خادم رضوی اور مذہبی شدت پسندی


انسان کا عقیدہ، اس کی اندرونی و بیرونی شخصیت کو تشکیل دیتا ہے۔ عقیدہ یعنی وہ افکار و نظریات جن کا انسان معتقد ہو۔ یہ افکار و نظریات چونکہ انسان پر غالب ہوتے ہیں اس لیے اس کا عمل انہی کا عکس ہوتا ہے۔ عقیدہ و نظریہ ٹھیک ہو تو عمل ٹھیک، عقیدہ و نظریہ خراب ہو تو عمل خراب۔ خاص طور پر جب مذہبی عقائد کی بات آ جائے تو انسان جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اسی کو صحیح اور ناقابل تبدیل سمجھتا ہے، اور اس عقیدے کی حفاظت کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتا ہے۔

یہ بات بہت بنیادی ہے، لیکن ہمارے ریاست و سیاست دانوں کو سمجھ نہیں آتی۔ جس تحریک و احتجاج کی بنیاد انسان کے مذہبی عقائد ہوں، انہیں کسی صورت زور زبردستی سے نہیں ختم کیا جاسکتا۔ بلکہ زور زبردستی کا نتیجہ اکثر الٹا نکلتا ہے جب عوام میں نا انصافی کا تاثر (پرسیپشن آف انجسٹس) پیدا ہوتا ہے اور انہیں لگنے لگتا ہے کہ ریاست ان کے مذہبی جذبات کی مخالف ہے اور انہیں کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

خادم رضوی کے ذاتی مقاصد جو بھی ہوں، کسی کی کٹھ پتلی ہو یا نہ ہو، اس کے پیچھے چلنے والے کارکنان اس کے نہیں بلکہ اس عقیدے کے پیچھے چل رہے ہیں جسے خادم رضوی نے زبان دی ہے : ناموس رسالت۔ آپ فیض آباد دھرنے کی تصاویر دیکھیں۔ وہ کیا ہے جس نے ان پندرہ بیس ہزار لوگوں کو بارش اور سردی میں بٹھا رکھا ہے؟ ان کا عقیدہ، ان کا نظریہ جسے وہ صحیح سمجھتے ہیں۔ چونکہ عقیدے کو زبان دینے والے کے عمل میں تشدد ہے، لیڈر کے عمل میں تشدد ہے، اس لیے پیروکار اسی تشدد کو درست سمجھ رہے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی پر کی جانے والی تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ اکثر نوجوان اس وقت شدت پسند بن جاتے ہیں جب انہیں لگے کہ ان کے فرقے کے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے۔ فیض آباد دھرنے کے شرکا کی گفتگو سنیں، ان کی باتوں سے یہی کچھ سننے کو ملے گا۔

اس مسئلے کا حل کسی طور، کسی بھی طور شیلنگ یا پتھراؤ یا گرفتاریاں نہیں ہیں۔ یہ مجمع کو منتشر کرنے کی وقتی تدابیر ہو سکتی ہیں لیکن دور رس نتائج نہیں دے سکتیں۔ آپ جتنے زور سے انہیں دبائیں گے، وہ اتنی ہی شدت سے واپس اوپر آئیں گے۔ میں خادم رضوی کی بات نہیں کر رہی کہ اس کے اور اس کے لانے والوں کا ہدف بالکل جدا ہے، میں ان پندرہ ہزار پاکستانیوں کی بات کر رہی ہوں جو اس وقت ایک مذہبی شدت پسند کے ہاتھوں ذہنی یرغمال بنے بیٹھے ہیں۔

پاکستان سے اگر مذہبی شدت پسندی ختم کرنی ہے تو صرف اور صرف، اور صرف تین کام کیے جانے چاہیں، فوری طور پر کیے جانے چاہیں، ہنگامی بنیادوں پر کیے جانے چاہیں۔

الف۔ قومی نصاب سے شدت پسندی پر مشتمل مواد ختم کیا جائے اور اس کی جگہ رواداری و مذہبی ہم آہنگی پر مبنی مواد شامل کیا جائے۔ نصاب کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بھرتی کے طریقے واضح کیے جائیں اور ان کی کلاس روم مانیٹرنگ ہو کہ وہ اپنے مضمون پر کتنی دسترس رکھتے ہیں، اور یہ کہ وہ اپنے مضمون سے ہٹ کر کیا پڑھا رہے ہیں۔ یہ کلیہ صرف سرکاری سکولوں پر نہیں دینی مدرسوں پر بھی لاگو کیا جائے۔

ب۔ سرکاری سطح پر قومی تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ قوموں کی تربیت ہمیشہ ریاست کا کام ہوتی ہے، جس کی طرف ہمارے ہاں کوئی توجہ نہیں۔ تربیت کیسے؟ میڈیا کے ذریعے، پاپولر (یا پوپ) کلچر کے ذریعے، سیاستدانوں کے ذریعے۔ فکشن، موسیقی، فلمیں، ڈرامے، گیمز پوپ کلچر تشکیل دیتی ہیں۔ اس کو یوں سمجھیں کہ جس ملک میں وزیر اعظم کی طرف سے ارطغرل جیسے جہادی ڈرامے دیکھنے کی ترغیب ہو وہاں سے خود ساختہ غازی ہی نکلیں گے۔

ج۔ کالعدم دہشتگرد شدت پسند جماعتوں کے بارے ریاست کو واضح اور دو ٹوک موقف رکھنا ہو گا۔ ان کے یوتھ ونگز کو فوری طور پر بند کرنا ہو گا۔ ان کی اشاعت و تقسیم پر مکمل پابندی لگانا ہو گی۔ ان کے سوشل میڈیا چینلز فوری بند کرنے ہوں گے ۔ ان کے رہنماؤں پر مکمل پابندی عائد کرنی ہو گی۔

یہ تین نسخے مشکل ہیں، ناممکن نہیں، یہ فوری توجہ کے لائق ہیں اور ان کے نتائج پانچ سالوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اگر ان نکات کو حسب سابق نظر انداز کیا جاتا رہا، تو اس کے نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).