آزادی، مگر کس سے؟


انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ آزاد رہنا چاہتا ہے۔ آزادی ایسی فطری عمل ہے، جیسے ہر جاندار پسند کرتا ہے اور اس کے برعکس قید و بند کسی کے لئے قابل قبول نہیں۔

آزادی ہمیشہ وہی لوگ طلب کرتے ہیں، جنہیں پہلے یہ احساس ہو جائے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی آزادی کے لئے جستجو کرتے ہیں۔

آزادی کی کوئی جامع تعارف یہاں پر تو نہیں، بلکہ اس کا معیار سب کے لیے جدا جدا ہے۔

اگر ایک پرندہ پنجرے میں قید ہے، تو پنجرے سے رہائی اس کی آزادی کی ضمانت ہے۔ اس طرح اگر ایک قوم دوسرے اقوام سے جدا ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ اس کی آزادی تصور کی جاتی ہے۔

آزادی چاہنا تو انسان کی خواہشات میں سے ایک دیرینہ خواہش ہے۔ چاہیے وہ ایک بیٹے کا اپنے والد سے آزاد رہنے کا مطالبہ ہی کیوں نہ ہو، یا اسی طرح ایک مشرقی طرز زندگی میں ایک لبرل لیڈی کا آزادی کا مطالبہ ہی نہ ہو۔

یہاں پہ سوال زیر بحث آتا ہے کہ یہ آزادی مگر کس سے؟
فیزیکل ہم تو کوئی قید و بند محسوس نہیں کرتے، پھر کیا ہم ذہنی طور پر قید ہے؟
دراصل انسان جس چیزوں سے آزادی مانگتا ہے۔ وہ محض اس کی راہ میں رکاوٹ اور ایک بہانہ ہے
اصل میں اپنے خواہشات سے کچھ بڑھ کر مانگنے کا نام آزادی ہے۔

دنیا میں ہر انسان کے لئے کچھ اقدار اور پابندیاں مقرر کیے گئے ہیں، تا کہ وہ ایک معاون معاشرتی زندگی بسر کر سکیں۔

زیادہ تر پابندیاں انسان پر اس کے مذہب، تہذیب و تمدن اور معاشرتی نظام کی وجہ سے لاگو ہے۔

اگر عام طور پر کوئی بری حرکت نہیں کرتا، تو یہ مندرجہ بالا پہلو کی تناظر میں وہ برائی کرنے سے دستبردار ہوتا ہے۔

یہ سب پابندیاں ہم اپنے آپ سے ہٹا بھی دیں، لیکن پھر بھی ایک بہترین طرز زندگی سے محروم رہیں نگے۔

تمام مذہبی، معاشرتی اور تہذیبی رکاوٹیں آزادی کے لئے اگر ہم عبور بھی کر لیں نگے تو آزادی ممکن ہے، مگر پھر ہمیں ہم جیسے انسان ملنا مشکل ہو جائے گا۔

ہم سب جب دنیا کے تمام تر احساس و جذبات سے آزاد ہو جائے، تو یہ ایک آئیڈیل دنیا بن جائے گی۔ حقیقت میں ایسی دنیا کی تصور ممکن نہیں۔

یہاں پر آزادی کسی حد تک کی فلاسفی تھوڑی بہت کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ جبکہ اس کے لئے معیار اور حد درجہ بندی ہونی چاہیے۔

جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے، آئیڈیل آزادی تو کبھی ممکن نہیں، لیکن انسان کی جو بنیادی اصول ہے، اس پر کبھی رعایت نہیں کرنی چاہیے۔

انسان کو جننا ہے اور اس سے اپنی خوشی سے جینا ہے۔ آزادی کے بارے میں میرے خیالات اور نظریات سے ہزاروں بار اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).