ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟


چار سال کی بچی اور اس کی ماں کے ریپ کا اندوہناک سانحہ کسی بھی صاحب دل کا کلیجہ چیر سکتا ہے۔ اس سے پہلے زینب کیس نے بھی خون کے آنسو رلایا تھا۔ درندگی کے ان واقعات پر غم و غصے کا اظہار لازم ہے لیکن صاحب! امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ریپ کے بے شمار واقعات ہوتے ہیں۔ مغرب میں جنسی ہراسانی کے متعدد واقعات ہوتے ہیں۔ ریپ بھی ہوتے ہیں۔ ان کا میڈیا ایسی خبریں سامنے نہیں لاتا۔ ہمارا ”غدار میڈیا“ ایسے واقعات کو نمایاں طور پر پیش کرتا ہے جس سے ہماری دنیا بھر میں بدنامی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی میں بے شک مغرب سے پیچھے ہیں لیکن اخلاقی حوالے سے ان سے بہت بہتر ہیں۔ مغرب میں عورت کی کوئی عزت نہیں۔ مغرب نے عورت کو پستی اور ذلت کے گڑھے میں گرا دیا ہے۔ ان کی عورتیں دفتروں میں، فیکٹریوں میں، دکانوں میں ہر جگہ کام کر کر کے ہلکان ہوتی رہتی ہیں۔ ہم نے تو عورت کو ملکہ بنا کر رکھا ہے۔

مغرب کی عورت نیم برہنہ بازاروں میں پھرتی ہے۔ وہاں بہت فحاشی اور عریانی ہے۔ ہماری عورتیں چادر، عبایہ اور برقعے کے بغیر باہر نہیں نکلتیں۔ ہمارا ماحول بہت پاکیزہ ہے۔ مغرب میں نائٹ کلب کھلے ہیں۔ شراب سر عام بکتی ہے۔ ہمارے ہاں تو پارک ہو یا پارٹی نا زیبا حرکات کرنے والے جوڑوں کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ شراب پر تو مکمل پابندی عائد ہے۔

ہمارے ہاں جو ریپ وغیرہ کے کیسز ہوتے ہیں یہ مغرب کے اثرات کی وجہ سے ہیں۔ ہمارے ٹی وی ڈرامے عشق محبت کی کہانیاں دکھاتے ہیں جس کی وجہ سے لڑکیاں بے حیا ہو رہی ہیں۔ لڑکیاں مختصر لباس پہنیں گی تو مردوں کے لیے جذبات پر قابو پانا تو مشکل ہو گا۔ دراصل عورتیں مردوں کے جذبات بھڑکانے کی ذمہ دار ہیں۔

مذکورہ بالا خیالات اور فرمودات ہمارے ”دانشور طبقے“ اور عام آدمی کے ہیں۔ وطن عزیز میں ایک کے بعد ایک لرزہ خیز واقعہ رونما ہوتا ہے۔ ابھی ہم درندگی کے ایک واقعے کے شاک سے نکل نہیں پاتے کہ دوسرا واقعہ سامنے آ جاتا ہے۔ نہ چند ماہ کی بچی محفوظ ہے نہ بوڑھی عورت۔ نہ جینز اور پینٹ والی، نہ چادر اور برقعے والی۔ حتیٰ کہ قبر میں لیٹی ہوئی مردہ عورت بھی ریپ ہو جاتی ہے، اس کے باوجود ثنا خوان تقدیس مشرق مصر ہیں کہ ہم بہت اچھے ہیں۔ ہماری اخلاقیات کا معیار بہت بلند ہیں۔ عورت کو عزت تو فقط ہم ہی دیتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک مولانا فرماتے ہیں بیوہ اور طلاق یافتہ سے تین شادیاں کرو، چوتھی میں سولہ سالہ کنواری سے کراؤں گا۔ سولہ سال کی نہ ملی تو آٹھ آٹھ سال کی دو۔ اگر وہ نہ ملیں تو چار چار سال کی چار لے کر دوں گا۔ ساتھ قہقہہ بھی لگاتے ہیں اور حاضرین سے داد بھی وصول پاتے ہیں۔

حقائق کو صاف جھٹلانے والے، اپنی جہالت، کم علمی اور خباثتوں پر ناز کرنے والے اور اپنے آپ کو ساری دنیا سے بہتر سمجھنے والے نہ صرف خود درندے ہیں بلکہ درندوں کی نسل پروان چڑھا رہے ہیں۔ اسی لیے درندگی کے واقعات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ بسکٹ کے اشتہار میں فحاشی تلاش کرنے والے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ریپ کے واقعات میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔

ریپ کے مجرموں کو سخت سزائیں بھی دی گئی ہیں۔ پھانسیاں ہوئی ہیں، عمر قید ہوئی ہے۔ پولیس مقابلوں میں ہلاک بھی کیا گیا ہے پھر بھی جنسی مریض کیوں بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف یہ دعویٰ ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے مغرب سے بہتر ہیں، مغرب عریاں ہے اور ہم پردے کے پابند ہیں، عورت اور مرد کا آزادانہ میل جول بھی ہمارے کلچر کا حصہ نہیں، شراب پر پابندی ہے، ان کا فیملی سسٹم تباہ ہو چکا ہے جب کہ ہمارا خاندانی نظام مثالی ہے، انہوں نے عورت کو ذلیل کر دیا ہے اور ہم عورت کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ تو پھر کیوں، آخر کیوں ایسے واقعات رکنے میں نہیں آ رہے۔ رکنا تو درکنار کم بھی نہیں ہو رہے۔

کیا کبھی کسی نے سوچنے کی زحمت کی ہے کہ ہم کس قدر گھٹن اور حبس میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پابندیوں کے بوجھ تلے دبا، فرسٹریشن کا شکار معاشرہ جنسی درندوں کو پروان چڑھانے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے۔ اس معاشرے میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہا۔ لڑکیوں اور عورتوں کا مذکور ہی کیا۔ مدرسے کے طالب علم محفوظ ہیں نہ ورکشاپ پر کام کرنے والے چھوٹے بچے۔ کوئی کم سن بچی رشتہ دار سے بچ نکلے تو محلے دار کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ اب تو جانور تک محفوظ نہیں رہے۔ کہیں اندھی ڈولفن ریپ ہوتی ہے تو کہیں بلی کا بچہ جنسی تشدد کا شکار ہو جاتا ہے۔

قصور کی زینب ہو یا موٹر وے پر سفر کرنے والی فرانس پلٹ خاتون، معصوم فرشتہ ہو یا علیشا، سب کے لبوں پر ایک ہی سوال ہے۔ ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).