ٹرمپ کے بعد امریکہ کا کیا بنے گا


 

ٹرمپ ہار گیا۔ بائیڈن جیت گیا۔ اس بات پر کچھ لوگ ماتم کناں ہیں، کچھ جشن منا رہے ہیں۔ مگر بوڑھے بائیڈن نے جن حالات میں امریکہ کی قیادت کا بیڑا اٹھایا ہے، وہ کوئی بہت زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔ اسے بہت ہی خوفناک اور مایوس کن حالات کا سامنا ہے۔ وبا کی تباہ کاریاں ناقابل یقین ہیں۔ وبا کے شکار لوگوں کی تعداد دس ملین سے گزر چکی ہے۔ معاشی بدحالی کا جو منظر ہے، وہ انیسویں صدی کی تیسری دہائی کے عظیم ڈپریشن سے کم نہیں۔

یہ حالات محض معاشی طور پر ہی نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی عظیم ڈپریشن سے مماثلت رکھتے ہیں کہ تب امریکیوں نے اس وقت کے صدر کو دوسری بار منتخب کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بد قسمت ہربرٹ ہوور کی ہار تو ڈپریشن کا نتیجہ تھی۔ مگر ٹرمپ کی ہار میں وبا کی تباہ کاریوں سے زیادہ ان کی حرکات و سکنات کا دخل دکھائی دیتا ہے۔ وبا کی تباہ کاریاں صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہی صورت اس وقت اگر پوری دنیا میں نہیں تو کم ازکم 80 فیصد ممالک میں نظر آتی ہے، جہاں کئی جگہ عوام نے حکمرانوں کو دوبارہ منتخب کیا۔

نو منتخب صدر کا کوئی ایک مسئلہ ہو تو اس کا ذکر کیا جائے۔ مسائل کا ایک سمندر ہے۔ بائیڈن کا سب سے بڑا مسئلہ صدر ٹرمپ کی پیدا کردہ تنگ نظر اور بے رحمانہ قوم پرستی کے اس طوفان کا مقابلہ کرنا ہے، جو ٹرمپ کے وائیٹ ہاؤس سے رخصتی کے بعد بھی اپنی تباہ کاریاں جاری رکھے گا۔ نئے صدر کا اصل چیلنج مذہب و رنگ میں لتھڑی ہوئی متعصبانہ قوم پرستی اور عالمگیریت کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے۔ اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔

صدر ٹرمپ نے تاریخ میں پہلی بار بہت سارے امریکیوں کو نسلی اور قومی برتری کے اس درجے تک پہنچا دیا ہے، جہاں قوم پرستی اور فاشزم کے درمیان بہت باریک فرق رہ جاتا ہے۔ جھوٹی قوم پرستی کا یہ ایک تازہ چڑھتا ہوا نشہ ہے، جس کو اترنے میں میں کافی وقت اور محنت درکار ہوگی۔ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے والی بات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکہ نصف صدی تک سویت یونین کے مقابلے میں دنیا کی ایک بڑی سپر پاور رہی ہے۔ اور سویت یونین کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد یہ تین عشروں تک دنیا کی واحد سپر پاور رہی ہے۔

لیکن اس کی عظمتوں او رفعتوں کا کا راز کبھی بھی قوم پرستی نہیں رہا ہے۔ اس کے برعکس امریکیوں نے نے بین الاقوامیت پسندی کو ترجیع دی۔ مگر پر امن بقائے باہمی، اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت جیسے بین الاقوامیت پسندی کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کیا۔ اور بین الاقوامیت کی حدود کو پار کر کے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت، ان میں اپنی پسند اور ناپسند کی حکومتوں کی تشکیل و تخریب کے ذریعے دنیا میں اپنی بالادستی اور برتری قائم رکھنے کی پالیسی اپنائی۔

صدر ٹرمپ نے اس پالیسی کو ہیجانی انداز میں آگے بڑھانے کا راستہ اختیار کیا۔ ”امریکا سب سے پہلے“ کے نعرے کو لے کر اس نے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو فوجی طاقت کی برتری اور سیاسی و معاشی اثر رسوخ کے استعمال سے سے جوڑ کر پیش کیا، جس کا مطلب یہ تھا ہے کہ دنیا میں دکھ درد، قدرتی آفات، بیماری و تباہی کی صورت میں امریکہ کسی کا شراکت دار نہیں ہوگا۔

