یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟



ایسا کیوں ہے کہ دنیا میں وقت کا پہیہ آگے کی جانب چل رہا ہے اور یہاں پیچھے کی جانب۔ گھڑیال کی سوئیاں خود کو دھکیلتے ہوئے پیش قدمی کرنا چاہتی ہیں مگر واپس لوٹ جاتی ہیں۔ پاؤں آگے بڑھتے ہی نہیں کہ پیچھے پلٹ جاتے ہیں۔

ہم ایسے کیوں ہیں؟ ہم باقی دنیا جیسے کیوں نہیں؟
وقت اور حالات نے نہ ہمیں کچھ سکھایا اور نہ ہی ہم کچھ سیکھنے کو تیار۔

وہی فیض آباد کا مقام اور وہی در و بام۔ وہی خادم و مخدوم کا قصہ۔ وہی دھرنا، وہی نام، وہی سلام اور وہی کام۔ وہی تیر، وہی کمان۔

یہ ہے ہمارا پیارا پاکستان۔

اس بار یہ سوال عام ہے کہ اب پھر کیوں؟ نہ سول ملٹری تناؤ، نہ پنڈی اسلام آباد میں کھچاؤ، منتوں مرادوں سے لائی گئی ایک صفحے کی حکومت، ایک بیانیہ اور ایک تحریر۔ پھر یہ حادثہ کیوں کر ہوا؟ آخر اس کی پرورش بھی تو سالوں ہوئی ہو گی۔ حادثے بہرحال اچانک نہیں ہوا کرتے۔

یہ گتھی سلجھ کر ہی نہیں دے رہی کہ خادم صاحب سے کسی اور کا نہیں ریاست کا معاہدہ تھا۔ وہ منظر تو آج بھی آنکھوں میں ہے جب دھرنے کے شرکا کا اس قدر خیال رکھا گیا کہ انھیں واپسی کا کرایہ تک تھمایا گیا۔ ریاست ماں کے جیسی کا بہترین نظارہ وہیں دیکھنے کو ملا۔

چلیں وہ حکومت تو ایک صفحے والی تھی اور نہ ہی ایک سیاہی والی بلکہ یوں کہیے کہ وہ حکومت قلم دوات کے بغیر تھی سو سمجھ میں آ گیا مگر اب ایسا کیا ہوا؟

دھرنے میں مقبول ہونے والی جماعت نے سنہ 2018 کے انتخابات میں مکمل شرکت کی اور نون لیگ کے حلقوں میں جتوانے کی نہ سہی مگر ہروانے کی سیاست کو بڑی کامیابی کے ساتھ یقینی بنایا۔

یہ سوال ستائے جا رہا ہے کہ اب ایسا کیا ہوا کہ لمحوں ہی لمحوں میں بغیر راہنما کے کئی ہزار کا جلوس سڑک پر موجود، اس بار نہ شیخ رشید صاحب جوش جذبات میں وہاں پہنچے اور نہ ہی تحریک انصاف کے جذبہ ایمانی نے جوش مارا۔

ریلی دھرنے میں بدلی، نہ کسی چینل نے دکھانے کی زحمت کی اور نہ ہی کسی نے اسلام آباد کی یخ بستہ ٹھنڈک میں دھرنے کے شرکا میں کھانا پہنچانے میں دلچسپی لی۔ ان کانوں نے تو یہاں تک سنا کہ اس بار دھرنے کا وہ مزا کہاں جو ماضی میں ہوا کرتا تھا۔

ماضی کے دھرنوں کے کیا کہنے! ادھر دھرنے کی آواز آئی ادھر ’جذباتی‘ چینلوں نے صدا لگائی۔ کہیں اپنے شہریوں سے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ٹویٹ اور کہیں حکومت کی رٹ پر سوال۔ یہ دھرنا بھی کوئی دھرنا تھا؟

ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی ریہرسل ہو کسی پرانے سکرپٹ کی کچھ نئے کرداروں کے خلاف۔ طاقت کے اس نئے مرکز کو بہرحال ہلکا نہیں لینا چاہیے۔

جناب جو فصل برسوں تیار کی گئی ہے وہ اب بھی محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ موقع اور محل کے اعتبار سے اس کا پھل کھایا جا سکتا ہے۔ ایک صفحے کی حکومت ہو یا پوری کتاب کی۔ اس کتاب کی ہر تحریر مختلف ہے سمجھ میں نہ آنے والی، ناقابل فہم اور لایعنی۔

دعا کیجیے کہ ہم حالات سے ہی کچھ سیکھ جائیں، دنیا ہمیں بے کسی سے نہیں بے بسی سے دیکھ رہی ہے۔ جون ایلیا کا یہ شعر ایسے حالات میں کبھی نہیں بھولتا۔

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).