فتویٰ کون دے؟



مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی اور معاشرے میں بڑتی ہوئی عدم رواداری کا اہم سبب بھانت بھانت کے فتوے بھی ہیں۔ کسی بھی مدرسے کا استاد اور کم علم مولوی اٹھ کر دوسرے افراد یا کمیونیٹی کے خلاف فتوی جاری کر دیتا ہے۔ عموماً فتویٰ یا تو مخالف فرقے یا کسی فرد کے خلاف دیا جاتا ہے جس میں ذاتی عناد کارفرما ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہمارے دینی علماء ایسے معاشرتی موضوعات پر بھی فتاویٰ جاری کرتے رہتے ہیں جو مذہب کی ڈومین میں نہیں آتے۔

مثلاً ہمارے علما (غالباً اسلامی نظریاتی کونسل بھی) انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو حرام اور ناجائز قرار دے چکے ہیں۔ حالانکہ دینی علماء ناصرف یہ کہ اس جیسے جدید نوعیت کے علوم طب سے ناواقف ہوتے ہیں بلکہ یہ شعبہ بھی خالصتاً ڈاکٹر حضرات کا ہے۔ اور بظاہر عقلی دانستکی بنیاد پر پیوندکاری کے ذریعے کسی انسان کی جان بچانا کچھ معیوب نہیں لگتا۔

سب سے زیادہ نقصان دہ فتاویٰ عموماً وہ ہوتے ہیں جن میں کسی فرد یا گروہ کو اس کے کسی بیان یا نظریے کی بنا پر یا محض شک کی بنیاد پر کافر یا گردن زدنی قرار دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی جرم کی صورت میں بھی سزا دینا یا کسی کی جان لینے کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف ریاست کو حاصل ہوتا ہے افراد ایسا ہرگز نہیں کر سکتے۔ بلکہ ایسا کرنا شرعاً فساد فی الارض کے مترادف ہے۔ ایسے فتوے معاشرے میں فساد برپا کرنے کا سبب ہی بنتے ہیں۔

مزید یہ کہ ملک بھرمیں تمام مساجد اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں حکومتی ماتحتی میں ہونی چاہئیں۔ کسی کو بغیر حکومتی اجازت نامے کے مسجد، مندر، مدرسہ یا کوئی بھی دوسرے مذہب، فرقے کی عبادت گاہ بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ملک بھر کے مدارس حکومتی تحویل میں لینے چاہئیں ان کا نصاب حکومت تیار کرے۔ اساتذہ کی تقرری و تبادلے اور تربیت کا اہتمام بھی ریاست کے پاس ہونا چاہیے۔ اسی طرح تمام مساجد میں امام مسجد، موذن وغیرہ کی سرکاری سطح پہ تعیناتی ہو ان کی تنخواہ حکومت/ مقامی حکومت اداکرے۔ ان کی کارکردگی کا جائزہ اور بازپرس کرسکے اور پروموشن کا نظام بھی لایا جائے۔

اب چونکہ عوام کی اکثریت کم علم ہے لہذا وہ ایسے فتووں پہ اندھا اعتقاد کر تے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ اور ریاست میں فساد کا باعث بنتے ہیں۔ ان مرضی کی رائے کے فتووں کی وجہ سے لوگوں کے جان و مال کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ عوام کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔

فتوی جاری کرنے یا کروانے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہونا چاہیے۔ ریاست صاحب علم علماء کی کسی مجلس کو یہ ذمے داری تفویض کر سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے بہتر ہوگا قومی سطح پر ایک مجلس دارالفتاوی قائم کی جائے۔ جس میں تمام مسالک اور مذاہب کی نمائندگی ہو۔ سائنسی موضوعات پر اگر کسی فتوے کی ضرورت پڑے تو علماء کو پابند کیا جائے کہ وہ اس شعبے کے ماہرین کی آراء کے پیش نظر متفقہ فیصلہ کریں۔

کونسل معاشرے میں بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی اور امن پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر کے اس کی جگہ قومی فتاویٰ مجلس قائم ہو۔ یہ مجلس صرف اسی صورت کوئی فتویٰ یا علمی رائے جاری کرے جب حکومت اس سے کسی موضوع پر رائے طلب کرے اپنے طور پرکونسل کو فتوی جاری کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ کن موضوعات پر فتاویٰ اور رائے لی جائے گی ان موضوعات کی فہرست آئین میں شامل کی جائے۔

فتویٰ یا رائے دیتے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس فیصلے سے کسی فرد، گروہ یا کمیونٹی کے بنیادی انسانی حقوق جن کی ائین ضمانت دیتا ہے پاس رکھا جائے گا۔ مجلس کے علاوہ کسی بھی شخص یا ادارے کو مذہبی فتوی دینے یا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ جمعے کے خطبے بھی سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کی طرح حکومت کی طرف سے منظور شدہ ہونے چاہیں۔ ان کی منظوری اسی مجلس کی مشاورت سے حکومتیں دیں۔ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کی طرف یہ ایک اہم قدم ہوگا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).