اس عمل نے امریکہ کے ان شراکت داروں کو بھی مایوس کیا، جو ہر بات پر امریکہ کی طرف امید کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نئے منتخب صدر کو بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوگا کہ وہ عالمی سیاست میں امریکہ کا کھویا ہوا اعتبار اور اس پر انحصار کرنے کی نفسیات بحال کرے۔

دنیا کے کئی ممالک میں امریکہ کا اعتبار صرف فوجی طاقت کی وجہ سے ہی نہیں تھا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے بڑے پیمانے پر اپنے معاشی وسائل، سیاسی طاقت اور اخلاقی دباو کو بھی استعمال کیا ہے۔ روایتی اور تاریخی طور پر سویت یونین کے خلاف امریکہ کا سب سے بڑا اخلاقی ہتھیار جمہوریت اور انسانی حقوق کا نعرہ رہا ہے۔ سویت یونین کے بعد بھی اگرچہ دکھاوے کے لیے ہی سہی ایک عرصے تک اس ہتھیار کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا رہا۔

اس کا ایک اظہار دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی حمایت میں ہوتا رہا۔ اس میدان میں ٹرمپ نے ایک تباہ کن رجعت پسندانہ پالیسی اختیار کی، جس کے نتیجے میں نہ صرف دنیا میں امریکہ کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا بلکہ اس کی وجہ سے سے دنیا میں جمہوری قوتوں اور انسانی حقوق کے علمبردار تحریکوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور دنیا میں یہ تاثر بڑی حد تک پختہ ہو گیا کہ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا مسئلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

اس سے دنیا میں مطلق العنانیت اور آمریت پسندانہ رجحانات میں اضافہ ہوا۔ کچھ جگہوں پر قومی آزادی اور جمہوری حقوق کی تحریکوں کو بے دردی سے کچلا گیا۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ نئی دنیا میں معاشی مفادات انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے زیادہ اہم ہیں۔ اور امریکہ اپنے معاشی اور سٹریٹیجک مفادات کے لیے آمریتوں کے ساتھ شراکت داری کر سکتا ہے، اور ان کو جمہوری قوتوں پر ترجیع دیتا ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے اور دنیا میں جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے ساتھ امریکہ کی شراکت داری کو بحال کرنے کے لیے لیے کافی محنت کی ضرورت ہوگی۔

نئی منتخب حکومت کا ایک اور بڑا چیلنج مختلف ممالک کا علاقائی بنیادوں پر غلبے کا تصور ہے۔ یہ تصور صدر ٹرمپ کی نئی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے مختلف علاقائی طاقتوں نے علاقائی بنیادوں پر اپنے اپنے علاقے میں غلبہ حاصل کیا ہے۔ اس غلبے کے تحت سائبر سپیس میں خودمختاری اور مقامی انٹرنیٹ کے تصور نے فروغ پایا، جس کا مقصد اظہار رائے پر پابندی اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو حکومتی کنٹرول اور منشا کے مطابق لانا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ علاقائی پانیوں اور خشکی پر برتری اور بالادستی کا تصور بھی مضبوط ہوا۔ ان تصورات کا جواب ایک آزاد دنیا کا قیام ہے۔ یعنی ایک ایسی دنیا جو انسانی حقوق و جمہوریت کے حوالے سے عالمگیریت پر یقین رکھتی ہو۔ امریکیوں کے لیے ایسی دنیا کے قیام کے تصورات کے ساتھ دوبارہ جڑنا اور دنیا میں ہونے والی ایسی جدوجہد کا ساتھ دینا ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔ نو منتخب حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ امریکہ کے نئی حیثیت اور نئے سٹیٹس کو کو ذہنی طور پر قبول کرنا ہے۔

ایک بات طے ہو چکی ہے کہ اب امریکہ دنیا میں واحد سپر پاور کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے نئی حکومت کے پاس دو ہی راستے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ وہ ماضی کی عظمتوں اور سنہری خوابوں میں کھو کر ان کی بحالی کی سعی لا حاصل کرے۔ اور دوسرا یہ کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں امریکہ کے نئے عالمی کردار کا تعین کرے، جو زیادہ قدرتی راستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).