انیتا ایرا‌نجاد: برطانیہ کے سفر کے دوران کشتی الٹنے سے ہلاک ہونے والے کرد ایرانی خاندان کی دل دہلا دینے والی کہانی


گذشتہ ماہ انگلش چینل عبور کرنے کی کوشش کے دوران اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ہلاک ہونے والی ایک کرد نژاد ایرانی لڑکی کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا تھا جو اس خاندان کی بہتر زندگی گزارنے کی خواہش اور اس کے حصول کے لیے کیے گئے پُرخطر سفر پر روشنی ڈالتا ہے۔

انگلش چینل، برطانیہ اور فرانس کے درمیان واقع سمندری پٹی کو کہا جاتا ہے جس کی لمبائی 34 کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔

وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک نو سالہ بچی کو پہلے ہنستے اور پھر روتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور وہ بتا رہی ہیں کہ ’میرا نام انیتا ایرا‌نجاد ہے، میرا تعلق سردشت سے ہے۔‘

ان کے آبائی شہر میں ایک مختصر فلم کی شوٹنگ کے لیے یہ ایک سکرین ٹیسٹ ہے۔ پس منظر میں، ان کے والد رسول ایرانجاد کو دھیمی آواز میں اور ان الفاظ میں اپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کرتے سنا جا سکتا ہے ’کہو میں ایک اداکارہ بننا چاہوں گی۔‘

ویڈیو میں ناصرف والد کا تفاخرانہ انداز واضح ہے بلکہ اپنی بیٹی کے لیے اُن کی خواہش کا اظہار بھی۔ رسول ایرانجاد کی خواہش ہے کہ اُن کی بیٹی کے زندگی سے متعلق خواب پورے ہوں۔ مگر اپنے خواب کا حصول اس غریب اور سیاسی طور پر مظلوم خطے کی ایک چھوٹی سی لڑکی کے لیے قدرے مشکل کام ہے۔ یہ خاندان مغربی ایران کے ایک چھوٹے سے کرد شہر، سردشت سے تعلق رکھتا ہے۔

سکرین ٹیسٹ کے ایک سال بعد اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے رسول، ان کی اہلیہ شیوا پاناہی اور ان کے تین بچوں، انیتا، چھ سالہ ارمین اور 15 ماہ کے آرٹین، نے یورپ کا خطرناک سفر شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیے

’پیسہ کمانے کے لالچ نے ان کی جان لے لی‘

تارکین وطن کی کشتی الٹ گئی، 100 کے قریب لاپتہ

لیبیا: کشتی الٹنے سے ’پاکستانیوں سمیت درجنوں ہلاک‘

’کنٹینر سے ملنے والی 39 لاشیں چینی باشندوں کی ہیں‘

لیکن 27 اکتوبر کو انگلش چینل عبور کرتے ہوئے، اس خاندان کی اچھے مستقبل کی خواہشات کا ایک افسوسناک انجام ہوا۔

برطانیہ جانے والی ایک چھوٹی سی کشتی صرف چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد الٹ گئی۔ یہ خاندان بغیر کسی حفاظتی جیکٹ کے کشتی کے کیبن کے اندر پھنس گئے۔

35 سالہ رسول اگست کے شروع میں اپنے اہلخانہ کے ساتھ ایران چھوڑ گئے تھے۔ اُن کے رشتہ داروں نے اس بات پر براہ راست تبصرہ نہیں کرنا چاہا کہ وہ کیوں چلے گئے، لیکن بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے یہ خاندان دوبارہ کسی اور جگہ سے اپنی زندگی کا ازسرنو کرنا چاہتا تھا۔

عراق کی سرحد سے ملحق مغربی آذربائیجان کے صوبے سردشت میں زندگی بہت مشکل ہے۔۔ یہاں آپ صرف زندہ رہنے کے متعلق سوچ سکتے ہیں۔۔۔ خواہشات تو بہت دور کی بات ہے۔ یہاں بہت کم صنعتیں ہیں، اس ملک میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے اور یہاں کی اکثریتی نسلی کرد آبادی کے لیے اچھے مستقبل کے امکانات بہت کم ہیں۔

بہت سے لوگوں کا ذریعہ معاش عراق کردستان بارڈر کے راستے آنے والا سمگلنگ کا سامان ہے۔ یہ نہ تو منافع بخش ہے (وہ سرحد کے آر پار ایک چکر کے 10 ڈالر سے زیادہ نہیں کما پاتے ہیں) اور نہ ہی محفوظ۔

گذشتہ کچھ سالوں میں سمگلنگ کے کام سے منسلک بہت سے افراد کو ایرانی سرحدی محافظوں نے گولی مار کر ہلاک یا زخمی کیا ہے۔ بہت سارے افراد کسی نہ کسی پہاڑی علاقے میں موت کا شکار ہو چکے ہیں یا سردیوں میں برفانی تودے گرنے سے وہیں دفن ہو گئے ہیں۔

یہ خطہ بھی بہت زیادہ عسکریت پسندی کا شکار ہے۔ سنہ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد سے ایرانی سکیورٹی فورسز اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے والے مسلح کرد گروہوں کے درمیان تنازعات موجود ہیں۔ ایران انھیں علیحدگی پسند کہتا ہے، جنھیں غیر ملکی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ایران کی 82 ملین آبادی میں 10 فیصد کرد ہیں اور اقوامِ متحدہ کے مطابق ان میں سے نصف سے زیادہ سیاسی قیدی ہیں۔

گذشتہ سال ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران اور اس کے بعد حکام کی طرف سے ایک سخت کریک ڈاؤن کیا گیا تھا، یہ مظاہرے عراق کے ساتھ مغربی سرحد پر واقع کرد شہروں کے علاوہ ایران کے بڑے شہروں کے مضافات میں بھی منعقد ہوئے تھے۔

شیوا کی ایک دوست نے بی بی سی کو بتایا کہ 35 سالہ رسول قید سے بچنا چاہتے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ شیوا نے اپنے پاس موجود سب کچھ بیچ دیا اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے رقم ادھار لے کر یورپ لے جانے کا وعدہ کرنے والے سمگلروں کو دے دی۔

وہ برطانیہ جانا چاہتے تھے، جو کرد پناہ گزینوں کے لیے مقبول ترین انتخاب ہے۔ ان کا خیال تھا کہ دوسرے ممالک کی نسبت برطانیہ مہاجرین کی کم تعداد کو قبول کرتا ہے لہذا وہاں ان کے لیے بہتر مواقع موجود ہوں گے۔

کرد

24 اکتوبر کو کلئے میں رہنے والی اپنی ایک دوست کو بھیجیے گئے ٹیکسٹ میں شیوا تسلیم کرتی ہیں کہ کشتی کے ذریعے سفر کرنا خطرناک ہو گا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بذریعہ سڑک سفر کے لیے رقم نہیں ہے

ان پُرخطر سفر میں اس خاندان کا پہلا سٹاپ ترکی تھا۔ رسول کے دوستوں کے ذریعے بی بی سی کے ساتھ شیئر کیے گئے ایک ویڈیو کلپ میں انھیں کرد زبان میں گانا گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، اس وقت ان کا خاندان یورپ لے جانے والے سمگلروں کا منتظر تھا۔

وہ گا رہے ہیں ’مجھے بہت دکھ، بہت رنج ہے۔۔۔ لیکن میں کیا کر سکتا ہوں، مجھے اپنا کردستان چھوڑ کر چلے جانا ہے۔‘ ان کا بیٹا ارمین خوشی سے ہنس رہا ہے۔ اس کا چھوٹا بچہ آرٹین ان کی طرف آ کر اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتا ہے۔

کردوں کا ایک مشہور قول ہے: ’پہاڑوں کے علاوہ ہمارا کوئی دوست نہیں ہے۔‘ پہلی جنگ عظیم اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اتحادی طاقتوں نے کردوں سے آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن علاقائی طاقتوں نے اس معاہدے کو کبھی قبول نہیں کیا۔ بلکہ ان کا وطن بالآخر مشرق وسطیٰ کی نئی قوموں میں تقسیم ہو گیا۔ اس کے بعد سے، ایران، ترکی، شام اور عراق میں کرد ریاستوں کی طرف سے آزاد ریاست کے قیام کے لیے کی جانے والی ہر تحریک کو ختم کر دیا گیا ہے۔

پہلے ترکی ہزاروں ایرانی مہاجرین کی آخری منزل تھا، لیکن پچھلے سات سالوں میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے بعد اب یہ مقام ایک قابل عمل انتخاب نہیں ہے۔

تارکین وطن کی طرف سے ایسی اطلاعات موصول ہوتی ہیں کہ ترک سکیورٹی فورسز نے تارکین وطن میں کرد مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی کی ہے یا وہاں پہنچنے پر انھیں ایران جلاوطن کیا ہے۔ یہاں تک کہ استنبول میں ایران مخلاف نظریات رکھنے والوں کے سیاسی قتل اور اغوا بھی ہوئے ہیں۔

رسول اور شیوا یہاں سے نکلنا چاہتے تھے۔

ستمبر میں انھیں ایک سمگلر ملا۔ انھوں نے ترکی سے اٹلی لے جانے کے لیے اس سمگلر کو 24 ہزار یورو (28,243 ڈالر) کی رقم ادا کی۔ سمگلر انھیں بس کے ذریعے شمالی فرانس لے کر گیا۔

ساحلی شہر ڈنکرک میں ادرا نامی خیراتی ادارے کی رضاکار چارلوٹ ڈیکنٹر کا کہنا ہے کہ وہ کرد تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے مرکزی کیمپ گرانڈے سنتھھی میں کھانا تقسیم کرتے ہوئے شیوا سے ملیں۔

وہ ان کی زندہ دلی سے متاثر ہوئیں۔

’ایک چھوٹی سی عورت، بہت ہی مہربان، بہت پیاری۔ میں نے کرد زبان میں کچھ الفاظ کہے۔ وہ بہت ہنسی۔‘

لیکن فرانس کے سفر کے دوران ہی تباہی مچ گئی۔ لٹیرے شیوا اور رسول کا سب مال و متاع لوٹ کر لے گئے۔

کرد

ایران میں رشتہ داروں کے مطابق رسول نے سمگلروں کو تقریباً ساڑھے پانچ ہزار ڈالر کی ادائیگی کی تھی

24 اکتوبر کو کلئے میں رہنے والی اپنی ایک دوست کو بھیجیے گئے ٹیکسٹ میں شیوا تسلیم کرتی ہیں کہ کشتی کے ذریعے سفر کرنا خطرناک ہو گا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس لاری کے سفر کے لیے رقم نہیں ہے۔

’مجھے معلوم ہے کہ یہ خطرناک ہے لیکن ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انھیں پناہ کی کتنی سخت ضرورت ہے۔

’میرے دل میں ہزار غم ہیں اور اب جب میں نے ایران چھوڑ دیا ہوں تو میں اپنے ماضی کو بھول جانا چاہتی ہوں۔‘

رسول کے ایک دوست جو اپنے اہلخانہ کے ساتھ فرانس گئے تھے، کا کہنا ہے کہ 26 اکتوبر کی شام ڈنکرک میں سمگلر نے بتایا کہ اگلے دن ہی پار کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

وہ صبح سویرے لون پلیج نامی ساحل سمندر سے روانہ ہوئے، جو تیل کے ڈپو کے ساتھ ہی ایک ویران جگہ ہے۔

موسم نہایت خراب تھا، 1.5 ملی میٹر بلند لہروں کے ساتھ۔ ہوا کی رفتار 30 کلومیٹر فی گھنٹہ تک تھی۔ ان کے دوست آورے نے خطرہ مول نہ لینے کا فیصلہ کیا۔

آورے کہتے ہیں ’میں ڈر گیا تھا، میں نے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے رسول سے التجا کی کہ وہ بھی نہ جائے۔ لیکن اس نے کہا کہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔‘

ایران میں رشتہ داروں کے مطابق رسول نے سمگلروں کو تقریباً 5،500 ڈالر کی ادائیگی کی۔

Ebrahim Mohammadpour

‘ہم نے پانی کو نکالنے کی کوشش کی، لیکن ہم کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہم کلئے واپس جانا چاہتے تھے لیکن ہم یہ بھی نہیں کر سکے‘

ابراہیم محمد پور، جو 47 سالہ اداکار اور دستاویزی فلم ساز ہیں اور سردشت سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے 27 سالہ بھائی محمد اور ان کے 17 سالہ بیٹے کے ساتھ اسی کشتی پر سوار تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ 4-4.5 میٹر لمبی کشتی صرف آٹھ افراد کے لیے ڈیزائن کی گئی تھی لیکن اس پر 23 افراد سوار تھے۔

ابراہیم کہتے ہیں ’سچ میں ہم مکمل طور پر اندھے تھے کیونکہ ہم اس سفر میں پہلے ہی بہت تکالیف اٹھا چکے تھے۔ آپ پہلے یہ سوچتے ہیں ’میں کشتی پر سوار نہیں ہونا چاہتا‘، لیکن پھر آپ ’ان تکلیفوں کے خاتمے کے لیے اس پر سوار ہو جاتے ہیں۔‘

کشتی پر سوار 16 سالہ یاسین، کا کہنا ہے کہ صرف انھوں نے اور دو اور افراد نے جیکٹیں پہن رکھی تھیں، رسول کے کنبے میں کسی کے پاس جیکٹس نہیں تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ 22 مسافر سب کے سب سردشت سے آنے والے کرد تھے، اور کشتی کا کپتان شمالی ایران سے تعلق رکھنے والا ایک مہاجر تھا۔

ایرانی تارکین وطن جنھوں نے پہلے برطانیہ کا سفر کیا ہے، انھوں نے مجھے بتایا کہ عام طور پر سمگلر سب سے کم رقم دینے والے مسافر کو کشتی چلانے کے لیے دیتے ہیں۔

شیوا اور بچے شیشے سے بٹے ہوئے کیبن میں چلے گئے، جہاں وہ گرم اور محفوظ ہوتے لیکن یہی ان کی موت کا سبب بنا۔

ابراہیم کے مطابق آٹھ کلومیٹر کے بعد کشتی پانی سے بھر گئی۔

کرد

ابراہیم (بائیں سے دوسرے نمبر پر) باقی بچ جانے والوں کے ہمراہ

’ہم نے پانی کو نکالنے کی کوشش کی، لیکن ہم کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہم کلئے واپس جانا چاہتے تھے لیکن ہم یہ بھی نہیں کر سکے۔‘

ان کے بھائی محمد کا کہنا ہے کہ اچانک کشتی کے الٹنے سے پہلے مسافر گھبرانے لگے اور ایک سرے سے دوسری جانب کھسکنے لگے۔

اس سے پہلے جو کچھ ہوا وہ بتانا مشکل ہے، کیوں کہ زندہ بچ جانے والوں کو ٹھیک سے کچھ یاد نہیں۔

لیکن تقریباً سب نے یہ بتایا کہ شروع میں شیو اور ان کے بچے کیبن میں پھنس گئے تھے۔

ابرہیم کا کہنا ہے کہ رسول نے انھیں بچانے کے لیے غوطہ لگایا اور دوبارہ اوپر آ کر مدد کے لیے پکارا۔

Map of family's journey

یونیورسٹی کے ایک طالب علم پیشرو کا کہنا ہے کہ انھوں نے قالین کاٹنے والے آلے سے کیبن کا شیشہ توڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اسے توڑنے میں بھی ناکام رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے آرٹن کو اندر تیرتے دیکھا۔

شیوا کے بھائی راسو نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے سنا کہ رسول، آرٹین کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن پھر دوسروں کے لیے اندر چلے گئے۔

ابراہیم اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے روتے ہیں جب انھوں نے انیتا کو پانی میں تیرتے ہوئے دیکھا اور اسے پکڑنے میں کامیاب ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں ’میں نے اسے تھام لیا۔ میں نے سوچا کہ وہ زندہ ہو سکتی ہے۔ ایک ہاتھ سے میں نے کشتی کو پکڑا تھا اور دوسرے کے ساتھ، میں نے اس بچی کو تھام لیا تھا۔ میں اسے بار بار ہلا رہا تھا کہ آیا وہ زندہ ہے یا نہیں لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ ‘

وہ روتے ہوئے کہتے ہیں ’میں اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکتا‘۔

ابرہیم کے بھائی محمد کے بقول رسول کشتی سے آہ و زاری کرتے ہوئے نکلے، وہ بچوں اور بیوی کے نام پکار رہے تھے، اور پھر انھوں نے اپنے آپ کو لہروں کے حوالے کر دیا۔

کرد

Hengaw
35 سالہ رسول ایرانژاد اور 15 ماہ کی آرٹین، 35 سالہ شیو محمد پناہی، نو سالہ انیتا اور چھ سالہ ارمین

فرانسیسی حکام کے مطابق نزدیک سے گزرنے والی ایک کشتی نے مقامی وقت کے مطابق 0930 بجے الارم بجایا، اور پانی میں سوار افراد کی مدد کرنا شروع کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ ریسکیو کرنے والا پہلا بحری جہاز 17 منٹ بعد پہنچا۔

حکام کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں جنھیں ہارٹ اٹیک ہو چکا تھا، پانی سے باہر لے جایا گیا تھا ، لیکن وہ تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔

ہم نے بچ جانے والے جن افراد سے بات کی ان کا ماننا ہے کہ اس وقت تک رسول، شیو، انیتا اور ارمین کی موت ہو چکی تھی۔ پندرہ دیگر افراد کو ہسپتال لے جایا گیا۔ چھوٹا بچہ آرٹین ابھی تک لاپتہ ہے اور گمان ہے کہ وہ بھی مر چکا ہے۔ یاسین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسے پانی میں بہتے دیکھا۔

کشتی کا کپتان ہونے کے الزام میں ایک ایرانی شخص فرانس میں تفتیشی جج کے سامنے پیش ہوا ہے اور انھیں قتل عام کے الزامات کا سامنا ہے۔

شیوا کا بھائی اور بہن جو دونوں یورپ میں رہتے ہیں، لاشوں کی شناخت کے لیے ڈنکرک گئے تھے، اور جمعہ کے روز ان کی لاشیں وطن واپس بھیجی جائیں گی۔

انگلش چینل عبور کرنے کی خواہش میں، یہ خطرناک سفر کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کرد

خاندان کے لیے ایک دعائیہ تقریب منعقد کی گئی

بی بی سی کے تجزیہ کے مطابق سنہ 2018 میں، چھوٹی کشتیوں میں 297 افراد برطانیہ پہنچے، 1،840 نے سنہ 2019 میں یہ سفر کیا، اور اس سال بھی قریب 8،000 افراد یہ خطرناک سفر کر چکے ہیں۔

2019 کے بعد سے اس کوشش میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

زیادہ تر سیاسی پناہ لینے والے ایران سے آتے ہیں۔

مہاجرین کی خیراتی تنظیموں اور فرانسیسی سیاست دانوں کا موقف ہے کہ پناہ گزینوں کو برطانیہ پہنچنے سے قبل انھیں پناہ گاہوں کے لیے درخواست دینے کی اجازت ہونی چاہیے۔

ابراہیم کا کہنا ہے کہ ڈراؤنے خواب زندہ بچ جانے والوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس کے باوجود یاسین کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ چینل کو عبور کرنے کی کوشش کریں گے۔

’ہر کوئی افسردہ تھا، مجھے بھی بہت ڈر لگتا تھا۔ لیکن میں صرف ایک محفوظ جگہ پر رہنا چاہتا ہوں۔ میں دوبارہ کوشش کروں گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp