سیاسی مذاکرات: شرائط اور فریقین


2018 ءکے عام انتخابات سے قبل ہی پارلیمنٹ کو زیر اثر لانے اور حکومت کو تابع مہمل بنانے کی کوششوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ پانامہ سے اقامہ نے دفعہ 62 کو فعال کیا پھر۔ بلوچستان حکومت کے خلاف عد م اعتماد کی تحریک جو مسلم لیگ میں دارڑ کی صورت سامنے لائی گئی اس کوشش کے مراحل تھے نیز 2018ء مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کی پشتہ بندی تھی اور حتمی طور پر 2018 ءکے عام انتخابات کے نام پر عوام کی اکثریتی رائے کو ”جادوئی“ عمل کے ذریعے بدل کر ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت مسلط کر دی گئی جس کی سربراہی سابق کرکٹر جناب عمران خان کو سونپی گئی۔ کیا خان صاحب 62 اور 63 کے آئینی معیار پر پورے اترتے تھے؟

اس سوال کو عدلیہ نے قانونی تناظر میں دیکھنے کی بجایے عیبوں پر پردہ پوشی کی روایت کے حوالے دے صرف نظر کیا۔ خان صاحب کی بطور وزیراعظم منصب جلیلہ کی حلف برداری پرجو ”ہلکے پھلکے“ واقعات رونما ہوئے۔ قمیض کی جیب سے عینک نکالنے کے طریقے کے علاوہ منصب کے حلف میں درج شدہ عبارت کے حساس الفاظ جنہیں صدر مملکت بہت شستگی سے دہراتے رہے تھے۔ جناب عمران خان ان الفاظ و مذہبی اصطلاحات کو بار بار دہرانے کے بعد بھی درست طور پر ادا نہ کرسکے یہ آغاز تھا ایک نااہل حکومت کے دور کا جس نے تقریب حلف برداری میں ہی اپنی ذہنی استطاعت اور حلف کی پاسداری کا تماشا لگا کر سب کو روز اول ہی ششدر کر دیا تھا۔

کچھ من چلوں نے اس صورتحال سے حظ اٹھایا۔ تو کچھ سنجیدہ حلقوں کے ماتھے پر تشویش کی شکنیں ابھری تھیں البتہ پی ٹی آئی کومسنداقتدار تک لانے والے ہر بات کو نظر انداز کر نے کے سوا کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے بعد ازاں یوم شہداءکی تقریب پر جی ایچ کیو میں ہوئی پریڈ اور شہدا کی یاد گار پر پھول چڑھانے کے دوران آرمی چیف کو جس طرح وزیراعظم کے ”افعال“ کی درستگی کرنی پڑی وہ دور اندیشی متقاضی تھی کہ لانے والے اس آنی والی ٹیم کے چناؤ میں ہونے والی اپنی کوتاہی /غلطی کو بھانپ لیتے تو یقیناً ملک کو آنے والے معاشی سیاسی سفارتی انحطاط عدم استحکام اور تنزلی سے بچایا جاسکتا تھا۔

تاہم یہ بھی قابل فہم ہے کہ لانے والوں کے لئے پہلے چند ماہ میں ہی اپنی توقعات اور غلط انتخاب کا اعتراف کرنا سہل تھا نہ ہی ممکن۔ یہاں میں وابستہ کی گئی ان امیدوں کی صراحت کردوں کہ دیگر معاملات میں لانے والوں کی حاکمانہ گرفت مستحکم کیے جانے کے ساتھ ساتھ یہ پر عزم توقع بھی موجود تھی کہ اس عہد بے چراغ میں عمرانی حکومت، جمہوریت آئین، قانون وفاقیت اور پارلیمان کو بے توقیر کرنے میں بہر طور کامیاب رہے گی۔

اپوزیشن جماعتوں پر دشنام طرازی غیر شائستہ سرکاری بیانات سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں قرار داد پر رائے شماری کے حق میں کھڑے ہو کر تائید کرنے والے 64 ارکان سینیٹ کے ووٹ کیسے 48 ہو گئے تھے یہ کیونکر ہوا؟ اس کو چھوڑئیے اہم نقطہ یہ ہے کہ سیاسی رہنما اراکین پارلیمان اور قانون ساز ادارے کی عزت توقیر خاک میں ضرور مل گئی تھی اس موقع کو سیاسی تاریخ میں سب سے نمایاں طور پر اجا گرکرنے اور یاد گار بنانے کے لئے قائد جمہوریت جناب میر حاصل بزنجو کی تقریرنے شاندار کردار ادا کیا جو تاریخ کے پنوں ہمیشہ موجود رہ کر سیاسی ذہنوں کو جنجھوڑتی رہے گی۔

واقعات کے دھارے نے بالآخر حزب اختلاف کی 11 جماعتوں کو سیاسی مورچہ لگانے پر مجبور کیا۔ 20 ستمبر 2020 کو اے پی سی نے پاکستان جمہوری تحریک قائم کی تو روز اول سے ہی پی ڈی ایم کے موقف وسیاسی لائحہ عمل پر جناب نواز شریف کی تقریر نے گہرے نقوش مرتب کر دیے ایسا نہیں دیگر اکابرین کی آرا میاں صاحب سے مختلف تھیں میاں صاحب نے جرات کر کے ان تمام پوشیدہ حقائق کو زبان دے کر سیاست۔ بالخصوص پنجاب کے سیاسی مزاج کا رخ موڑ دیا جو بذات خود اہمیت رکھتا ہے۔

پھر گوجرانوالہ کے جلسہ کی تقریر نے پنجاب میں سیاسی روایتی مزاج میں مزاحمتی تبدیلی کی جوت جگائی میاں صاحب نے کھول کھول کر بیان کیا کہ ملک پاکستان کو کس طرح اس کے بانیان کے بیانیے کے بر خلاف سلطنت میں بدلا گیا ہے حالانکہ بانیاں پاکستان نے پارلیمانی وفاقی قومی جمہوری آئینی ریاست بنانے کا عہد کیا تھا۔ اس کہانی میں غیر آئینی سیاسی مداخلت کے بیسیوں واقعات میں چند کا ذکر طاقت کے مرکز کو ناگوارمحسوس ہوا مگر سچائی کے اظہار نے وسیع عوامی حلقوں اور ملک بھر کے عوام میں جوش وجذبہ فراواں کیا لہذا ناگواری کا اظہار کراچی میں مزار قائد کے حوالے سے جوابی وار کے طور پر سامنے آیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جناب آرمی چیف کے حکم پر ہوئی انکوائری کمیٹی کی پریس ریلیز نے آئی ایس آئی اور رینجرزکے ہاتھوں سندھ پولیس کے سربراہ اورنائب کو اغوا کرنے کے واقعہ کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ قانونی اعتبار سے یہ اقدام تعزیرات پاکستان کی دفعات کے مطابق مجرمانہ سرگرمی ہے جس کی سزا سات سال قید ہے تاہم اس پریس ریلیز میں افسران کے جرم کو غیر ذمہ دارانہ اقدام قرار دے کر رفع دفع کرنے کی سعی لا حاصل ہوئی ہے مگر ذرائع ابلاغ بندش کے باوجود اس رپورٹ پر تنقید کرتے اور سوالات اٹھا رہے ہیں۔

جدید تیکنیکی سہولت نے سوشل میڈیا کو ان واقعات پر عوامی رد عمل کے دباؤ اور ملک میں بڑھتے سیاسی مزاحمتی درجہ حرارت کے طور پر شدت سے پیش کیا ہے عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی ان واقعات پر تشویش انگیز تبصرے کیے ہیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا سیاست میں غیر آئینی غیر سیاسی مداخلت، سیاسی بت تراشی یعنی ”آذریت“ کے خلاف عامتہ الناس میں مقبولیت ہی نہیں بلکہ غصہ اور مزاحمتی عزائم زور پکڑرہے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج سے آنے والی عالمی تبدیلی سے ہم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

مہنگائی اور بے روز گاری معاشی انحطاط تجارتی سرگرمیوں میں گراوٹ نے عام آدمی ہی نہیں سفید پوش متوسط گھرانوں کے چولہے ماند کر دیے ہیں حکومت تجارتی خسارہ پر قابو پانے کی کوشش کو، اپنی معاشی کامیابی بتاتے ہوئے بھول جاتی ہے کہ یہ نتیجہ خام صنعتی و تجارتی سامان کی درآمد میں کمی سے مرتب ہوا ہے برآمد ات میں اضافے کی وجہ سے نہیں۔ خام مال اور دیگر اشیاءکی درآمد سے اگر زرمبادلہ کی بچت ہوتی ہے تو حکومت کو درآمدی ڈیوٹیوں اور محصولات کی مد میں شدید کمی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

اس عمل سے صنعتی تجارتی سرگرمیاں مانند پڑیں تو بے روز گاری اور تجارت میں گراوٹ آئی ہے۔ خام مال کی درآمد میں کمی سے صنعتی پیداوار اور دیگر اشیا کی برآمدات پر بھی منفی اثر پڑا ہے جس سے پھر سرکاری محصولات میں کمی اور نتیجتاً ملکی امور چلانے کے لئے قرضوں پر انحصار بڑھ رہا ہے سمجھ نہیں آتی حکومت معاشی شعبے میں حقیقت شناسی سے عاری کیوں ہے؟ حالانکہ جناب عمران خان بقول ان کے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اکنامکس میں گریجویٹ بھی ہیں۔

پی ڈی ایم کے جلسوں اور بیانیے نے اقتدارواختیار کے ایوانوں میں دراڑ تھرتھلی پیدا کی ہے اس کے چند اسباب سطور بالا میں مذکورہ ہیں جبکہ واقفان حال سرکاری حلقوں کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں اور داخلی دباؤ کا بھی ذکر کر رہے ہیں جس کی نشاندہی طاقت کے مرکز کی جانب سے لندن میں رابطے کرنے کی کوششوں سے متعلق ذرائع ابلاغ کی اطلاعات میں ہوتی ہیں بتایا جا رہا ہے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر جناب نواز شریف سے بات چیت کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں میاں صاحب نے غلطیوں کے اعتراف اور اصلاح احوال کے لئے موثر مکینزم کی تشکیل پر اطمینان بخش یقین دہانیوں کی شرائط عائد کی ہیں۔

انہوں نے مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤں پر بھی جرنیلوں کے ساتھ سیاسی رابطے کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ اس پابندی کے پس منظر اور سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف مزاحمتی سیاسی بیانیے کے متعلق سرکاری ارتعاش جناب بلاول بھٹو کے بیان پر اظہار مسرت اور 12 نومبر کوبی بی سی کو دیے انٹرویو میں محترمہ مریم نوازکے موقف پر تنقید کے نشتر برسانے سے سامنے آیا ہے۔ جسے پی ڈی ایم میں تقسیم، بیانیے پر اختلافات اور نجانے کس کس عنوان سے سرکاری معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج نے ارزاں فرمایا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محترمہ مریم نواز نے چند اہم نقاط پیش کیے ہیں

الف۔ ان کے قریبی ساتھیوں سے فوج رابطے کررہی ہے اور معاملات حل کرنے کے لئے بات چیت کی پیشکش کررہی ہے۔

ب۔ فوج سے بات چیت ہوگی لیکن بات چیت کے لئے فضا ساز گار بنانے کے لئے فوج موجودہ حکومت کی سرپرستی سے دستبردار ہو جائے۔

ج۔ تمام معاملات پر بات چیت پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوگی اور عوام کے سامنے ہوگی۔ اور آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے معاملات طے کرنے ہوں گے ۔

د۔ انہوں نے عمران حکومت سے بات چیت کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے اسے کسی بھی ممکنہ گفتگو میں شریک کیے جانے سے انکار کر دیا۔

حکومتی حلقے سرکاری معاونین اور ذرائع ابلاغ پر براجمان حکومت کی ”نمک دانیوں“ نما تجزیہ کاروں نے ہاہا کار مچا دی ہے کہ مریم نواز نے جو سیاست میں فوج کے مداخلت پر برافروختہ ہو کر احتجاج کررہی تھیں اب اپنا موقف بدل لیاہے وہ حکومت کو گھر بجھوانے کی شرط پر فوج سے گفت وشنید پر آمادہ ہو کر اپنے ہی بیانیے سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔

اس سیاسی خیال کے ہمنوا نظر انداز کر رہے ہیں کہ مریم نواز نے فوج کو مذاکرات کی آفر نہیں کی بلکہ فوج کی جانب سے کیے گئے روابط اور مذاکرات کی خواہش پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے بنیادی شرائط پیش کی ہیں جو آئینی ہیں اور ایک سنجیدہ جمہوری مزاج کی نشاندہی کرتی ہیں قبل ازیں محترمہ مریم نواز نے جناب بلاول بھٹو کے اختلافی بیان پر بھی بڑی فراست سے ایسی توضیح کی تھی کہ جناب بلاول بھٹو کے لئے یوٹرن لینا ممکن نہ رہا۔

مجھے امید ہے کہ سندھ کے جزائر پر قبضہ اور دیگر امور پر بلاول بھٹو بدلتے سیاسی منظر نامے میں پی پی کو ماضی قریب کے رنگ سے نکال کر اسے ماضی بعید کے سیاسی اسلوب سے ہم آہنگ کریں گے بلکہ وہ اپنی جماعت کو جدید سیاسی عوامی تقاضوں سے مربوط کر کے اسے از سر نو ملک کی بڑی جماعت بنانے کی سعی جاری رکھیں گے۔ محترمہ مریم نواز نے میاں صاحب کی تقریر کے متعلق بلاول کے اختلاف کو زائل کر کے بھی دراصل سیاست میں بڑھتی کشیدگی پر پرامن سیاسی مزاحمت کو ترجیح دی ہے جس کے کثیر الجہت دباؤ سے معاملات سلجھنے کی راہ کھل سکتی ہے۔

مریم نواز کے حالیہ مشروط بیانیے پر تنقید کرنے والے بھول رہے ہیں کہ اس وقت ملک میں جس طرز کی سیاسی صف بندی اور مبازرت چل رہی ہے اس کے نتیجے میں تصادم کا خدشہ موجود ہے جبکہ پرامن جمہوری سیاسی مزاحمتی سیاست عوامی دباؤ کے ذریعے فریق ثانی کو بات چیت کی میر پر لا کر اسے ماضی بعید و قریب میں روا رکھے گئے اپنے طرز عمل یا مائنڈ سیٹ پر نظر ثانی کر کے سیاسی عمل سے فاصلہ اختیار کرنے پر رضا مند کر سکتے ہیں۔ شاید میڈیا کی ”نمک دانیاں“ تصادم و کشیدگی کے ذریعے اپنے روز گار کو محفوظ بنانے کی فکر میں ہیں کیونکہ ملک کے وسیع مفادات میں پرامن سیاسی گفت و شنید سے رونما ہونے والی تبدیلی سے سیاسی ثقافت میں اس طرح کی نمک دانیوں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔

کیونکہ ان کی ضرورت اور افادیت سیاسی بت تراشی بہ الفاظ دیگر ”سیاسی آذریت“ کے ماحول میں ہی درکار ہوتی ہے۔ محترمہ مریم نواز کے مطالبے میں پوشیدہ رمز کو سمجھنے کے لئے سیاسی رمزیت سے کما حقہ واقفیت ہی نہیں اس سے نکلتے نتائج کو تسلیم کرنے کی ذہنی خو بھی درکار ہے۔ محترمہ مریم نواز نے مذاکرات کے لئے جو شرط اولین عائد کی ہے وہ لمحہ موجود میں اداروں کی سیاسی فیصلہ سازی وعمل میں بھر پور عملی موجودگی کے خاتمے کی متقاضی ہے۔

حکومتی حلقے برملا اس یکتائی کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ حکومت اور فوج (ادارے) ایک صفحے پر ہیں۔ اس کے واضح بلیغ معنی عسکری ادارے کی سیاسی میدان میں دراندازی کے سوا کیا ہیں؟ موجودہ حکومت کے متعلق پی ڈی ایم سمیت ذرائع ابلاغ و رائے عامہ واضح طور پر اس امر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ مسلط شدہ ہے۔ عوام کی غیر متنازعہ منتخب شدہ نہیں اس پس منظر میں سیاسی احتجاج اگر مذاکرات کی پیشکش قبول کرے تو لازماً فضاءکوساز گار بنانے کے لئے عسکری ادارے سے غیر جانداری کا تقاضا کریے گا تو معقول بات ہوگی۔ ہر سیاسی کارکن اور تجزئیہ کار متفق ہے کہ عسکری ادارے کی آشیر باد کے بغیر عمرانی حکومت ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ کیا مریم نواز نے فوج سے حکومت کو برطرف کرنے کے لئے کیا ہے؟ نہیں اس نے تو محض غیر جانبداری اپنانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ گفتگو اور مسائل کے حل کے لئے قابل اعتماد سطح پر آگے بڑھا جایے

پی ڈی ایم محض ازسر نو عام انتخابات کی متمنی نہیں اس کے مطالبات کی اہم شق غیر جانبدارانہ مداخلت سے پاک صاف شفاف منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ اگر مذاکرات کے عمل سے یہ شق خارج ہو تو کیا سیاسی بحران کا مستحکم تصفیہ ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے اور آئین کے دائرہ کار کی شرط محترمہ مریم نواز کے بیان کی ریڑھ کی ہڈی ہے جس پر تمام حلقے متفق ہیں۔ وہ بھی جو اس سے عملاً انحراف کرتے ہیں اور کبھی بھی نہیں کہتے کہ وہ آئین کے دائرہ کار کو نہیں مانتے۔

مذاکرات کے فریقین میں ایک جانب پی ڈی ایم ہو گی تو دوسری طرف وہ ہوں گے جنہوں نے مختلف سطح پر روابط کر کے معاملات کے حل کے لئے بات چیت کی پیشکش کی ہے چونکہ عمران حکومت اپوزیشن سے بات چیت پر کبھی آمادہ ہی نہیں رہی لہذا مجوزہ۔ و مذکورہ مذاکرات کے عمل سے اس کا خارج ہونا سیاسی اور منطقی طور پر لازم ہے۔ حکومت کے خاتمے کے لیے یہ مطالبہ عسکری ادارے کو سیاست میں ملوث کرنے کے بالکل برعکس ہے جس کا واویلا حکومتی معاونین خصوصی کی فوج ظفر فوج کررہی ہے۔

درحقیقت مذاکرات کے انعقاد کے لیے حکومت کی سرپرستی ختم کرتے ہوئے خود اداروں کو سیاست سے فاصلے پر جانے کی عملی شکل اختیار کرنی ہو گئی یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ سیاست سے فاصلہ اختیار کرنے کی عملی صورت سامنے آنے کے بعد مذاکرات کی ضرورت ہی باقی نہ رہے کہ نئے حالات میں پارلیمان آزادانہ طور پر سیاسی فیصلہ کرنے میں خود مختار فعالیت اپنائے گی البتہ نئے انتخابات کے مطلوبہ مکینزم کی تشکیل کے لئے حکومت انتظامیہ اور عدلیہ کو باہمی مشاورت سے کوئی معقول بندوبست کرنا ہوگا اس عمل میں پارلیمانی بالادستی یا آئینی مثالیت میں کسی قسم کی کتر بیونت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بنیادی تقاضا ہے ملک کو بحران سے نکال کر ترقی راہ پر گامزن کرنے کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).