پتھر


مصنف : رچرڈ شیلٹن (امریکہ)
مترجم: خلیل الرحمان
کتاب: فلیش فکشن ( 72 انتہائی مختصر کہانیاں )

سردیوں کی راتوں میں مجھے باہر جانا اور دوسرے پتھروں کو بڑھتے ہوئے دیکھنا اچھا لگتا پے۔ میرے خیال میں وہ یہاں صحرا میں، جہاں پر موسم گرم اور خشک ہوتا ہے، کسی بھی دوسری جگہ کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں پھلتے پھولتے ہیں۔ یا پھر چھوٹے یہاں پر زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ چھوٹے پتھروں کا رجحان اپنے بڑوں کی ناپسندیدگی کے باوجود حرکت پذیری کی طرف زیادہ رہتا ہے۔ اکثر چھوٹے پتھروں کی ایک خفیہ خواہش ہوتی ہے جیسا کہ کبھی ان کے ماں باپ کی ہوتی تھی اور جسے اب وہ مدت ہوئی بھول چکے تھے۔

اور کیوں کہ اس خواہش میں پانی بھی شامل ہوتا پے، اس کا کبھی اظہار نہیں کیا جاتا۔ بوڑھے پتھر پانی کو ناپسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ”کہ پانی بھی ایک چمچ چچڑ کی طرح سے کبھی بھی زیادہ عرصہ ایک جگہ پر نہیں ٹکتا، کہ کچھ سیکھ سکے۔“ لیکن چھوٹے پتھر اپنی اپنی جگہ پر، اپنے بڑوں کے علم میں لائے بغیر کام جاری رکھے ہوئے تھے، تاکہ گرمیوں کے طوفان میں پانی کا ایک بڑا ریلا ان کو نادانستگی میں ایک طرف لڑھکا کر لے جائے اور ڈھلوان سے گرا کر ان کو آبی گزرگاہ کا حصہ بنا دے۔ ان تمام دشواریوں کے باوجود وہ سفر کرنا چاہتے تھے اور دنیا دیکھنا چاہتے تھے اور گھر سے دور ایک نئی جگہ پر سکونت پذیر ہونا چاہتے تھے۔ جہاں وہ اپنے گھر والوں کے تسلط سے دور اپنے خاندانوں کی پرورش کرسکیں۔

اور ہر چند یہ کہ ان پتھروں کے خاندانی تعلقات آپس میں بہت مضبوط ہوتے ہیں ان میں سے کئی دلیر چھوٹے پتھر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے، اور ان کے نشانات ان کے بچوں کو یہ ثابت کرنے کو کافی تھے کہ کبھی وہ سفر پر نکلے اور اور بلند پانیوں میں سے گرتے پڑتے وہ غالباً پندرہ کلومیٹر کا ایک ناقابل یقین سفر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جوں جوں وہ بوڑھے ہوتے گئے، انھوں نے اپنی خفیہ مہمات پر شیخیاں بھگارنا بند کر دیا۔

یہ سبھی سچ ہے کہ سن رسیدہ پتھر بہت قدامت پسند ہوتے ہیں۔ وہ ہر قسم کی حرکت کو یا تو بہت پرخطر یا انتہائی زبوں عمل گردانتے تھے۔ جدھر وہ تھے وہاں وہ خود کو آسودہ خیال کرتے اور اکثر فربہ ہو جاتے۔

فربہی، درحقیقت، ناموری کی علامت ہے۔

اور گرمیوں کی راتوں میں، جب سب چھوٹے سو جاتے ہیں تو بڑے ایک سنجیدہ اور ہوش ربا عنوان، چاند کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جس کے بارے میں ہمیشہ سرگوشیوں میں بولا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک بولا، ”دیکھو! یہ کیسے دمکتا ہے اور آسمان پر تازیانے کے جیسے لگتا ہے، ہمیشہ اپنی شکل بدلتے ہوئے۔“ دوسرا بولا، محسوس تو کرو یہ ہمیں کیسے اپنی طرف کھینچتا ہے، اس بات پر اکساتے ہوئے کہ ہم اس کی پیروی کریں۔ ”اور ایک تیسری سرگوشی ہوئی،“ یہ ایک پتھر ہے جو پاگل ہو گیا تھا۔ ”

رچرڈ شیلٹن
رچرڈ ڈبلیو شیلٹن ( 1933 ) اریزونا سے تعلق رکھتے والے ایک لکھاری اور شاعر ہیں وہ اریزونا یونیورسٹی
میں تخلیقی ادب کے پروفیسر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).