کچھ ذکر شین خال کا



آسمان پہ ستورو شائستہ خکاری
لکہ لیلیٰ چی پہ مخ وہلی یی خالونہ

پشتو زبان کے اس ٹپے میں پشتونوں کے ہزاروں سال کی تاریخ سمٹی ہوئی ہے۔ ٹپہ پشتو شاعری کی ایک اہم صنف ہے۔ اس ٹپے میں شاعر اپنے محبوبہ کے رخسار پر لگے شین خال کو آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں سے تشبہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ستاروں سے مزین چمکتا ہوا آسمان ایسا لگ رہا جس طرح لیلیٰ کے رخسار پر تل لگے ہوئے ہیں۔

شین خال یعنی نیلا تل اس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ پشتون دنیا کی جس خطے میں آباد ہے۔ یہ خطہ اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا لینڈ لاک سرزمین ہے۔ ڈاکٹر عرفان بیگ کی مطابق یہ حسین لوگوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کے لوگ بہت خوبصورت ہے۔ شین خال پشتون قبائل کی خواتین کی پہچان رہی ہے۔ خواتین آنکھوں کی درمیان ماتھے پر، رخسار کی ہڈیوں پر یعنی گال پر، تھوڑی کی نیچے اور لبوں پر خال کدواتے ہیں۔ پشتون دوشیزائیں شادی سے پہلے یہ خال زیادہ تر کدواتی ہیں۔ کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ شادی کے بعد شین خال نیک شگون نہیں ہے۔ خال کے لگانے سے اس کا شوہر یا اس کے گھر میں کوئی فوت ہو سکتا ہے۔

لیکن کچھ لوگ اپنے چھوٹے بچوں کے ماتھے پر شین خال اس لیے گدواتے تھے کہ اس سے بچہ جلد نہیں مرتا بلکہ خال لگانے سے عمر زیادہ ہوجاتی ہے۔

لیکن خال مریض کے علاج کے لئے بھی کدواتے تھے۔ خاص کر رگ نسا کے لئے خال کداوئے جاتے تھے اور یہ خال اب بھی کہیں علاقوں میں بغرض علاج کدوائے جاتے ہیں۔

شین خال یعنی تل ہرخاتون یا مرد نہیں لگا سکتا ہے۔ پہلے زمانے میں خال لگانے والی خاتون تقریباً ہر محلے یا دیہات میں لازمی ہوتی تھی۔ جس سے دیہات کی نوجوان لڑکیاں یامائیں اپنی چھوٹی بچیوں کے ماتھے، گال یا تھوڑی پر خال کدواتے تھے۔

خال لگانے والی خاتون دو یا چار سوئیوں کو یکجا کر کے چہرے کی مخصوص جگہ جہاں پر خال لگانا مقصود ہوتا آہستہ آہستہ چھبواتا جب اس زخمی جگہ سے خون نکل آتا تو اس پرسرمے کی ہلکی سی مقدار اس زخم پر ڈال دیتا۔ تقریباً آٹھ گھنٹے تک وہ سرمہ اپنا رنگ نکال دیتا اور اس زخمی جگہ پر شین خال نمودار ہوجاتا ہے۔ شین خال ماضی میں سنگار کا واحد ذریعہ ہوتا تھا۔ اور شین خال خوبصورت بھی لگتا ہے۔

افغانستان، بلوچستان، سابقہ فاٹا اور خیبرپشتونخواہ میں اب ساٹھ سال سے زائد ہر تیسری بزرگ خاتون کے ماتھے، گال، تھوڑی یا ہاتھ پر خال نظر آئے گا۔ لیکن اب یہ خال ماضی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کے مختلف وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ پشتون خطے میں جنگ و جدل ہے۔ جنگوں کی وجہ سے پشتونوں کی زندگیوں میں مختلف تبدیلیاں آئیں۔ علاقہ بدر ہوئے پشتون قبائل میں سے بہت سے قبائل خانہ بدوش تھے۔

ان خانہ بدوش قبائل میں خال کدوانے کا رواج عام تھا۔ جنگوں کی بدولت اکثر خانہ بدوش قبائل نے خانہ بدوش ترک کر کے شہروں کے قریب آباد ہوئے اور کچھ لوگوں نے شہروں کو اپنا مسکن بنالیا۔

اسی وجہ سے بھی خال لگانے کی رجحان میں کمی آئی۔ دوسری طرف مذہبی طور پر بھی شین خال کو برا سمجھا جاننے لگا۔ اور لوگوں کو یہ تک ذہن نشین کروایا گیا کہ خال لگانے والا اس جہنمی کا مانند ہوگا۔ جو جہنم سے جنت میں داخل ہوگا لیکن اس کے ماتھے پر ایک شین خال ہوگا اور یہ خال اس کی پہچان ہوگا کہ یہ جنتی دوزخ سے آیا ہے۔ شین خال کے معدوم ہونے کی تیسرے وجہ جدید مصنوعی خالوں کا میک اپ کا حصہ بن جانا بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).