تحریک لبیک پاکستان: حکومت کے مذہبی و سیاسی جماعت سے ’کامیاب‘ مذاکرات اور معاہدے پر سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے


پاکستان میں حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان ’کامیاب‘ مذاکرات اور چار نکاتی معاہدے پر اتفاق کے بعد کئی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا ایک سیاسی و مذہبی گروہ اس طریقے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنی شرائط منوا سکتا ہے۔ جبکہ بعض افراد اسے حکومت و انتظامیہ کی بہتر حکمت عملی سمجھ رہے ہیں۔

اس معاہدے کا اعلان تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے کیا گیا ہے جس کے تحت ’حکومت دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمان سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے گی‘ اور یہ کہ پاکستان میں ’تمام فرانسیسی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا۔‘

یاد رہے کہ فرانس میں پیغمبر اسلام کے متنازع خاکوں کی اشاعت کے بعد تحریک لبیک نے اتوار کو راولپنڈی میں لیاقت باغ سے فیض آباد تک ریلی نکالی تھی، تاہم پولیس کے بعد جھڑپوں کے بعد اتوار کی شب کو یہ ریلی دھرنے کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ اتوار اور پیر کو اسلام آباد اور راولپنڈی میں اہم شاہراہیں بند رہیں جبکہ شہریوں کو موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی معطلی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟

خادم حسین رضوی کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟

فیض آباد دھرنا ختم: حکومتی ’معاہدے‘ کے بعد ٹریفک اور موبائل سروس بحال

حکومت اور تحریک لبیک میں معاہدہ کیسے ہوا؟

فیض آباد دھرنے کے دوران تحریک لبیک نے پیر کی صبح تک یہ مؤقف اپنایا کہ تاحال حکومت کی طرف سے کوئی بھی ان سے مذاکرات کے لیے نہیں پہنچا۔ دوسری طرف راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق تحریک لیبک کی مقامی قیادت نے اس احتجاجی ریلی کے انعقاد کے سلسلے میں ضلعی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت نہیں لی تھی۔

لیکن پھر پیر کی شب اچانک فریقین کے درمیان ’کامیاب‘ مذاکرات اور معاہدے کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا۔

ترجمان وزارت مذہبی امور عمران صدیقی کے مطابق خود وزیر اعظم عمران خان نے وزیر مذہبی امور کو مذاکرات کا ٹاسک دیا تھا جبکہ مذاکرات میں وزیر داخلہ بریگیڈیئر سید اعجاز شاہ، وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر، سیکریٹری داخلہ اور کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی بھی شامل تھے۔

تحریک لبیک کی جانب سے شیئر کردہ اس معاہدے کے مطابق، مذاکرات میں ان چار نکات پر اتفاق ہوا:

  1. حکومت دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے گی
  2. فرانس میں پاکستان کا سفیر بھی نہیں لگایا جائے گا
  3. تمام فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا
  4. تمام کارکنان کی رہائی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا

اس کی کاپی سوشل میڈیا اور مقامی ذرائع ابلاغ پر گردش کر رہی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک سادہ کاغذ پر چار نکات اور دونوں فریقین میں نمائندوں کے نام درج ہیں۔

ہم یہ فلم اب کئی بار دیکھ چکے ہیں

مقامی نیوز چینلز کے ساتھ ساتھ ٹوئٹر اور فیس بُک پر بھی حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات پر مختلف نوعیت کے تبصرے جاری ہیں۔

جہاں کچھ سوشل میڈیا صارفین اسے حکمراں جماعت تحریک انصاف کی کامیابی قرار دے رہے ہیں وہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک سیاسی و مذہبی گروہ حکومت کو خارجہ امور پر ’کیسے حکم دے سکتا ہے؟‘

فدا جتوئی نامی صارف نے اس معاہدے پر اپنے اعتراضات ایک ٹویٹ میں شکل میں لکھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک وزیر داخلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیسے طے کر سکتا ہے؟‘

ایک صارف نے لکھا کہ اگر فرانس میں بعض لوگ ’دوبارہ اسلام مخالف مواد شائع کرتے ہیں تو ہم کیا کریں گے؟ بالآخر ہم وہاں بسنے والے تمام پاکستانیوں کو واپس بلا لیں گے؟‘

دی ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ذمہ داریاں نبھانے والے مائیکل کوگلمین نے معاہدے کو حکومت کی شکست قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم یہ فلم اب کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ ٹی ایل پی کی جیت کے ساتھ ہم اب یہ فلم بار بار دیکھتے رہیں گے۔‘

صحافی طلعت حسین کا بھی یہی موقف ہے کہ ’خادم رضوی نے عمران خان حکومت سے اپنے تمام مطالبات منوا لیے ہیں۔‘

ٹوئٹر صارف فراز کا اس سب پر کہنا تھا کہ ’پاکستان کبھی بھی ایک بڑی معیشت سے اپنے تعلقات اتنے خراب نہیں کرے گا۔۔۔ جھوٹا وعدہ ہونے کے باوجود حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔‘

عمیر مالک نے حکومت، تحریک لبیک معاہدے کو ’لالی پاپ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طریقہ کار سے یہ رجحان بڑھ جائے گا۔ ’حکومت نے اپنی کمزوری دکھائی ہے۔‘

فیصل نقوی کہتے ہیں کہ کسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے ’پاکستان کو کسی قانون کی ضرورت نہیں۔۔۔ اس لیے امید ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔‘

’انتظامیہ نے بحران سے بچا لیا‘

دوسری طرف ایسے صحافی اور سوشل میڈیا صارفین بھی ہیں جو حکومت اور انتظامیہ کو ’کامیاب مذاکرات‘ اور ’بحران سے بچانے‘ پر ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔

صحافی معید پیرزادہ نے لکھا کہ ’مبارک ہو! اسلام آباد انتظامیہ نے ٹی ایل پی کی صورتحال کو مذاکرات کے ذریعے حل کر دیا۔ امید ہے کہ بھولے مظاہرین اب واپس چلے جائیں گے۔

’منگل سے کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق ہو جائیں گی۔‘

انھوں نے ایک دوسری ٹویٹ میں کہا کہ انتظامیہ نے شہریوں کو ایک بحران جیسی صورتحال سے بچا لیا ہے۔

اسی طرح صحافی کامران خان نے لکھا کہ صبح اسلام آباد میں معمولات بحال ہو گئے ہیں۔

’ایک اور فیض آباد دھرنا پُرامن ماحول میں براستہ مذاکرات ختم۔‘

یاد رہے کہ اس جماعت نے سنہ 2017 میں بھی دھرنا دیا تھا اور حکومت سے ایک معاہدے کے بعد دھرنا ختم کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp