپنی بچیوں اور خواتین کو ہراسانی اور زیادتی کے خلاف بولنا، ذمہ دار کو منہ توڑ جواب دینا، اور رپورٹ کرنا سکھائیں تاکہ وہ بھی معاشرے میں کھل کر اور عزت سے جی سکیں، نہ کہ خود کو ہی مجرم سمجھتی رہیں۔ ذرا اپنی خوبصورت زبان کو مجرم کے خلاف بولنے کی بھی جرات عطا کریں، نہ کہ مظلوم کو ہی قصوروار قرار دے کر اور زیادہ ظلم ڈھائیں۔ اور جنسی ہراسانی یا ایسے کسی جرم کا شکار ہونے والی بچی یا خاتون کو شودر، بدکار، ناپاک، اور خاندان کے لئے کلنک کا ٹیکہ قرار دے کر مسترد نہ کریں۔ کل کلاں کہیں یہ ’کلنک‘ آپ کی اپنی پیشانی کا جھومر نہ بن جائے کیونکہ بیٹیاں، بہنیں، مائیں، اور بیویاں آپ کے خاندان کا بھی حصہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).