کورونا وائرس: مائیکروچپ نصب کرنے سے لے کر ڈین این اے میں تبدیلی اور دوسرے بے بنیاد دعوؤں کی حقیقت


Motherboard with a syringe with needle filled with red liquid
کورونا وائرس کے خلاف ویکسین بنانے میں 90 فیصد کامیابی حاصل کرنے کی خبر کے بعد اس ویکسین کے خلاف افواہوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ہم نے لوگوں میں مائیکرو چپ نصب کرنے اور جینیاتی کوڈ کی دوبارہ انجینئرنگ اور حفاظت کے متعلق بڑے پیمانے پر پھیلائے جانے والے چند گمراہ کن دعوؤں کا جائزہ لیا ہے۔

ان افواہوں میں سے ایک لوگوں میں مائیکرو چپ نصب کرنے سے متعلق ہے۔ یہ ہمارے جنیاتی کوڈ میں تبدیلی اور حفاظت پر ایک سوال ہے۔

بل گیٹس اور مائیکرو چپ نصب کرنے کے دعوے

اس ہفتے ویکسین کے اعلان بعد بل گیٹس ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

مائیکروسافٹ کے بانی ارب پتی بل گیٹس سے متعلق اس وبا کے دوران کئی افواہیں سامنے آئیں۔ انھیں ان کے صحت عامہ اور ویکسین کی تیاری سے متعلق کاموں کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔

اس ہفتے سب سے زیادہ شئیر کیے جانے والا وہ دعوی تھا جو اس سال کے آغاز میں بھی سامنے آیا تھا کہ کورونا وائرس کے بہانے لوگوں کے اندر ایسی مائیکرو چپ نصب کی جا رہی ہے جس سے ان کی حرکات و سکنات کا پتا چلایا جا سکے۔ اور یہ کہ اس سب کے پیچھے بل گیٹس ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس موبائل فونز اور کرنسی نوٹوں پر ’28 دن تک زندہ رہ سکتا ہے‘

کورونا وائرس اس قدر مہلک کیوں ہے؟

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

بل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بے بنیاد اور جھوٹے دعوے ہیں جن کے بارے میں کوئی ثبوت ہی موجود نہیں ہیں۔

ثبوت نہ ہونے کے باوجود مئی میں ایک سروے کے دوران 1640 لوگوں میں سے 28 فیصد کا یہ خیال تھا کہ ویکسین کے بہانے بل گیٹس لوگوں کے اندر مائیکرو چپ نصب کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے 44 فیصد ایسے لوگ ہیں جن کا تعلق امریکہ کی ریپبلکن پارٹی سے ہے۔

ڈی این اے میں تبدیلی سے متعلق دعوے

ٹرمپ کی حامی ویب سائٹ نیوز میکس کے نمائندے نے ٹوئٹر پر 264,000 فالورز سے کہا کہ وہ فائزر اور بائیو این ٹیک کمپنیوں کی ویکسین سے ہوشیار رہیں۔

ایمرالڈ رابنسن نے اپنے ٹویٹ میں اس ویکسین سے متعلق یہ دعوی کیا کہ یہ آپ کے ڈے این اے میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔

ڈی این اے میں تبدیلی سے متعلق خدشہ باقاعدگی سے فیس بک پوسٹس کی صورت میں بھی شئیر کیا جاتا رہا ہے۔

بی بی سی نے اس سے متعلق آزاد ذہن رکھنے والے سائنسدانوں سے بات کی ہے۔ ان سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی ویکسین ڈی این اے تبدیلی کا مؤجب نہیں بنے گی۔

ایسا لگتا ہے کہ ایسے دعوؤں کی ترویج کرنے والے جینیاتی خلیوں سے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ویکسین میں وائرس سے متعلق جینیاتی مواد یا آر این اے موجود ہوتا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری آلمنڈ کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کے اندر آر این اے لگانے سے انسانی خلیوں کے ڈی این اے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

فائزر کے ترجمان اینڈریو وڈگر کا کہنا ہے کہ کمپنی کی ویکسین انسانی جسم کے ڈی این اے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں پیدا کرتی۔ بلکہ ویکسین سے جسم کی قوت مدافعت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ ہم ڈی این اے میں تبدیلی سے متعلق ایسے دعوؤں کو پرکھ رہے ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے مئی میں ایک ایسی ہی ویڈیو پر بھی تحقیق کی تھی۔

یہ تیار کی جانے ویکسین کی قسم سے متعلق ویسی ہی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ فائزر ویکسین پیغام رسانی کے لیے آر این اے یا ایم آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے۔ یہ انسانی جسم کو پروٹین پیدا کرنے سے متعلق ہدایات دیتا ہے جو کورونا وائرس کی سطح پر موجود ہوتی ہیں۔

روبنسن کی ٹویٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ ایم آر این اے ٹیکنالوجی ’آج سے پہلے کبھی بھی آزمائی یا منظور نہیں کی گئی۔‘ یہ سچ ہے کہ اس سے قبل کسی ایم آر این اے ویکسین کی منظوری نہیں دی گئی لیکن اس حوالے سے گذشتہ چند سالوں میں متعدد ریسرچز سامنے آ چکی ہیں۔

پروفیسر ایلمنڈ کا کہنا ہے کہ فائزر اور بائیو این ٹیک کے اشتراک سے بنی ویکسین ایسی پہلی ویکسین جو اتنی مؤثر ثابت ہوئی کہ اسے لائسنسنگ کے مرحلے تک بھیجا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ صرف اس لیے کہ یہ نئی ٹیکنالوجی ہے ‘اس کا ہرگز یہ مطالب نہیں ہے کہ ہمیں اس سے ڈرنا چاہیے۔’

پہلے اور دوسرے آزمائشی مرحلے میں ویکسینز کو چھوٹے پیمانے پر رضاکاروں پر آزمایا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ یہ محفوظ بھی ہے اور اس کی صحیح مقدار کیا ہو سکتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں اسے ہزاروں افراد پر آزمایا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ یہ کتنی مؤثر ہے۔

ایک گروپ کو ویکسین جبکہ دوسرے کنٹرول گروپ کو ایک بےضرر مادہ دیا گیا اور ان کا بغور جائزہ لیا گیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ ویکسین کے کوئی منفی اثرات سامنے تو نہیں آتے۔ یہ حفاظتی جائزے ویکسین کو لائسنس ملنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ویکسین سے متعلق جھوٹے دعوؤں کے بارے میں لکھنے والی کلیئر وارڈلے کا کہنا ہے کہ ایم آر این اے ٹیکنالوجی جیسے موضوعات سے متعلق اعدادوشمار کا فقدان ہے۔ ایسے میں جہاں مصدقہ معلومات کی اشد ضرورت ہے وہاں ایسی معلومات کم ہے دیکھنے کو ملتی ہیں۔

جھوٹی خبروں کی نشاندہی کرنے والے غیرسرکاری ادارے فرسٹ ڈراف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر وارڈلے کا کہنا ہے کہ ‘اس کے باعث لوگوں کے سامنے جعلی خبریں ہی رہ جاتی ہیں اور ایسی خبریں ان کی جگہ لے لیتی ہیں۔ مصدقہ معلومات کے فقدان کے باعث غیر مصدقہ انفرادی اکاؤنٹس اور دیگر خبر رساں ادارے ویکسینز میں اعتماد کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

Photograph of a woman wearing gloves and PPE putting a syringe into a bottle marked Covid-19

ویکسین کے منفی اثرات سے متعلق دعوے

روبنسن کی ٹویٹ میں ایک اور دعویٰ یہ بھی کیا گیا تھا کہ 75 فیصد رضاکار جن پر ویکسین آزمائی گئی تھی اس کا منفی اثر ہوا۔ تاہم فائزر اور بائیو این ٹیک نے آزمائشی مراحل کے دوران کسی قسم کے خدشات کا اظہار نہیں کیا۔

متعدد ویکسینز کے منفی اثرات بھی ہوتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر اتنی مضر نہیں ہوتیں جتنا ویکسین مخالف لوگوں کی جانب سے بتایا جاتا ہے۔

کنگز کالج لندن میں فارماسوٹیکل میڈیسن کی پروفیسر ڈاکٹر پینی وارڈ کا کہنا ہے کہ ‘تمام ویکسینز کی طرح اس ویکسین کے بھی کم دورانیہ کے لیے منفی اثرات ہو سکتے ہیں جیسے بخار، انجیکشن کی جگہ پر درد یا پٹھوں میں درد، سر درد اور تھکاوٹ۔‘

پروفیسر وارڈ نے نشاندہی کی کہ اس طرح کے منفی اثرات کا سامنا عام طور پر سالانہ نزلے کی ویکسینیشن کروانے والے متعدد افراد کو بھی ہوتا ہے اور یہ علامات کچھ ہی روز میں ختم ہو جاتی ہیں اور ان میں آئیبوپروفن یا پیراسٹامول کے ذریعے کمی لائی جا سکتی ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ روبنسن کے پاس 75 فیصد کا نمبر کہاں سے آیا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ اس آزمائش کے ابتدائی مرحلے میں سے ایک میں لیا گیا ہو جس میں ایک گروپ میں اس ویکسین کے ہلکے منفی اثرات کا ذکر کیا گیا تھا۔

ابھی تک تازہ ترین آزمائشی مراحل میں سامنے آنے والے منفی اثرات کے مکمل اعداد و شمار سامنے نہیں آئے لیکن فائزر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انھوں نے اب تک کوئی شدید منفی اثرات نہیں دیکھے۔

بی بی سی نے جب ایمریلڈ روبنسن سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ اپنے دعوؤں سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp