فلاحی اداروں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے



حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کہتے ہیں کہ انسان کو زندگی کی کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدمت خلق کو اپنا شعار نہ بنائے۔

فلاحی ادارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی مشکل آن پڑے یا حکومت عوامی فلاح و بہبود کے معاملات کو نظرانداز کرے تو یہ ادارے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔ یہ فلاحی تنظیمیں معاشرے کا حسن ہوتے ہیں۔ تاریخ کی اولین داستانوں سے لے کر موجودہ دور تک ایسے کئی ادارے یا شخصیات ہیں جو حکومت وقت کا سہارا بنتے ہیں اور عوام الناس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرتے ہیں۔

یہ ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے لیے بھی اپنی خدمات دیتے ہیں۔ چاہے کوئی ملک پسماندہ ہو، ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، ان اداروں کی موجودگی وہاں اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ فلاحی اداروں کا موجود ہونا ملک و قوم کی ترقی کے لیے راستے ہموار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں بھی بے شمار فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں۔

ان اداروں کی تشکیل کے پیچھے کسی نا کسی شٰخص کا ایک خواب چھپا ہوتا ہے جو ان کے قیام کی وجہ بنتا ہے۔ جیسا کہ ریڈ کراس جو کہ پاکستان میں ”ہلال احمر“ کے نام سے کام کر رہا ہے کے قیام و تنظیم کی ضرورت محسوس کرنے والا سوئٹزرلینڈ کا ایک شہری ڈوننٹ تھا۔ اس نے ایک کتابچے میں جنگ کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے ان سپاہیوں کی حالت زار خاص طور پر بیان کی تھی جو جنگ میں زخمی ہوئے تھے لیکن طبی امداد سے محرومی کے باعث سسک سسک کر مر گئے۔

ڈوننٹ نے دنیا بھر کے ملکوں سے اپیل کی کہ وہ جنگ میں زخمی ہونے والوں کی خبر گیری اور علاج معالجے کا کوئی موثر انتظام کریں۔ آج یہ ادارہ دنیا بھر میں کام کر رہا ہے۔ مختلف ممالک میں یہ فلاحی ادارے صحت، تعلیم، صاف پانی کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور خوراک کی تقسیم جیسے عظیم مقاصد پر کام کر رہے ہیں جو درحقیقت حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ان فلاحی اداروں سے منسلک افراد دن ہو یا رات آندھی ہو یا بارش یا وبائی امراض ہوں، یہ بہادر لوگ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور صرف انسانی خدمت کو یاد رکھتے ہیں اور خدمت و فلاحی کاموں کو اہمیت دیتے ہیں اور خدمت کے کاموں کو عملی طور پر جاری رکھتے ہیں تاکہ دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی معیشت اکثر خسارے میں رہتی ہے۔ ملک کا نظام چلانے کے لئے حکومتوں کو اندرونی اور بیرونی مالی اداروں قرض لے کر گزارا کرنا پڑتا ہے اور پھر اس پر سود کی شرح بڑھنے پر عوام پر ٹیکسز کا نیا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جون 2018 تک تقریباً سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی گزار رہے تھے اور اس سال جون تک یہ تعداد بڑھ کر آٹھ کروڑ ستر لاکھ تک جا پہنچی ہے۔

آبادی کے اس بڑے حصے کی مدد اور دیکھ بھال کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ ریاستی ادارے بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن جب حکومت وقت ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے تو یہ فلاحی ادارے اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کے اندر کئی فلاحی ادارے اللہ کی مخلوق کی خدمت کا فرض ادا کر رہے ہیں جن میں ایدھی ٹرسٹ، چھیپا، سیلانی اور دیگر فلاحی ادارے شامل ہیں۔ یہ سب انتہائی قابل تعریف اور قابل احترام ادارے ہیں۔

فلاحی ادارے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر کے ان متاثرین کی مشکلوں کو حل کر رہے ہیں۔ یہ ادارے ملکی سطح پر کام کرتے ہیں اور کچھ ادارے علاقائی سطح پر ان نیک کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ ہمارے آس پاس کئی شخصیات ہیں جو لوگوں کی مشکلات کو حل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان میں جتنی استطاعت ہو وہ فلاحی کاموں میں مصروف رہ کر اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ غریبوں کی دعائیں بھی سمیٹتے ہیں۔ بڑے شہروں میں اپنے دفاتر قائم کرنے اور فلاحی کاموں میں مصروف عمل تنظیمیں چھوٹے شہروں یا قصبوں تک رسائی حاصل نہیں کرتیں اور وہاں موجود ضرورت مند افراد امداد کی راہ تکتے رہتے ہیں۔

اس لیے تحصیل یا ضلع کی سطح پر کام کرنے والی تنظیمیں بھی اپنا خاص مقام رکھتی ہیں۔ ایسی ہی ایک آرگنائزیشن جڑانوالہ میں ”چوہدری یعقوب باجوہ ویلفئیر ٹرسٹ“ کے نام سے کر رہی ہے۔ یہ فلاحی تنظیم خواتین کو سلائی مشینیں فراہم کرتی ہے تاکہ وہ معاشرے کا مفید رکن بن کر اپنے ہنر سے گھر کا نظام چلا سکیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ دسترخوان لگا کر ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا اور ہر سال ماہ رمضان میں سحر و افطار کا خاص اہتمام بھی کرتی ہے۔

ایسی تنظیموں کے ہونے سے کسی بھی مشکل میں رفاہی کاموں کا دائرہ کار گلی محلوں تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ایسے بہت سے ادارے ہیں جو اپنی استطاعت کے مطابق دکھی انسانیت کی خدمت اور مسائل میں گھرے آبادی کے حصے کو بنیادی انسانی ضروریات فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور ان کے وسائل میں اضافے کے لیے عطیات کی فراہمی کو ممکن بنانا اور ان کا ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ کرونا کی وبا کے بعد لاک ڈاؤن کے دوران ان تنظیموں نے لاکھوں خاندانوں کو راشن فراہم کیا ہے۔

لیکن موجودہ حالات اور درپیش چینلجز کی وجہ سے ایسے فلاحی اداروں کا دائرہ کار مختصر ہو رہا ہے، ان کے فنڈز میں کمی آ رہی ہے جس کے باعث بہت سے محتاجوں کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ان فلاحی اداروں کو مضبوط کیا جائے اور ان کی معاونت کی جائے تاکہ کوئی غریب انسان کسی کے دروازے پر کشکول تھامے نا کھڑا ہو بلکہ اس کی ضرورت اس کے دروازے پر پوری ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).