فرانس میں اسلامی شدت پسندوں کے حملوں کی تاریخ اور حالیہ واقعات کے محرکات کیا ہیں؟


فرانس میں اسلامی شدت پسندی کے حملوں پر ایک نظر
گذشتہ ماہ چارلی ایبڈو میگزین کی جانب سے پیغمبر اسلام کے متنازع خاکوں کی اشاعت کے بعد سے فرانس میں اسلامی شدت پسندوں کے حملوں کے ایک نئے خطرناک سلسلے نے جنم لیا ہے جس میں کچھ شہریوں کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔

ان واقعات نے اس وقت شدت پکڑی جب ایک اٹھارہ سالہ چیچن نژاد مسلمان تارکِ وطن نے ایک فرانسیسی استاد کا شاگردوں کو متنازع خاکے دکھانے کے ردِعمل میں سر قلم کر دیا۔

ان واقعات کے بعد فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں کی طرف سے ’انتہا پسند اسلام‘ پر تنقید نے ملکی اور عالمی سطح پر ایک شدید بھونچال برپا کیا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فرانس میں مسلمانوں کی تاریخ اور قومی شناخت کا محافظ نظریہ ’لئی ستے‘ کیا ہے؟

ترکی کا اردوغان کارٹون پر چارلی ایبڈو کے خلاف قانونی کارروائی کا ارادہ

پیرس میں استاد کا سر قلم، حملہ ’دہشتگردانہ کارروائی‘ قرار

اس مضمون میں فرانس میں اسلامی شدت پسندوں کے حملوں کی تاریخ کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

1994 میں پیرس سے طیارہ ہائی جیک ہوا

فرانس میں حال ہی میں اسلامی شدت پسندی کے حملوں کے جس تسلسل نے جنم لیا ہے، یہ فرانس میں اپنی نوعیت کے اولین واقعات میں سے نہیں ہے۔ فرانس میں اسلامی شدت پسندوں کے حملوں کا سلسلہ کافی پرانا ہے۔

دراصل یورپ میں اسلامی شدت پسندوں کی دہشت گردی کا سلسلہ فرانس ہی سے سنہ 1994 میں شروع ہوا جب الجزائر کی الجماعة الإسلامية المسلّحة نامی ایک انتہا پسند اسلامی عسکریت پسند تنظیم کے حامیوں نے ایک فرانسیسی مسافر بردار ہوائی جہاز کو پیرس میں دہشت گردانہ کارروائی کی غرض سے ہائی جیک کیا تھا۔

الجزائر یا الجیریا ماضی میں شمالی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح فرانس کے زیر تسلط رہ چکا ہے جس کی وجہ سے بے شمار الجزائری باشندے کئی دہائیوں سے فرانس میں رہائش پذیر ہیں۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

اس واقعہ کے تقریباً چار سال تک فرانس مسلسل اسی تنظیم کے حامیوں کے دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنتا رہا جس میں ہدفی قتل (ٹارگٹ کلنگ) اور عام مقامات پر بم حملے شامل تھے۔

ان حملوں میں آٹھ کے قریب افراد ہلاک اور دو سو سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ یہ سلسلہ تب رُکا جب الجزائر میں اس تنظیم کے سربراہ جمال زیتونی کی ہلاکت کے بعد اس تنظیم کا خاتمہ ہوا۔

جمال زیتونی کی تنظیم کے خاتمہ کے بعد الجزائر میں ایک ایسی جہادی تنظیم پروان چڑھی جس کے شروع سے القاعدہ کے قریبی روابط تھے۔

11 ستمبر کے حملوں (نائن الیون) کے کچھ سال بعد اس تنظیم نے القاعدہ میں ضم ہو کر الجزائر سمیت شمالی افریقہ میں القاعدہ کی ایک مضبوط شاخ قائم کی۔ اس طرح فرانسیسی نژاد الجزائری اسلامی شدت پسند بھی القاعدہ کے عالمی جہاد کے زیر اثر آگئے۔

پیرس سے امریکہ جانے والے طیارے پر ناکام حملہ

فرانس میں اسلامی شدت پسندوں کی دہشت گردی کا دوسرا سلسلہ گیارہ ستمبر کے حملوں سے قبل شروع ہوا جب افغانستان میں القاعدہ کے عسکری مراکز سے تربیت یافتہ رِچرڈ ریڈ نامی ایک اسلامی شدت پسند نے پیرس سے امریکہ جانے والی ایک ہوائی جہاز کو بم سے اُڑانے کا منصوبہ بنایا تھا مگر وہ اس حملہ میں کامیاب نہ ہوسکا۔

اس کے ساتھ گیارہ ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد فرانس میں عالمی شدت پسند اسلامی گروہوں کے حملوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔

ان تمام حملوں کی کڑیاں الجزائر کے علاوہ افغانستان، عراق، یمن اور کچھ دیگر ملکوں میں موجود القاعدہ اور اس سے منسلک جہادی گروپوں سے جا ملتی رہیں۔

2012 میں یہودیوں کے سکول پر حملہ

ناروے کے دفاعی تحقیقاتی مرکز سے وابسطہ یورپ میں اسلامی شدت پسند تنظیوں پر کام کرنے والے دو نامور محققین، ڈاکٹر اِینی سٹی نرسن اور ڈاکٹر پیٹر نصر کے مطابق 1994 سے 2013 تک یورپ میں اسلامی شدت پسندی کے سب سے زیادہ دہشت گردانہ حملے فرانس میں ہوئے جس میں فرانسیسی اہداف کے علاوہ امریکی اور دیگر غیر ملکی باشندوں اور مفادات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

ان کے مطابق ان حملوں میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کو خصوصی ہدف پر رکھنے کی کوشش کی گئی۔

ان میں مراکشی نژاد فرانسیسی نوجوان محمد میراح کے 2012 کے وہ حملے بھی شامل ہیں جس نے افغانستان سے منسلک پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقہ وزیرستان میں القاعدہ سے مربوط ایک گروہ سے عسکریتی تربیت حاصل کر کے فرانس میں مختلف واقعات میں تین فرانسیسی فوجیوں سمیت ایک یہودی سکول پر حملہ کر کے ایک استاد کو قتل اور دو شاگردوں کو زخمی کردیا تھا۔

چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ

فرانس میں القاعدہ سے مربوط سب سے خطرناک حملہ سنہ 2015 میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر تھا جس میں یمن میں القاعدہ سے تربیت یافتہ کوچی برادران نامی دو الجزائری نژاد فرانسیسی بھائیوں نے طنزیہ جریدے کے آٹھ اہلکاروں سمیت 12 افراد کو قتل کیا۔

یاد رہے کہ چارلی ایبڈو نے سب سے پہلے سال 2006 میں پیغمبر اسلام کے متنازع خاکے شائع کیے تھے اور 2012 میں دوبارہ اس کی اشاعت کی تھی جس پر القاعدہ کی قیادت نے اس جریدرے سمیت فرانسیسی حکومت کو سخت نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔

سال 2015 کے اواخر سے فرانس میں نام نہاد دولت اسلامیہ یا داعش کے اسلامی شدت پسندوں کے خوفناک دہشت گردانہ حملوں نے جنم لیا جس نے شام میں داعش کے زوال تک فرانس کو اپنی دہشت کے لپیٹ میں لیے رکھا۔

ان میں نومبر 2015 اور جولائی 2016 میں پیرس اور نیس کے شہروں میں وہ دو تباہ کن حملے بھی شامل ہیں جس میں مجموعی طور پر 180 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ سو سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔

ان تمام حملوں کے منصوبہ ساز دراصل فرانسیسی شہری ہی تھے جو کہ الجزائر اور مراکش کے مسلمان تارکین وطن گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔

ان میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی تھی جو کہ فرانس میں پیدا ہو کر پھلے بڑھے تھے مگر یورپ سے داعش میں شمولیت کی خاطر شام منتقل ہو گئے تھے۔

حالیہ واقعات کس نوعیت کے؟

مگر حال ہی میں فرانس میں ہونے والے حملوں میں ایسے افراد ملوث ہیں جن کا اسلامی عسکریت پسند گروہوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان میں سے بعض ایسے افراد بھی شامل ہیں کہ جو ان گروہوں کے فکری لحاظ سے شدید مخالف سمجھے جاتے ہیں۔

مثلاً جب چارلی ایبڈو نے رواں سال ستمبر میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کا اعلان کیا تو سب سے پہلے پاکستان سے تعلق رکھنے والے فرانس میں پناہ گزین ایک بریلوی مکتبہ فکر کے نوجوان نے اس کے ردِعمل میں حملہ کیا۔

اس طرح فرانسیسی استاد کو قتل کرنے والے نوعمر چیچن تارکِ وطن حملہ آور کے متعلق بھی اب تک دستیاب معلومات سے پتا چلتا ہے کہ اس کا بھی کسی عالمی شدت پسند اسلامی عسکری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور اس نے انفرادی طور اس جرم کا ارتکاب پر کیا ہے۔

مگر ان حملوں کے مرتکب افراد میں ایک مماثلت پائی جاتی ہیں کہ یہ سب پیغمبر اسلام کے متنازع خاکوں کی اشاعت پر شدید غم و غصے میں مبتلا تھے۔

اسلامی شدت پسند گروہوں پر نگاہ رکھنے والی امریکی تنظیم سائٹ انٹلیجنس گروپ کے مطابق القاعدہ اور داعش سمیت مختلف خطوں کے جہادی گروہ فرانس میں ہونے والے ان حالیہ حملوں پر ’شدید خوشی منارہے ہیں۔‘

اسلامی شدت پسند عسکری گروہوں پر تحقیق کرنے والی بی بی سی سے وابستہ نامور محقق مینا ال لامی نے بتایا کہ اگرچہ اب تک کے شواہد کے مطابق فرانس میں ہونے والے ان تازہ حملوں کا داعش اور القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر ان میں ایسے ماضی کے حملوں سے مماثلت پائی جاتی ہے جن میں عالمی شدت پسند گروہ ملوث تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ دونوں گروہوں کے حامی ایسے حملوں پر ابھارنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔

مینا ال لامی کے نزدیک ان حملہ آورں کا کسی جہادی گروہ سے تعلق نہ ہونا خود ایک بڑے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب متنازع خاکے پر عام مسلمان نوجوان بھی غصے میں ہیں احتجاجی راستے کے بجائے القاعدہ اور داعش کے پرتشدد طریقہ کار کو اپنا رہے ہیں جو کہ ایک ’کافی خطرناک رجحان‘ ثابت ہوسکتا ہے۔

فرانس میں اسلامی شدت پسندوں کے حملوں کے عوامل

فرانس میں اسلامی شدت پسندوں کے حملوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس کے دو بڑے مرکزی محرکات سامنے آتے ہیں: اندرونی اور بیرونی عوامل۔

پہلے محرک کے عوامل میں فرانس کی خارجہ پالیسی اور پھر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرانس کا کردار ہے۔

داخلی عوامل میں فرانس میں اسلام سے متعلق متنازع مواد اور اس کے ساتھ اسلاموفوبیا کے واقعات پر مقامی مسلمانوں کا ردِعمل شامل ہیں۔

بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ فرانس میں اسلامی شدت پسندی کا آغاز فرانس کی خارجہ پالیسی سے ہوا جب الجزائر کے اسلامی شدت پسندوں نے ان کے خلاف فرانسیسی حکومت کی ان کے ملک کے بارے میں بعض پالیسیوں کے نتیجے میں فرانس میں دہشت گردانہ حملوں کا آغاز کیا۔

بعد میں عالمی جہادی گروہوں خصوصاً القاعدہ نے فرانس میں مسلمانوں کو درپیش مشکلات کو اپنے دہشت گردانہ مقاصد کے لیے استعمال کیا جس کے نتیجے میں فرانسیسی اسلامی شدت پسندوں نے اپنے ملک کے علاوہ امریکہ اور اس کے دیگر اتحادی ممالک کے مفادات کو فرانس میں نشانہ بنانے کی کوشش کی۔

خصوصاً القاعدہ نے فرانس میں شائع ہونے والے پیغبر اسلام کے متنازع خاکوں اور مسلمان خواتین کے پردہ وغیرہ پر پابندی کے مسائل کو اپنے مقاصد کے لیے بھرپور استعمال کیا۔

مثال کے طور پر، القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواھری نے سنہ 2004 سے ہی فرانس کی جانب سے مسلمان خواتین کے نقاب پر پابندی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر یہاں کے مسلمانوں کو اپنی حکومت کے خلاف عسکریت پسندی کے لیے ابھارا۔

اس طرح اسامہ بن لادن نے 2006 میں چارلی ایبڈو کے متنازع خاکوں پر انتہائی سخت الفاظ میں مذمتی بیان جاری کیا۔

القاعدہ کے ان دونوں رہنماؤں نے ان اقدامات پر فرانس کے مسلمانوں کو ’اشتعال دلانے کے لیے‘ ان اقدامات کو مسلمانوں کے ’قتل عام سے زیادہ خطرناک جرم‘ قرار دیا۔

ڈاکٹر پیٹر نصر اپنی کتاب یورپ میں اسلامی شدت پسندوں کی دہشت گردی کی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ فرانس سمیت یورپ میں پیغمبر اسلام کے خلاف متنازع خاکوں کی اشاعت نے یہاں عالمی اسلامی شدت پسند تنظیموں کے حملوں اور یہاں سے ان کے لیے افرادی قوت کی بھرتی میں بڑا کردار ادا کیا۔

ان کے مطابق القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے نشریاتی مواد میں یہ موضوع اہم رہا۔

عالمی اسلامی شدت پسند تنظیموں پر گہری نگاہ رکھنے والے امریکی پروفیسر ڈاکٹر کولن کلارک کا فرانس میں حالیہ واقعات پر کہنا ہے کہ دراصل پیغمبر اسلام سے متعلق متنازغ مواد اکثر مسلمانوں کے لیے ایک ناقابل قبول فعل ہے جو ان میں شدید غصے کا سبب بنتا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی شدت پسند گروہ پھر ان افراد کے اس غصہ کو اپنے مقاصد کے لیے بروئے کار لاکر ایسے افراد کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp