روف کلاسرا کا انگریزوں کی مدح سرائی پر کالم


ہندستان میں استعمار کی تاریخ سے جنم لینے والے تاریخی بیانیوں کی جڑوں میں یورپی افضلیت کے تصورات پیوست ہیں، جب ایک فرد اس افضلیت کو قبول کرتا ہے تو وہ یورپی تہذیب کا قائل اور برطانوی سرکار کا احسان مند ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے، غالباً یہ احسان مندی انگریز عہد کے نافذ کردہ سیاسی، تعلیمی اور انتظامی ڈھانچہ پر تیقن ہونے کی کلاسیکی مثال ہے۔ پاکستان کے نام ور صحافی اور دانش ور روف کلاسرا نے تازہ کالم میں اپنے تیقن کی بنیاد پر ہندستان کے مغلیہ عہد کو تعصب پسندی کا چشمہ لگا کر پیش کیا ہے، حتیٰ کہ ہندستان میں انگریزوں کی معاشی غارت گری، سول و ملٹری ڈھانچہ سے مسلط کردہ جنگوں اور مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کو بھی جائز قرار دیا ہے۔

تاریخ کا یہ بیانیہ دراصل دار شکوہ کے ذاتی معالج برنیئر کے متعصب سفر نامہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم جیمز مل کی مرتب کردہ تاریخ ہندستان کی کتاب سے ماخوذ ہے جسے بعد کے مورخین نقل کرتے آرہے ہیں۔ ہندستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضے سے شروع ہونے والے نوآبادیاتی عہد میں ہی نصاب کے ذریعے سے ایسے اذہان پیدا کرنے کا آغاز ہوا جس کا مقصد حقائق کو مسخ کر کے انگریزوں کی کاسہ لیسی کو نجات دہندہ تسلیم کرنا رہا۔

شہنشاہ جہانگیر کے بیٹے کا قتل، شاہ جہاں کے بھائی کا قتل، اورنگزیب (اورنگزیب نے انگریز کی استعماریت کا پچاس برس تک راستہ روکے رکھا اور اس دوران دو معرکوں میں انگریزوں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا، یہی وجہ ہے کہ اورنگزیب کو متنازعہ بنانے کے لئے استعماری لکھاریوں کا سہارا لیا گیا) کے اپنے بھائی دارا شکوہ، شجاع اور بھتیجے کے قتل کی دانش ور روف کلاسرا نے ایسی منظر کشی کی ہے جیسے وہ خود مغل دربار میں بیٹھ کر سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔

مغلیہ شاہی خاندان کے یہ تین قتل تو دانش ور روف کلاسرا کے لئے انسانیت پر ظلم عظیم ہیں لیکن برطانویوں کو بنگال میں دیوانی کے اختیارات ملنے کے پانچ سال بعد ہی پیدا ہونے والے قحط سے قتل کیے گئے لاکھوں افراد کا دکھ نہیں ہے۔ 1757 ء میں جنگ پلاسی کے فوری بعد، بنگال کے خزانے سے لوٹے گئے 25 لاکھ پاونڈز لوٹنا کمپنی کی تحویل میں جانا، رابرٹ کلائیو کا 234000 پاونڈز لندن منتقل کرنا، سرکاری خزانے میں رکھے سونے اور چاندی کو یورپ منتقل کرنا بھی شاید دانش ور روف کلاسرا جائز تصور کرتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے گماشتے ہوں یا پھر برٹش سرکار کے رکھوالے، وہ ہندستان سے یورپ کیسے دولت منتقل کرتے رہے، اس پر پاکستان میں دانش وری چپ سادھ لیتی ہے۔

قومی تاریخ کا موازنہ کسی دوسری قوم کے ساتھ سماجی و سیاسی اصولوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، ہندستان کے شاہی نظام کا موازنہ یورپ کے شاہی نظام سے ہوگا، جب مغربی یورپ میں شاہی نظام رائج تھا تو وہاں پوپ اور بادشاہت کے گٹھ جوڑ سے یورپی افراد کا استحصال ہو رہا تھا، یورپ خانہ جنگی کا شکار تھا، جاگیرداریت کا تسلط تھا، جسے خود یورپی مصنفین عہد ظلمت گردانتے ہیں، وہ نظام جس سے یورپ چھٹکارا حاصل کر چکا تھا، برطانوی سرکار نے ہندستان میں قابض ہو کر مسترد شدہ نظام کو اس خطے کے استحصال کے لئے نافذ کر دیا۔

پندرہویں صدی کا ہندستان یورپ کے مقابلے پر کتنا ترقی یافتہ تھا، اگر یہ جاننے کا شوق ہے تو پھر بادشاہ جہانگیر کے دربار میں تجارت کا اجازت نامہ لینے کی خاطر سات مرتبہ پیش ہونے والے برطانوی بادشاہ کے سفیر سر تھامس رو کی دو جلدوں پر محیط کتاب کا مطالعہ کر لیں، اگر تھامس رو سے تسلی نہ ہو تو پھر ہندستان کی بربادی میں انگریزوں کا کردار جاننے کے لئے 1757 ء سے لے کر 1805 ء تک کے معاہدات کی دستاویزات کا مطالعہ کر لیں (دستاویزات درکار ہوں تو میں آپ کو فراہم کر سکتا ہوں ) ۔ اسی طرح ولیم بولٹس کی 1772 ء میں ہندستانی دولت پر لکھی گئی کتاب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خوشحال دھرتی کو پسماندگی میں دھکیلنے کے لئے کیسے شاہی خزانوں پر ہاتھ صاف کیے گئے۔

دانش ور روف کلاسرا نے اپنے کالم میں انگریزوں کی استعماریت کو جائز قرار دیتے ہوئے لکھا کہ بہادر شاہ ظفر کو قید کرنا اور شہزادوں کو پھانسی پر لٹکانا جائز تھا، میں حیران ہوں کہ کیا انگریز پرستی ایک دانش ور سے بینائی چھین لیتی ہے؟ جناب روف کلاسرا کو شاید معلوم نہ ہو کہ کمپنی 1857 ء تک بہادر شاہ ظفر کی مہروں پر مبنی کرنسی جاری کرتی رہی، 1803 ء کے معاہدے کے تحت کمپنی تاجدار مغل کو ٹیکس وصولی کی رقم ادا کرنے کی پاپند تھی اور بہادر شاہ ظفر پر چلنے والے پہلے فوجی مقدمہ کی کارروائی پڑھ لیں تو کمپنی کے اس خطے پر ظلم کی داستان مزید عیاں ہو جائے گی۔

یہ ہندستان کی دولت کو ہڑپ کرنے کا نتیجہ تھا کہ بنگال پر قبضہ کرنے کے دس سالوں میں ہی لندن میں کمپنی کے شیئرز کی قیمت تین گنا تک بڑھ گئی، ہندستان سے لوٹی گئی دولت سے یہ کمپنی جنوری 1769 ء میں برطانوی حکومت کو سالانہ چار لاکھ پاونڈز ٹیکس ادا کرنے کا معاہدہ کرتی ہے۔ دوسری جانب انگریزوں کی استعماریت کا شکار ہو کر ہندستان نے تاریخ کے بدترین چھ بڑے قحط بردداشت کیے۔ اس خطے میں نافذ کردہ نوآبادیاتی عہد کے استعماری نظام اور انگریز راج کی ہمدردی میں دانش ور روف کلاسرا، پاکستانی قوم کو گوروں کا شکریہ ادا کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں تو جناب کی خدمت میں انگریزوں کے نافذ کردہ نظام مملکت کو بھی پیش کرنا اشد ضروری ہے تاکہ خطہ کی تاریخ میں تعصب کی عینک اتاری جاسکے اور دانش وارانہ انا میں کمی ہو سکے۔

انگریزوں کو پورے ہندستان پر قبضہ کرنے میں ایک صدی تک جنگیں لڑنا پڑی، بالآخر مارچ 1849 ء میں پنجاب کو فتح کیا گیا۔ فتح کا معاہدہ دس سالہ سکھ بچے سے کیا گیا اور اس معاہدے کے تحت پنجاب سے جنگی تاوان وصول کیا گیا، شاہی خزانہ لوٹا گیا، کشمیر کو 70 لاکھ روپے میں انگریزوں نے فروخت کر دیا، (یہی کشمیر آج عالمی استمعار کی گریٹ گیم کا شکار ہے ) ان معاہدات کی دستاویزات بھی آپ کی خدمت میں پیش کر دوں گا تاکہ انگریزی استعمار کے انسانی جرائم سے واقفیت ہو سکے!

اب نوآبادیاتی عہد کے دوران ہندستان میں انگریزوں کے مسلط کردہ بیوروکریسی، فوجی، تعلیمی، انتظامی اور سیاسی ڈھانچہ کا تحلیل و تجزیہ کر لیتے ہیں، جس ڈھانچہ پر دانش ور روف کلاسرا فریفتہ ہیں۔ ہندستان کی فتوحات ختم ہونے کے بعد، برطانوی پارلیمان نے 1858 ء میں کمپنی کا تسلط ختم کر کے ہندستان کو براہ راست ملکہ کے تابع کر دیا، کمپنی کے سیاہ دھبے کو مٹانے کے لیے لیڈن سٹریٹ لندن میں کمپنی کی عمارت کو 1874ء میں مسمار کر دیا جاتا ہے۔ برطانیہ اپنی سیاہ کاریوں کو مٹانے کے لئے اس سے قبل 1864 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو شاہی فرمان کے تحت تحلیل کر چکا تھا۔

نوآبادیاتی فلسفہ کے تحت، برطانوی سرکار نے اب یورپی مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خطے کی معیشت کو زراعت پر جامد کرنے کا فیصلہ کیا، استعماریت کو استحکام دینے کے پیش نظر زرعی منصوبے نافذ کیے گئے، ان منصوبوں سے مقامی سطح پر جاگیردار طبقات پیدا کیے گئے، جو جنگ آزادی میں انگریز وفاداری ثابت کر چکے تھے۔ جاگیر دار طبقات، مقامی سطح پر انگریزوں کی سیاست کے نگہبان مقرر ہوئے جس کے عوض انھیں مالی مراعات اور خطابات سے نوازا گیا، مذہب کا لبادہ پہنا کر گدی نشینوں کی پرورش کی گئی، جنھیں مستقبل میں جمہوریت کا نمائندہ بنا کر عوام پر مسلط کیا گیا۔ مقامی اذہان کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے یورپی مرکزیت کے اصول کے تحت تعلیمی ڈھانچہ استوار کیا گیا جس کے لئے چارلس گرانٹ، الیگزینڈر ڈف، ٹی بی میکالے اور چارلس ووڈز نے بنیادی فکری مواد فراہم کیا، اس تعلیمی نظام کے نتیجے میں، 1947 ء میں انگریز سرکار شرح خواندگی صرف 12 فیصد چھوڑ کر چلتے بنے۔

یورپ میں افادیت پسندی کی تحریک کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزی تاریخ اور ادب کو بہ طور ڈسپلن نافذ کیا گیا، ہندستانیوں کو یورپی شاہی نظام کی افادیت پڑھائی گئی، سنسکرت، عربی، فارسی میں موجود لٹریچر کی اشاعت بند کر دی، مشنری منصوبوں کے تحت مخصوص تعلیم یافتہ افراد کو بیوروکریسی میں ماتحت عملے کے طور پر بھرتی کیا گیا۔ فوجی ڈھانچہ میں تشکیل پانے والی رجمنٹوں کو مقامی معاشی مفادات کا محافظ بنایا گیا، ہندستان کی زرعی اجناس بہ شمول گندم، آئل سیڈز، کپاس، کپڑا، چائے اور مصالحہ جات بذریعہ ریل یورپ منتقل کرنے کے لیے ریلوے جال بچھایا گیا۔

ریل کی تعمیر کے لیے یورپی و امریکی کمپنیوں کو منافع بخش ٹھیکے دیے گئے، لندن اور امریکا کے مقابلے پر دس گنا مہنگا ریلوے ٹریک تعمیر کیا گیا اور گریٹ گیم کے تناظر میں فوجی چھانیوں کو ریلوے اسٹیشن کے ساتھ قائم کیا گیا۔ حتیٰ کہ پنجاب میں سینکڑوں ایکڑز پر محیط جنگلات ریل ٹریک کی لکڑی کی ضرورت پوری کرنے کی نظر کر دیا گیا، جن غداران وطن کی انگریزوں نے پرورش کی انھی خاندانوں کو بالا تر طبقات میں شامل کرنے کے لیے محدود سیاسی نظام رائج کر دیا، پہلے رئیسوں، جاگیرداروں کو ووٹ کا حق دیا گیا اور بعد ازاں 1934 ء میں برطانوی مفادات کو مرکز بنا کر استعماری جمہوریت کا دائرہ کھینچا گیا۔ سیاسی نظام متعارف کرانے سے قبل بیوروکریسی اور فوج کو طاقت بخشی گئی۔

انگریز سرکار نے اسی فوجی اور سول بیوروکریسی کی طاقت سے سیاسی نظام کو کنٹرول کیا اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان پر یہ بالاتر طبقات بن کر مسلط کر دیے گئے۔ پاکستان کا عدالتی، تعلیمی، سیاسی، فوجی، پولیس اور سول بیوروکریسی کا نظام نوآبادیاتی عہد سے برطانوی سرکار کا مسلط کردہ ہے اور آج اسی نظام کی حفاظت کے لئے برطانیہ و امریکا ریاست پاکستان کو فنڈنگ فراہم کرتا ہے۔ کتنا ہی تکلیف دہ ہے کہ دانش ور روف کلاسرا اس نظام مملکت پر گوروں کا شکریہ ادا کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔

یہ تہذیبی مرعوبیت، یہ سیاسی مغلوبیت، یہ یورپی مرکزیت پسندی کے خلاف آوازوں کو دبانا، اب ماضی کا کھیل ہے۔ مغلیہ عہد کے ہندستان کی دولت لوٹ کر یورپ (یورپ سے مراد صرف مغربی یورپ ہے وگرنہ دیگر یورپی ممالک آج بھی پسماندہ ہیں) خوشحال ہوا ہے، یہ ماڈرینٹی درحقیقت برصغیر کو جہالت میں دھکیلنے کی بنیاد پر رکھی گئی ہے اور یورپ کی نشاة ثانیہ کی تحریک کا خمیازہ ایشیائی و افریقی اقوام نے غلامی کی صورت بھگتا ہے، یورپی ترقی میں ہندستان کی دولت کا حصہ ہے، جب دولت کی فراوانی ہوئی تو ایڈم سمتھ نے 1776 ء میں ویلتھ آف نیشنز کتاب لکھ کر سرمایہ دارانہ معیشت کا بنیادی فلسفہ واضح کر دیا۔

میں شاہی خاندان میں شہزادوں کے قتل کو افسوس ناک قرار دیتا ہوں تاہم جن شاہی واقعات کو بنیاد بنا کر دانش ور روف کلاسرا نے ہندستان کے سیاسی نظام کا نقشہ کھینچا ہے، یہ خاندان کی حد تک محدود تھا اور ان واقعات سے مغلیہ عہد کے ہندستان کے سیاسی و معاشی نظام پر کاری ضرب نہیں پڑی تھی، البتہ اورنگزیب کی وفات کے بعد، برطانوی سرکار نے تخت نشینوں کا جو کھیل کھیلا وہ بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ہندستان پر برطانوی اجارہ داری نے یہاں کے جمہوری سفر اور صنعتی ترقی کا پہیہ 200 سال تک جام کیے رکھا، برطانیہ کا تشکیل کردہ نظام آج بھی غلامی کا طوق پاکستانیوں پر مسلط کیے ہوئے ہے۔ استعماریت پر مبنی ذہنی مرعوبیت اب ختم ہو کر رہے گی! اب آزادی فکر اور رد نوآبادیت کا سورج طلوع ہونے کو ہے! گالم گلوچ، تلوار اور مخصوص قلم تاریخ کی حقیقت نہیں مٹا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).