مظلومیت کی چادر اتاریے: مثبت اظہار کو اپنی شناخت بنائیے


کیا آپ کسی ایسے بندے کو جانتے ہیں جو ہر وقت اپنی مظلومیت کا رونا روتا ہے خود پر آنے والی ہر مصیبت ہر مشکل کسی اور پر تھوپتا ہے اور کبھی اپنے کسی بھی عمل کی ذمہ داری نہیں لیتا؟ اگر ہاں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کس قدر تھکا دینے والا سلسلہ ہے۔ ان کی کبھی نا ختم ہونے والی درد بھری داستاں سن سن آپ خود بھی ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ نا صرف یہ کہ یہ اپنے عمل کی ذمہ داری نہیں لیتے بلکہ الزام بھی مسلسل دوسروں کے سر ہی ڈال دیتے ہیں۔ ان کی ہر مصیبت اور ناکامی کا باعث کوئی اور ہوتا ہے۔

بحیثیت قوم بھی ہماری یہی سوچ اور یہی رویہ ہے کہ ساری دنیا ہمارے خلاف ہے۔ ہر کوئی سازش کر رہا ہے۔ جو بلا ہمارے سر آئی وہ کسی دشمن کا کیا دھرا ہے۔ عوام اور حکومت دونوں انہی کوششوں میں ہیں کہ اپنی نا اہلی اور ناکامی کا سارا ملبہ سارا بوجھ مظلوم بن کر کسی اور کے سر ڈال دیا جائے۔ یہ ہمارا قومی رویہ بن گیا ہے۔ ہر بات میں سازش کا عنصر تلاش لینے میں کافی استاد ہیں۔ کوئی بیرونی دشمن نہ ملے تو آپس میں ہی ایک دوسرے پر الزام تھوپتے ہیں۔ کوئی بھی ٹاک شو دیکھ لیں وہ سیاستدان جنہیں رہنما کہا جاتا ہے کیسے آپس میں بالغ مکالمہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو رگڑ رہے ہوتے ہیں۔ مجال ہے کوئی کہے کہ جی ہم سے غلطی ہوئی، آئندہ ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ ڈھٹائی بھی ایک فن ہے۔

حکومت کے بھید حکومت جانے۔ ہم اپنی بات کرتے ہیں۔ ہمیں بھی زندگی میں ایسے مظلوموں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ لغت کے حساب سے مظلوم کی تعریف کچھ اس طرح ہے۔ کوئی ایسا شخص جس پر حملہ ہوا ہو، جو زخمی ہوا ہو، جس کے ساتھ دھوکا ہوا ہو، جسے بے وقوف بنایا گیا ہو یا کسی ناروا سلوک سے اسے اذیت پہنچائی گئی ہو۔ تو بھئی ایسا کس کے ساتھ نہیں ہوتا؟ ہم سب ہی کسی نہ کسی کے ہاتھوں دکھ اٹھا چکے ہیں۔ کبھی بے وقوف بنے، کبھی کسی نے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، کبھی کسی بروٹس نے پیچھے خنجر سے وار کیا۔ جسمانی نہ سہی ذہنی کوفت اور جذباتی درد سہنا پڑا ہے۔ ہم سب ہی کسی نہ کسی مقام پر مظلوم رہ چکے ہیں۔ یہ زندگی کے چیلنجز ہیں جو ہمیں فیس کرنا پڑتے ہیں۔ دنیا اگر ہماری خواہشات پر چلتی تو کیا ہی بات تھی۔

کسی وقت یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ہم بالکل بے یار ومددگار ہیں۔ بے چارگی سے جسم و جاں بلکہ روح تک نڈھال ہے۔ لیکن بھر یہ وقت گزر جاتا ہے۔ وقت کی یہی بات اچھی ہے کہ یہ ٹھہرتا نہیں۔ زندگی میں آنے والے حادثات ہمیں مضبوط بناتے ہیں۔ ہم ان سے سیکھتے ہیں۔ ویسے نفسیات کی رو سے یہ ایک مثبت بات ہے کہ ہم اپنی اس مظلومیت اور اندرونی درد کا اعتراف کریں لیکن پھر اس کا سامنا بھی کریں۔

ہر وقت اور ہر موقع پر خود کو مظلوم سمجھنا اور اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کا الزام دوسروں کو دینا ایک دفاعی نظام بن گیا ہے۔ ذہن میں جیسے بیٹھ ہی گیا ہے کہ غلطی ہمیشہ کسی اور کی ہوتی ہے۔ دنیا ظالم ہے، نا انصاف ہے۔ ہر ایک پر شک ہے، ہر بات میں سازش دکھائی دیتی ہے۔ اور شک کا دھاگا پکڑے سلجھانے کے بجائے اور الجھتے جاتے ہیں۔

مظلوم بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک سچ مچ کے کہ جن پر واقعی ظلم ہو اور دنیا نے ان کے ساتھ بہت برا کیا۔ یہ پوری ہمدردی اور توجہ کے مستحق ہیں۔ اگر وہ خود بھی اپنی اس حالت سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک وہ ہیں جو برا وقت گزر چکنے کے بعد بھی اسی مظلومیت کو اوڑھے بیٹھے ہیں اور کسی طرح اس بکل سے نکلنے کو تیار نہیں۔ یہ اپنی سوچ نہیں بدلیں گے۔ ان کے ساتھ جو کوئی بھی وقت گزارے گا وہ ذہنی اور جذباتی طور پر نچڑ کر رہ جائے گا۔ اب ان سے کیسے ڈیل کیا جائے؟

ان کی بات ہمدردی سے سنیں لیکن خود اس المیہ ڈرامے کا حصہ مت بنیں۔ یہ توانائی ضائع کرنے والی بات ہوگی۔ کیونکہ اس ڈرامے میں حقیقت کم اور کہانی زیادہ ہے۔

اپنے کو رضاکار بنا کر مت پیش کریں یہ سوچ کر کہ آپ انہیں بچا لیں گے۔ آپ کو جلد یہ بات سمجھ آ جائے گی کہ مظلوم خود کو بچانا چاہتا ہی نہیں۔ اسے اسی بے چارگی میں مزا آ رہا ہے۔ وہ صرف شکایات کرنا اور اپنی مظلومیت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ صورت حال بدلنے کی انہیں چاہ نہیں۔ کسی قسم کی پروفیشنل مدد یا کوئی تھراپی انہیں قبول نہیں کیونکہ گوشے میں قفس میں مجھے آرام بہت ہے۔

ان کی کبھی نہ ختم ہونے والی شکایات آپ کو بھی نڈھال کر دیں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے وقت کو اپنے لیے سنبھال کر رکھیں اور حدود متعین کریں۔ آپ مارے ہمدردی اور دوستی کی لاج میں ان کی بات سننے کو تیار تو ہو جاتے ہیں لیکن ان کی بات شروع ہوتے ہی آپ کو لگتا ہے کہ کسی گھپ اندھیرے غار میں داخل ہو گئے ہیں جہاں ہوا کا گزر بھی نہیں ہے۔ اس سے بچیں۔ اپنی انرجی کو اپنے پر خرچ کریں۔

ایسے لوگوں سے بات کرنا بہت اذیت ناک ہے۔ جیسے یہ ساری دنیا تخلیق ہی اسی لئے کی گئی ہے کہ ان کو نشانہ بنایا جائے اور ان پر مظالم توڑے جایں۔ کائنات کا پورا نظام ہی انہیں دکھ پہچانے کے لیے بنا ہے۔ سب مل کر انہیں ستا رہے ہیں اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی نہیں جو ان کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہو۔ ایسے لوگوں سے منطقی گفتگو ہر بار بے نتیجہ ثابت ہوتی ہے۔

آپ کو یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ ایسے لوگ دوسروں کو نچوڑنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں ایک دوست نہیں ایک کندھا درکار ہے جس پر سر رکھ کر وہ جب چاہیں رو سکتے ہیں۔ بغیر یہ سوچے کہ یہ کندھا کہیں اب تھک تو نہیں گیا۔ مظلومیت کی تصویر بنے یہ دوسروں کے جذبات کے خیال سے عاری اور اپنی ہی بات منوانے کے عادی ہیں۔

ان سے بات کرتے ہوئے آپ موضوع بدلنے کی کتنی ہی کوشش کر لیں لیکن بے سود۔ بات گھوم پھر کر ان ہی کی مظلومیت پر آ ٹھہرتی ہے۔ اور تان وہیں ٹوٹتی ہے کہ دنیا بہت ظالم ہے۔

وہ اپنی خو نہیں بدلیں گے اور آپ یونہی ہلکان ہوتے رہیں گے۔ شروع شروع میں آپ کو لگے گا کہ آپ ان کے نجات دہندہ ہو سکتے ہیں اور انہیں غموں کے اس تاریک غار سے کھینچ کر امید کی روشنی میں لے آئیں گے۔ وہ بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ آپ کے سوا ان کا اور کوئی دوست اور ہمدرد نہیں۔ آپ ہی ہیں جو انہیں صحیح طور پر سمجھتے ہیں۔ لیکن جلد ہی آپ کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ وہ تو اس کیفیت سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ اب یہاں حدود طے کرنا اور خود کو اس ڈرامے میں ملوث نہ کرنا بلکہ فاصلہ رکھنا اشد ضروری ہے۔

ان سب احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر یہ دوستی نبھانا ایک تھکا دینے والا عمل لگے تو اسے ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا۔ یہ ایک مشکل اور نا پسندیدہ عمل ہے لیکن ایک ناگوار رشتے کا نا قابل برداشت بوجھ اٹھانے سے بہتر ہے کہ خود کو ہلکا کر لیں۔ آخر آپ پر آپ کا اپنا بھی حق ہے۔

دنیا سنگدل تو ہے اور نشانے پر کمزور لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی کے ساتھ ہمیشہ ہی برا ہوتا رہا ہے۔ لیکن آخر کیوں وہ اتنا آسان ہدف ہیں کہ ہر ایک تاک تاک کر تیر برسا رہا ہے؟

ایسے خودساختہ مظلوموں سے کچھ تیکھی باتیں۔

یہ بڑی بچکانا سی سوچ ہے کہ ہم ہر بار اپنی ہر ناکامی کا دوش کسی دوسرے پر ڈال دیں۔ ہم اب بڑے ہو گئے ہیں۔ اپنے ہر فعل غلط یا درست کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ اگر ریلیشن شپس یکے بعد دیگرے ٹوٹ رہی ہیں، اگر دوستیوں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں تو کیا وقت آ نہیں گیا کہ اپنا تنقیدی جائزہ لیا جائے؟ کم سے کم دوسروں کا نکتہ نگاہ سمجھنے کی کوشش تو کرلی جائے۔

مظلومیت کارڈ کھیل کر دوسروں کی وقتی ہمدردیاں تو حاصل کر لیں گے لیکن برابر کی سطح پر دائمی اور مضبوط دوستی نہیں مل پائے گی۔ کبھی ذرا غیرجانبداری سے سوچیں تو شاید کہیں اپنا بھی کچھ قصور نظر آ جائے۔ اور اگر قصور نظر آ جائے تو اس کا اعتراف بھی کر لیں۔ یہ جو تنہائی آس پاس دیکھ رہے ہیں یہ اسی وجہ سے ہے کہ آپ ماننے کو تیار نہیں کہ آپ بھی غلط ہو سکتے ہیں۔

الزام تراشی بند کیجیئے بلکہ اس پر مکمل پابندی لگا دیجیے۔ جب آپ کے دل میں کسی کے متعلق یہ شک ابھرے کہ اس نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اسی وقت خود کو روک کر ذرا جائزہ تو لیجیے۔ کسی حد تک نیوٹرل رہ کر اپنی اداوں پر غور کریں۔ ہم سب کو ہی کبھی کبھی خود کلامی کرنی چاہیے۔ آپ بھی کیجیئے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے ہے کہ۔

یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

پھر بھی اگر لگے کہ آپ کے ساتھ کسی نے زیادتی کی ہے تو دو حرف بھیج کر قطع تعلق کیجئے اور جانے والے کو کوس کوس کر اپنی توانائی ضائع مت کیجیئے۔

یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ہم خود کو اتنا کمزور اور غیر طاقتور کب اور کس کیفیت میں محسوس کرتے ہیں۔ کون ہے جو ہمیں بے بس اور لاچار بنا رہا ہے؟ ذرا تجسس کیجئے اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کیجیئے۔ جب یہ بات جان لیں تو اپنی ’نہ‘ کہنے والی سپر پاور کو کام میں لائیں۔ ایک نہ ہزار بلا ٹال سکتی ہے۔

خود سے محبت کریں، ہمدردی رکھیں لیکن خود ترسی میں مبتلا نہ ہوں۔ یہ ایک انتہائی زہریلی سوچ ہے جو آپ کے اندر تک اتر کر آپ کو گھلا دے گی۔ پوری دنیا بلکہ کائنات کو اپنی ناکامیوں کا الزام دینے کے بجائے اپنی مدد کرنے پر غور کیجیئے۔ مظلومیت کا خود پر ٹھپہ لگا کر آپ صرف اپنے ہی سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں مت دیں۔ یہ باگیں آپ کے اپنے ہی ہاتھوں میں رہیں تو اچھا ہے۔

آپ یقیناً کسی نہ کسی مرحلے میں مظلوم رہے ہیں۔ اس سے انکار نہیں۔ لیکن اس مظلومیت کے طوق کو جتنی جلدی ہو سکے گلے سے اتار پھینکیے۔ عمر عزیز ضائع مت کیجیئے۔ دنیا میں اب بھی اچھے لوگ باقی ہیں۔ ایک دو تو آپ کی زندگی میں ہوں گے۔ انہیں تھامے رہیئے۔

غصہ پر قابو رکھیئے۔ کوئی بگڑی صورت حال سامنے آ جائے تو اسے سمجھنے کے لیے خود کو مناسب وقت دیجیئے۔ فوری اور ترنت اپنی فرسٹریشن کا اظہار نہ کریں۔ خود کو وقت دینے سے آپ یہ سب ریشنالیئز (rationalize) کرسکیں گے۔

کبھی کبھار اپنے بجائے دوسروں پر بھی فوکس کریں۔ دوسروں سے ہمدردی کرنا اور انہیں اہمیت دینا آپ کو ایک مثبت راہ پر ڈال سکیں گے۔ شاید آس پاس کوئی ایسا ہو جسے مدد کی ضرورت ہو۔ جب آپ مظلومیت میں لپٹے رہتے ہیں تو آپ کو صرف اپنا ہی دکھ دکھائی دیتا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ دنیا صرف آپ ہی کے گرد گھومے۔ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ دنیا کو اپنے چکر لگانے ہوتے ہیں۔ آپ چاہیں تو دنیا کے ساتھ چلیں چاہے تو اپنے ہی گرد گھومتے رہیں۔ دنیا آپ کی منتظر نہیں۔

خود ترسی سے نکلنے کا ایک بہترین طریقہ شکر گزاری ہے۔ کچھ تو اچھا آپ کے ساتھ ہوا ہوگا۔ کوئی تو اچھے لوگ زندگی میں آئے ہوں گے ۔ کبھی تو موسم خوشگوار ہوا ہوگا۔ کبھی تو کوئی اچھی بات سنی ہو گی۔ یہ سب نعمتیں ہیں۔ ان پر شکر کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).