ووٹ کی عزت کے نعرے!


” ہم فوج سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں مگر اس سے پہلے جعلی حکومت کو گھر بھیجا جائے“ مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز کے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہے گئے یہ الفاظ سن کر اس لیے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے سیاستدان جب اقتدار سے دور ہوں تو وہ عوام کے قریب ہو جاتے ہیں انہیں عوام کا احساس بھی ہوتا ہے عوام کے ووٹ بھی یاد آتے ہیں اور ووٹ کی عزت کا خیال بھی آتا ہے مگر جب اقتدار میں ہوں، اقتدار ملنے کی امید ہو یا معاملات بہتر ہونے کی کوئی کرن نظر آئے تو انہیں ووٹر یاد رہتا ہے اور نہ ہی ووٹ کی عزت یاد رہتی ہے وہ پلک جھپکتے ہی اپنے نظریے بیانات اور بیانیے کو بدل لیتے ہیں

پاکستان مسلم لیگ نون پچھلے کچھ عرصہ سے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ لے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے موجودہ حکومت اور قومی اداروں کے خلاف برسر پیکار ہے اقتدار کے دوران سے لے کر جب ان کے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں اب تک مسلم لیگ نون بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر فوج کو نشانہ بنا رہی ہے یہاں تک کہ گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے پہلے جلسے میں مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف اور آئی ایس آئی کے چیف کے خلاف نام لے کر مختلف الزامات عائد کیے اور بارہا سب کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کی بات کی اس سے پہلے وہ متعدد بار سینے میں موجود راز افشا کرنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں اسی دوران مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے فوج کے خلاف ایک متنازعہ بیان نے بھی ملک میں ایک بحران پیدا کر دیا جس کی آئی ایس پی آر کو تردید کرنا پڑی۔

دوسری طرف پی ڈی ایم میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپنے الگ الگ بیانات میں مریم نواز کے بیان کے رد عمل میں کہا کہ اگر بات چیت ہوگی تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہی ہوگی جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے انہیں بھی فوج سے بات چیت اور مذاکر ات پر کوئی اعتراض نہیں مگر وہ مسلم لیگ نون کی سولو فلائیٹ کے خلاف ہیں یعنی پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں ایک منتخب حکومت کے خلاف فوج سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں تو پھر کون سا نظریہ کون سا آئین کون سی جمہوریت کہاں کا پارلیمنٹ کا تقدس اور کہاں کی ووٹ کی عزت؟

سوال یہ ہے کہ آئین کی وہ کون سی شق ہے جو ایک منتخب حکومت کو گرانے کے لیے فوج سے مدد طلب کرنے کی اجازت دیتی ہے اور وہ کون سی شق ہے جو سیاسی معاملات پر فوج سے مذاکر ات کی اجازت دیتی ہے اگر سب کچھ آئین کے تحت ہونا ہے تو قوم پر بھی تو آئین کی وہ شق واضح ہونی چاہیے جو ووٹ کی عزت سے فوج سے مذاکر ات تک سیاستدانوں کو جواز فراہم کرتی ہے مگر تلخ حقیقت یہی ہے اس ملک میں کبھی بھی ووٹ کو عزت نہیں دی گئی اور آج بھی ووٹ کو عزت دینے کی بات صرف اس وقت تک کے لیے کی جا رہی ہے جب تک ان کے ذاتی معاملات ٹھیک نہیں ہوتے۔

تاریخ گواہ ہے جب بھی فوج نے سیاست میں مداخلت کی یا جمہوریت پر شب خون مارا یہی سیاستدان ان کے سب سے بڑے سہولت کار ہوتے ہیں جو بعد میں جمہوریت کے چیمپئن بھی بن جاتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ جو آج کل فوج کے خلاف بیان دے کر ہیرو بننے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ضیاء الحق کی نرسری میں پروان چڑھے اور ان کے منہ بولے بیٹے بن کر اقتدار کے مزے لوٹے اور یہ رفاقت بعد ازاں کافی سالوں تک چلتی رہی اور اسی بل بوتے پر محترمہ بینظیر بھٹو کی کردار کشی بھی کی جاتی رہی۔

اسی طرح تحریک انصاف کے اہم اتحادی مسلم لیگ ق کے چوہدری برادران مشرف کے دور میں طویل عرصہ تک مشرف با اقتدار رہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ سے ایک باوردی صدر منتخب کرایا اور انھوں نے برملا طور پر یہ کہا کہ ہم دس مرتبہ باوردی صدر منتخب کرانے کے لیے تیار ہیں اس وقت باوردی صدر کو ووٹ دینے والے اراکین اسمبلی کی اکثریت آج تحریک انصاف سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتوں میں موجود ہے مگر اس کے باوجود اپوزیشن ووٹ کو عزت دینے کی بات کر رہی تھی تو خوشی ہو رہی تھی اور امید کی ایک کرن جنم لے رہی تھی کہ ممکن ہے سیاستدان اپنے پرانے داغ دھونے کے تیار ہوچکے ہوں اور آنے والے وقت میں ممکن ہے اس ملک کو حقیقی جمہوریت نصیب ہو جائے اور واقعی اس ملک میں ووٹ کو عزت مل جائے مگر مریم نواز کے اس بیان کے بعد ووٹ کی عزت کے نعرے کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ’پارلیمنٹ کا استحکام اور جمہوریت کی مضبوطی صرف اسی صورت ممکن ہے جب عملی طور پر ووٹ کو عزت دی جائے گی مگر یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاستدان اپنے مفادات کی خاطر ووٹ کو عزت دینے کے نعرے گا کر ووٹ کی عزت پامال کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).