افغانستان، عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلا: صدر ٹرمپ ’مزید امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کا آرڈر‘ جاری کریں گے


امریکی فوج
امریکی میڈیا کے مطابق انخلا کا منصوبہ جو بائیڈن کے صدر کا حلف اٹھانے سے کچھ دن قبل یعنی 15 جنوری تک مکمل ہونے کی توقع ہے
امریکی میڈیا نے دفاعی عہدیداروں کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ توقع ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان اور عراق سے مزید فوجیوں کے انخلا کا حکم دیں گے۔

حکام نے بتایا کہ جنوری کے وسط تک افغانستان میں فی الحال موجود پانچ ہزار امریکی فوجیوں کی تعداد کم کر کے ڈھائی ہزار کر دی جائے گی جبکہ عراق سے پانچ سو امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد وہاں موجود فوجیوں کی تعداد 2500 رہ جائے گی۔

صدر ٹرمپ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ کرسمس تک ’تمام‘ فوجیوں کو وطن واپس لانا چاہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے تین نومبر کے صدارتی انتخاب میں شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق، انخلا کا یہ منصوبہ جو بائیڈن کے صدر کا حلف اٹھانے سے کچھ دن قبل یعنی 15 جنوری تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔

لیکن صدر ٹرمپ کے فوجیوں کے انخلا کے اس منصوبے کو ان کے ساتھی رپبلکن اور سینیٹ کے لیڈر مِچ میکونل کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مچ نے خبردار کیا تھا کہ عسکریت پسندوں کو یہ منصوبہ پسند آئے گا۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان نے افغانستان سے ’امریکی فوج کے انخلا میں جلدبازی‘ نہ کرنے کا مشورہ کیوں دیا؟

افغان لویہ جرگہ کی 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری، پاکستان کا خیر مقدم

’نہ کبھی اتحادیوں کو بھولیں گے، نہ 9/11 کو‘ مائیک پومیو

عراق: امریکہ فوج کے انخلا کا طریقۂ کار طے کرے

افغان جہاد میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟

پیر کو ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے سینیٹر مچ نے کہا تھا کہ ’ہم دہشت گردوں کے خلاف امریکی قومی سلامتی اور امریکی مفادات کے دفاع میں ایک محدود لیکن اہم کردار ادا کر رہے ہیں، (شدت پسند) یہی چاہیں گے کہ دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور فوج اپنا سب کچھ سمیٹ کر گھر واپس لوٹ جائے۔ وہ یہی تو چاہتے ہیں۔‘

صدر ٹرمپ، طویل عرصے سے امریکی فوجیوں کو وطن واپس لانے کے اعلانات کرتے آئے ہیں اور انھوں نے ان ملکوں (عراق اور افغانستان) میں امریکہ کی فوجی مداخلت کو مہنگا اور غیر موثر ہونے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

ایسوسی ایٹ پریس نیوز ایجنسی نے فوجی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوجی رہنماؤں کو ہفتے کے آخر میں انخلا کے اس منصوبے کے بارے میں بتایا گیا۔ ایجنسی کے مطابق ایک ایگزیکٹیو آرڈر تیار کیا جا رہا ہے تاہم ابھی تک اسے فوج کی سینیئر کمان کو نہیں بھیجا گیا ہے۔

ستمبر میں پینٹاگون نے اعلان کیا تھا کہ وہ عراق سے اپنی ایک تہائی سے زیادہ فوجیوں کو ہفتوں کے اندر اندر وطن واپس لے آئیں گے۔

اُس وقت مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے کمانڈر جنرل کینتھ میک کینزی نے کہا تھا کہ باقی رہ جانے والے فوجی، عراقی سکیورٹی فورسز کو شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی ’باقیات کو ختم کرنے‘ کے لیے مدد فراہم کرتے رہیں گے۔

امریکہ کی زیر قیادت افواج نے سنہ 2003 میں صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے عراق پر حملہ کیا تھا، تاہم ان ہتھیاروں کا کوئی وجود نہیں ملا تھا۔

طالبان

امریکہ نے اس سال کے شروع میں طالبان سے امن معاہدے کے ایک حصے کے طور پر افغانستان سے فوجیوں کا انخلا شروع کیا تھا

امریکی افواج سنہ 2001 سے افغانستان میں ہیں۔ امریکہ کی زیر قیادت اتحاد نے 11 ستمبر 2001 کے صرف چند ہی ہفتوں بعد طالبان کو افغانستان سے بے دخل کر دیا تھا۔

لیکن طالبان دوبارہ منظم ہو گئے ہیں اور ایک شورش پسند قوت بن گئے جو سنہ 2018 تک ملک کے دوتہائی سے زیادہ حصے میں سرگرم عمل رہے ہیں۔

امریکہ نے اس سال کے شروع میں طالبان سے امن معاہدے کے ایک حصے کے طور پر افغانستان سے فوجیوں کا انخلا شروع کیا تھا۔

فوجیوں کی واپسی اس تاریخی معاہدے کی شرط تھی جس پر 29 فروری کو امریکہ اور طالبان نے دستخط کیے تھے۔

تاہم جنرل مک کینزی سمیت فوجی سربراہوں نے ماضی میں بھی متنبہ کیا ہے کہ جلد بازی میں کیے گئے امریکی انخلا سے طالبان اور افغان حکام کے مابین امن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp