دوسروں کو جینے کا حق دیں


\"ahmad-saleem\"چترال سے اسلام آباد جانے والی پرواز پی۔ کے 661 شام چار بجے حادثے کا شکار ہوئی۔ طیارے میں سوار تمام افراد لقمہ اجل بن گئے۔ مرنے والوں کا ہم سب کو گہرا دکھ اور افسوس ہے۔ خدا مرحومین کی مغرفت اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔

اس افسوس ناک واقعہ کے رونما ہوتے ہی سوشل میڈیا پر جو ”علمی مباحث“ چل رہے ہیں اس سے آپ واقف ہی ہیں۔ سوگ کے اس ماحول میں آپ نے ”الحمداللہ“ کی آواز سنی؟

 جی ہم نے بھی سنی۔

”الحمداللہ ایک اور گستاخ انجام کو پہنچا،کوئی ممتاز قادری اگر نہیں پہنچ سکا تو خدا نے خود دبوچ لیا“ مولانا طارق جمیل سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا یہ ایک گستاخ پر اللہ کی پکڑ نہیں؟

مولانا کے جواب کا انتظار کرتے ہیں۔ تب تک آپ یہ بتا دیں کہ جہاز میں سوار باقی لوگوں سے کیا گستاخی سر زد ہوئی تھی؟ محترم! کُل اڑتالیس لوگوں کو اجل نے جا لیا ہے۔

مرنے والوں میں جنید جمشید بھی شامل ہیں۔ وہ ایک گلوکار تھے۔ مبلغ اور نعت خواں تھے۔ انہوں نے پاکستان کو دوسرا قومی ترانہ’ دل دل پاکستان دیا۔ جسے سن کر وطن کی محبت جاگ جاگ جاتی ہے۔ انہوں نے ’سانولی سالونی محبوبہ‘ کی صورت میں حسین یادیں دیں۔ ’ ہم کیوں چلیں اس راہ پر جس راہ پر سب ہی چلے‘ سے نئی جہتیں متعارف کروائیں۔ پاکستان میں پوپ موسیقی کو منہ متھا دیا اور نئے گانے والوں کے لئے راہیں متعین کیں۔

پھر موسیقی کو ترک کر کے دین کی تبلیغ کا کام شروع کیا۔ دنیا نے دیکھا کہ کیسے ایک کلین شیو سنگر نے اپنے آپ کو ایک باریش مبلغ میں ڈھال لیا۔ اس خوش گلو نے نعت خوانی میں بھی مقام پایا اور ذکر رسولﷺ سننے والوں کو سامان راحت مہیا کیا۔ کپڑے کا کاروبارشروع کیا تو جامہ زیبی کو نئی دھج دی اور اس میں بھی قسمت کی دیوی خوب مہربان رہی۔

جنید جمشید نے اپنی زندگی کو مختلف موڑ دئیے۔ کئی ذاتی فیصلے لئے، انہوں نے بطور گلوکار، مبلغ اور نعت خواں جو بھی کام کیا لائق احترام و ستائش ہے۔ اور شخصی آزادی کا یہ تقا ضا ہے کہ ان کی ذاتی زندگی کو تختہ مشق نا بنایا جائے۔

لیکن ان انوکھے لاڈلوں کا کیا کریں جو سر سنگیت پر تو سیخ پا تھے ہی، ساتھ ہی تبلیغ اور کاروبار پر بھی معترض ہیں۔ یعنی جو مرضی کر لو ان کے جنتی معیاروں پر پورااترنا ممکن نہیں ۔ قاری سعید چشتی کو صحابہ کرامؓ کی رینکنگ کے چکر میں مار دیا گیا تھا۔ انسانیت نے اس پر بھی ماتم کیا تھا مگر کچھ لوگ اس قتل پر بھی خوش تھے۔ امجد صابری کے قتل پر بھی مبارک باد کی سر گوشیاں سنی گئیں۔ ایدھی صاحب کا انتقال ہوا تو تب بھی انہوں نے جنت کی راہ بلاک کر کے احتجاج کیا تھا ۔ اور جنت مکانی ملکہ ترنم کا جب 27 رمضان المبارک کو انتقال ہوا توانہوں نے نقارہ بلند کیا کہ شاید فرشتے سے غلطی ہو گئی۔ مطلب جنت کے کامل ٹھیکیدار۔

یہ وہی دانش کل ہے جس کا کسی ’سیاہ پوش‘ کو دیکھ کے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اپنے اندر کی کالک کو عبادت و ریاضت کی اساس سمجھتے ہیں۔ اگر سوال پوچھنے پر یہ برا نہ مانتے تو ہم ان سے پوچھتے کہ نفرت کے پھندوں سے جھول رہے ہو وہ جو خدا کی رسی تھی اس کا کیا ہوا؟ ”ولا تفرقوا“ سے کیا معاملہ کیا؟ ”المسلمون کمثل الجسد الواحد“ کا کیا بنا؟ چلیں رہنے دیں ایویں بھڑک جائیں گے، ویسے بھی بھینس کو بین کب سنائی دی ہے؟

ویسے، جنہیں جنید جمشید کی موت کا دکھ ہے کیا انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ناحق قتل کا بھی افسوس ہوا تھا؟ سلمان تاثیر کے قتل پر؟ یا عیسائی جوڑے کو زندہ جلانے پر؟

پھر سوال؟

چھوڑیں شخصی آزادی کی فضول بحث کو۔ ربیع الاول آ گیا ہے، مسجدوں کو دلہن بناتے ہیں، مفلس کی کنواری بیٹی کی فکر بعد میں کریں گے۔ جھنڈے لگاتے ہیں اور جلسے جلوسوں پر توجہ دیتے ہیں۔ حب رسولﷺ کے عملی تقاضوں پر پھر کبھی غور کریں گے،

نہیں! یہ بدعت ہے،یہ تیسری عید،عید میلاد کہاں سے اٹھا لائے، اور پھر پتہ نہیں کیا کیا ؛فضول خرچیاں اور خرافات جنم لے رہی ہیں،عمل صحابہ سے جشن میلاد ثابت ہی نہیں۔ حدیث کی کتب بھی ربیع الاول کے جشن و جلوس پر خاموش ہیں۔

ارے! یہ دلوں کو جلانے والوں کو دیئے جلانے پر اعتراض کیوں ہے؟ رائے ونڈ اجتماع، یہ لش پش گاڑیاں، کوٹھیاں بنگلے عمل صحابہ سے ثابت ہیں؟ حدیث و تفاسیر کی کتب ہم نے بھی پڑھ رکھی ہیں۔

”مستقل مزاجوں “کی یہ بحث ازل سے ہے اور ابد تک جائے گی۔ ہمیں اعتراض بحث پر نہیں، اس کے نتیجہ پر ہے جو ہمیشہ فتویٰ کفر کی صورت میں نکلتا ہے۔ صاحب پانی میں مدھانی سے کب مکھن نکلا ہے۔ حلال و حرام اور جائزو ناجائز کی تعریفیں زمانے اور حالات کے ساتھ بدلتی رہی ہیں۔ لیکن یہ میٹھا میٹھا کھا کے کڑوا تھوکنے کی روایت حقیقت پسندانہ نہیں۔ کبھی لاﺅڈ اسپیکر شیطان کی آواز تھا ، آ ج رحمان کے بندوں کا اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ تصویر اور ویڈیو پچھلے دنوں تک حرام تھیں کیسے چابک دستی سے حلال کر لی گئیں۔ ٹی وی بھی راہ راست پر لایا جا چکا ہے۔ لیکن جب تک اہل فتاوٰی گھوڑے خچر سے اتر کر گاڑی پر سوار ہوتے ہیں، تب تک باقی دنیا فضاﺅں میں پہنچ چکی ہوتی ہے۔

کہنا یہ ہے حضور کہ جن باتوں اور عوامل کو اساس بنا کر دلوں سے کدورتیں نکالی جا سکتی تھیں انہی کو وجہ رنجش و دشمنی بنا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں رنگ رنگ کے پھول شخصی اور مذہبی آزادی کی رسی سے بندھے ہوتے توکیا خوب گلدستہ بن جاتا۔ مگر یہاں تو یک رنگی کی جنگ نے اتحاد و امن کی جڑیں کاٹ کھائی ہیں۔ سبز کو سفید سے نفرت ہے اورسفید کو سیاہ سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ منبر و محراب کی آپس کی محبت کا یہ عالم ہے تو یہ ہولی، دیوالی اور کرسمس والوں کو کہاں گنجائش دیں گے؟

نفرت کا رنگساز آزادیوں کو سلب کرنے کے درپے ہے۔ یہ کلین شیو والے کو داڑھی رکھنے کا مشورہ دیتا ہے اور داڑھی والے کی نیت پر شک کرتا ہے۔ یہ جنت کے ٹکٹ گھر والے جنید جمشید جیسے شخص جس نے اپنی زندگی میں انقلابی تبدیلی لائی کو بھی نہیں بخشتے۔ یہ مسلک اور فرقہ واریت کے خون آلود ہاتھوں سے لاشیں بھی نوچ کھاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments