داغ سا آدمی نہیں ملتا


ہم بلما کو بھول کر قدرت کے اس بھید بھاؤ سے الجھے ہوئے تھے کہ شاہ سلمان اپنے والد عبدالعزیز کے چھبیس بیٹوں میں سے پچیس نمبر کے بیٹے تھے۔ عبدالعزیز کو دنیا ابن سعود کہتی ہے۔ ان کی من پسند شریک حیات حفصہ سدیری کے سات بیٹے تھے اور یہ ایک طاقتور گھرانا ہے۔ اسی طرح موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان اپنے دو ماؤں کے بارہ بیٹوں میں گیارہ نمبر کے صاحبزادے۔ رب مہربان و بخشندہ نے دونوں کو بادشاہ بنا دیا۔ سارا احوال بین ہبارڈ کی کتابMBS۔ The Rise to Power of Mohammed Bin Salman میں درج ہے۔

اسی اثنا میں کھلتے بند ہوتے اوور ہیڈ کیبنٹس نے کچھ مہلت لی تو مندروں جیسی گھنٹیاں بجی۔ ایک ایسی گوری فضائی میزبان کہ قبا جس پر سج کر ناز کرے، دراز قد، دھیمی گنگناہٹ سے تھری ایڈیٹس نامی بھارتی فلم کا گیت زوبی ڈوبی گنگنا رہی تھی۔ گیت بھی نفیس ہے اور کرینہ کپور اپنی شعلہ بداماں ساڑھی میں ہلاکت آمیز۔

میزبان نے قریب آن کر اعلان کیا کہ اس کا نام تو کرینہ ہے مگر اسے سب کپور کے لاحقے سے یاد کرتے ہیں۔ اس کے ساتھیوں میں اور مسافروں میں ہندوستانیوں کی بہتات ہوتی ہے۔ ان بھارت واسیوں کو شل (سندھی میں اللہ نہ کرے ) نہ کوئی اپنا فلمی یا غذائی حوالہ مل جائے۔ سب بھول جاتے ہیں۔

کمالا ہیرس کو بھی اڈلی ڈوسا اور سانبھر کی چٹنی کانٹے کے اس الیکشن کے دنوں میں بھی یاد آتی رہی۔ کرینہ ہمارا بستر لگانے آئی تھی۔

ہم نے پوچھا کہ بلما کہاں ہے تو کہنے لگی وہ یوگا کر کے سو گئی ہے۔ ہمارے بنکرز ہوتے ہیں۔ طویل فلائیٹ میں عملہ آرام بھی کرتا ہے۔ حیرت ہوئی کہ بلما یوگا کرتی ہے۔ ہم نے پوچھا تو کہنے لگی کہ پدما سرونگ آسن، نٹ راج آسن، اور تی تیب آسن تو میں بھی کر لیتی ہوں مگر وہ تو یوگا کے آخر میں ہات اٹھا کر دعا مانگ کر روتی بھی ہے، یہ یوگا میری سمجھ سے باہر ہے۔

میں دھرم سالا، دارجلینگ میں ایک سال رہی ہوں۔ کمیونسٹ روس میں پیدا تو جانے کیا ہوئی مگر دلائی لامہ کی وجہ سے بدھ مت اختیار کیا۔ اس کے انداز کلام میں ایک باشعور اعتماد تھا۔ ممکن ہے اس کا اصل ذریعہ اس کے ساتھ ان کے کیبن میں بلما کی گفتگو بنی ہو۔ دہلی میں کہا جاتا تھا عورتیں پڑوس اور محلے میں رہتی ہیں، مرد نہ سن رہے ہوں تو چوباروں پر چڑھ کر بولتی ہیں۔ بھانجی کے عشق کا خالہ کے سسرال والوں کو علم ہوتا ہے۔ نادان مرد سمجھتے ہیں کہ عورتیں راز نہیں رکھ سکتیں۔

ہم نے ایک بت مغرور قسم کے شانے پر آویزاں ستاروں والے افسر کو کہا اب آپ کے ادارے کا سربراہ ہم سا کوئی افسر ہونا چاہیے تو تلملا اٹھے۔ کہنے لگے Intelligence is a very profound serious business۔

دوست تھے۔ ہم نے چھیڑا۔ ایسا کیا گمبھیر تہہ دار دھندہ ہے۔ اب تو عورتیں Spy Agencies کی سربراہ ہونے لگیں۔ نازک مزاج تو تھے، حس مزاح بھی اکیڈیمی کے کسی کمرے میں پڑی رہ گئی۔ رینکس کی ترقی کا ساتھ نہیں دے پائی۔ جھلا کر کہنے لگے ”آپ ہماری بے توقیری تو نہیں کر رہے؟”

ہم نے سمجھایا کہ اسٹیلا ریمنگٹن ایم آئی فائیو کی چیف تھیں۔ ان کی تعیناتی سے پہلے چیف کی تصویر شائع نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے نہ صرف دھڑلے سے اپنی تصویر شائع کی بلکہ بتایا کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں گی۔ اپنے نجی فلیٹ میں رہیں گی۔ برطانوی شہری اور دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایم آئی فائیو کیا کرتی ہے۔ اس کے لیے وہ ایک کتابچہ بھی شائع کریں گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک عمدہ سوانح The Open Secret کے نام سے تحریر کی۔

ہمارے محترم دوست جب ریٹائر ہو گئے اور ایک دعوت میں ملے تو بجھے بجھے تھے۔ ہم نے کہا کیا ہوا؟ کہنے لگے انٹیلی جنس کا حال برا ہے۔ سی آئی اے کی چیف جینا ہسپل نامی ایک عورت کو بنا دیا ہے۔


معراج فیض آبادی نے کہا ہے نا
اس کی باتیں تو پھول ہوں جیسے
‫باقی باتیں ببول ہوں جیسے ‬
آئیں کرینہ سے باتیں کریں۔ کہنے لگی، زنان خانے میں تمہاری تعریف ہو رہی تھی۔ میرے بعد پرتی بھا آئے گی۔ وہ رتنا گری بھارت کی ہے۔ ہم زیر لب مسکرا دیے۔ بس جتایا نہیں کہ رتنا گری ہمارے داؤد بھائی کا آبائی علاقہ ہے ان کے والد ابراہیم کاسکر کھیڈ، رتناگری سے ممبئی آئے تھے۔

اس اکیلی میں چار عورتوں اور تین مردوں کا دماغ ہے۔ ہماری سدھ گرو۔ پتہ نہیں تم نے بلما سے کیا باتیں کیں کہ ہم نے میسر فرصت کی وجہ سے کچھ سیکھنے کا ارادہ کیا۔

بستر لگا دیا تو سامنے نشست پر یہ پوچھ کر براجمان ہو گئی کہ ہمیں سونے کی جلدی تو نہیں۔ کہنے لگی وہ اکثر سوچتی ہے اچھے مرد کہاں ملتے ہیں؟ ہم نے جواب دیا جہاں اچھی عورتیں ملتی ہیں۔

ترنت جواب دیا ”وہ تو ماں کے پیٹ میں ہوتی ہیں یا پچاس برس کی ہوتی ہیں“ ۔ ہمیں لگا اس کے مقابلے میں بلما گھاتک گھرانے کی ہو کر بھی بہت سادہ لوح تھی۔ یہ تو چھپن چھری ہے۔ بتا رہی تھی کہ وہ روس کی سابق ریاست لیتھونیا کی ہے۔ اسٹریٹ تھیٹر کرتی رہی ہے۔ کسی سے دل لگ گیا تو وہ بے وفا نکلا۔ یہ بھارت چلی آئی۔ یہاں اس نے اسکالر شپ پر پڑھائی بھی کی اور ایک پارٹی میں کسی مالدار عرب سے ملاقات ہوئی تو اس نے یہ نوکری بھی لے دی مگر تم نے بتایا نہیں کہ اچھے مرد کہاں ملتے ہیں۔ ہم نے کہا اچھے مرد یا تو کسی کال کوٹھڑی میں پھانسی کے منتظر ہوتے ہیں یا کسی خفیہGay گروپ کے ممبر ہوتے ہیں یا کسی قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہوتے ہیں۔

ہم عورتیں انہیں ڈھونڈنے میں کہاں غلطی کرتی ہیں؟ یہ اس کا دوسرا سوال تھا۔ ہم نے سمجھایا کامیاب مرد اور اچھا مرد مختلف ہوتے ہیں۔ کامیاب مرد تو بہت اجرت طلب مرد ہوتا ہے۔ آپ کامیاب مردوں میں اچھے مرد ڈھونڈ رہی ہیں۔ کامیاب مرد تو Psychopath ہوتا ہے۔ کرنیہ کو بدگمانی تھی کہ سائیکو پیتھ تو صرف مجرم ہوتے ہیں۔ اس کے ذہن میں سائیکو پیتھ کی بہت ابتدائی اور بنیادی توضیح تھی کہ وہ sick mind یا suffering soul ہوتے ہیں۔ ہم نے کہا جرم ان کا کارنامہ ہے۔ اچھے برے لیبل آپ لگاتے ہو۔ بینکر، تاجر، فوجی افسر، بیورکریٹ، سیاسی رہنما، میڈیا والے یہ بھی ویسے ہی مجرمانہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں مگر یہ بہت بڑے چارمر ہوتے ہیں۔ فوکسڈ (Focused) اپنے مقاصد کے تعاقب میں بے رحم۔ ان میں بھی وہی شدید predatory ہوس ہوتی ہے جو ایک مجرم میں ہوتی ہے۔ وہ بھی اپنی خواہشات کی تکمیل اور وسائل پر ناجائز قبضہ چاہتا ہے مگر چونکہ اس کے طریقہ واردات میں جرم اور تشدد کا عنصر ہوتا ہے، اس لیے اسے معاشرے میں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مثالیں کئی تھیں کہ بابر، رابرٹ کلائیو، میر جعفر نجفی، کسنجر، ماؤزے تنگ، سٹالن اور مافیا والے ال کپون سب ہی ایک تھیلی کے چٹے بٹے تھے مگر ہم نے گریز کیا۔

انہیں کہاں تلاش کیا جائے؟ کرینہ نے بے تابی سے پوچھا۔

ہم نے سوچا کہ ممکن ہے بلما نے اسے وہ سب حمزہ کے حوالے سے نہ بتایا ہو، جو بطور ایک کہانی کار کے ہم پر اعتماد کر کے سنایا ہو۔ عورتوں میں حسد بھی بہت ہوتا ہے۔ سو اس کی مثال دینے سے گریز کیا۔

ہم نے کہا کسی بھی ائر لائن کی بزنس کلاس سے بہتر جگہ ایسا گوہر نایاب ڈھونڈنے کے لیے اور کون سی ہو سکتی ہے؟ ہنس دی۔ کہنے لگی بزنس کلاس میں تو ادرک کی طرح ہر جگہ سے پھیلنے والے مرد ہوتے ہیں۔ ایشائی ہوں تو سال بھر کے لیے رکھیل ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ یورپ امریکہ والے ہوں تو لیپ ٹاپ میں گھسے کارپوریٹ مرد ہوتے ہیں۔ جن کو ہمارے جیسی عورتیں نیپال میں یاٹ رکھنے کا شوق لگتی ہیں۔ ان کی کانفرنس، میٹنگز میں ہمارے جیسی بہت۔ اب تک میں عشق میں چھ دفعہ ناکام ہو چکی ہوں جانے مجھے میں کیا خرابی ہے۔

ہم نے اپنے فہم و ادراک میں اضافے کی خاطر پوچھ لیا کہ اس معاملہ میں اس کی باقی کولیگز کا کیا کہنا ہے۔ مجھے بلما کہتی ہے کہ میں ایک ہی مرد میں شکل جسٹن ٹمبر لیک کی، عقل ایلان مسک کی، اور دولت بل گیٹس کی ڈھونڈتی ہوں۔ میں بہت ڈر سی گئی ہوں۔ میں نے پچھلے دنوں ممبئی سے مارلن منرو پر جو کتاب خریدی اس کو پڑھ کر دل اور بھی میلا ہوا کہ کیا حسن اور دولت کے ہوتے ہوئے بھی کوئی مایوس ہو سکتا ہے۔ پہلے فوٹو شوٹ کے صرف پانچ ڈالر ملے۔ شوہر چھوڑتے رہے۔ اسقاط حمل نے بھی اس کو بہت اجاڑا۔ اپنے شوہر آرتھر ملر سے طلاق کے بعد اس کا جملہ تو مجھے آج بھی ملول رکھتا ہے

I still feel hopeless۔ I think I hate it here because there is no love here anymore۔ ”

کہنے لگی مجھے بس ایک بات سمجھا دو کہ اس تعلق میں کامیابی کیا ہے ہم نے کہا ارے یہ ہر سمجھدار عورت اپنی بیٹی کو سکھاتی ہے تمہاری اماں نے بھی تمہیں بتایا ہوگا کہ مرد کی محبت راج کراتی ہے۔ عورت کی محبت آنسو رلاتی ہے۔ کہنے لگی اور کچھ؟ ہم نے کہا اور کچھ بتائیں گے تو مردوں کا نقصان ہوگا مگر تو اچھی عورت ہے اور مردوں کو ہم نے کون سا ادھار چکانا ہے تو سن لے کہ عورتیں کچا دودھ ہوتی ہیں اور مرد کی باتیں نمک۔ دودھ میں نمک گر جائے تو کچا دودھ پھٹ جاتا ہے۔ دودھ کے لیے لازم ہے کہ نمک سے پرے رہے۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan