گلگت بلتستان الیکشن میں بھی دھاندلی کا شور


گلگت بلستان میں ہونے والے الیکشن بھی متنازع ہو گئے اور اپوزیشن کی تین بڑی پارٹیوں نے ان الیکشنز میں قبل از الیکشنز، دوران ووٹنگ اور ووٹنگ کے بعد منظم اور سنگین دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ ادھر حکمران جماعت کے ترجمان اور وزرا ان الیکشنز کو وزیراعظم پاکستان اور ان کی پالیسیوں پر عوام کے بھرپور اعتماد سے تعبیر کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں 1971 سے الیکشنز ہو رہے ہیں مگر اس بار ان الیکشنز کے حوالے سے جس قدر جوش و خروش، گرم جوشی اور چہل پہل دکھائی گئی اور جس طرح سوشل، پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا پر ہیجان برپا کیا گیا یہ سب پہلی بار دیکھنے میں آیا۔ حکمران پارٹی اور اس کے بہی خواہوں نے تو اس الیکشن کو پی ڈی ایم اور خاص طور پر نون لیگ کے بیانیے کے خلاف ریفرنڈم قرار دیا تھا اورجونہی رزلٹ آنا شروع ہوئے، پارٹی کے ترجمانوں نے گلگت بلتستان کے عوام کی طرف سے نون لیگ کے بیانیے کو دفن کرنے کے طعنے دینا شروع کردیے تھے۔

جو لوگ اس طرح کے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں وہ گلگت بلستان اور آزادکشمیر کی سیاست کی حرکیات سے نا آشنا ہیں۔ ان علاقوں میں ہمیشہ حکومت اس پارٹی کی بنتی رہی ہے جس کی مرکز میں حکومت ہو۔ اس حوالے سے اگر حکمران پارٹی کی کارکردگی کو پرکھا جائے تو یہ بات عیاں اور نمایاں ہو گی کہ دس سیٹیں جیتنے کے باوجود اس کی حالت پتلی ہے کیونکہ وہ تمام حکومتی مشینری کے استعمال اور ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے باوجود بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ جبکہ 2015 میں ہونے والے الیکشنز میں ”امپائرز“ اور ”ریفریوں“ کی سر توڑ مخالفت کے باوجود نون لیگ وہاں 16 سیٹیں جیت کر دو تہائی اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس کے مقابلے میں موجودہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی کارکردگی بہت تشویشناک ہے۔

کچھ نشستوں پر تو پی ٹی آئی امیدواروں کی جیت کا مارجن بہت کم ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پی پی، نون لیگ، آزاد امیدواروں اور جے یو آئی کے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹ پی ٹی آئی کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ گلگت بلستان میں پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہاں کے عوام نے حکمران پارٹی کی طرف سے مسلط کی گئی ہوش ربا مہنگائی، لاقانونیت، داخلہ اور خارجہ محاذ پر ہونے والی شرمناک ہزیمتوں اور روز افزوں بڑھنے والی بد امنی کی صورت حال پر اعتماد کا اظہار کیا ہے بلکہ یہ ووٹ اس لیے پڑے تاکہ حکمران پارٹی کی طرف سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز وغیرہ بروقت اور بآسانی حاصل کیے جاسکیں۔

شدید سردی، تند و تیز ہواوٴں اور یخ بستہ فضاوٴں کے باوجود گلگت بلستان کے عوام کا ووٹ کے لیے باہر نکلنا جمہوریت کے استحکام اور فروغ کے لیے خوش آئند ہے۔ معذور خواتین و حضرات اور خاص طور پر سو سالہ بزرگ کا ووٹ ڈالنے کے لیے آنا متاثر کن اور قابل تقلید مثال ہے۔

2013 کے الیکشن کے بعد جب عمران خان نے چار حلقوں میں کی گئی مبینہ دھاندلی کے خلاف پاکستان کے دل اور خود ان کے اپنے شہر لاہور سے احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے تو انہیں بمشکل چند سو بندے ہی میسر آ سکے تھے مگر گلگت بلستان میں الیکشن کے دوسرے دن ہارنے والی پارٹیوں کے احتجاج میں ہزاروں پر جوش مظاہرین شامل تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ دھاندلی کے الزامات بے بنیاد اور روایتی نہیں ہیں بلکہ دال میں کچھ کالا ہے۔

لوگوں کو وزیراعظم پاکستان کا وہ دورہ بھی یاد ہے جو انہوں نے الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کو پامال کر کے کیا تھا اور اس میں کی جانے والی وہ تقریر بھی یاد ہے جس میں انہوں نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو وہ حکمران پارٹی کی طرف سے کیے جانے والے ایسے دوروں کو پری پول دھاندلی قرار دیتے تھے۔ اس کے علاوہ لوگ علی امین گنڈا پور کی ان تقریروں کو بھی نہیں بھولے جن میں انہوں نے چار ہزار کی لیڈ سے جیتنے والے امیدواروں کو چار ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔

اگر ہمارے ارباب اختیار آزاد کشمیر اور گلگت بلستان میں شفاف، غیر جانبدار اور صاف ستھرے الیکشن کروانا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان اور ان علاقوں میں ایک ساتھ الیکشن کروائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ الیکشن کمیشن کو بڑی پارٹیوں کی طرف سے دھاندلی کے سنگین الزامات پر بروقت اور ٹھوس ایکشن لے کر وہاں جمہوری سفر کے تسلسل کو برقرار رکھنا چاہیے۔ پہلے ہی ملک 2018 کے متنازع اور دھاندلی زدہ الیکشن کی وجہ سے غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔ اب آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی سلیکٹڈ حکومتیں قائم کر کے ووٹ کے تقدس کو پائمال نہ کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے کل کے پرجوش احتجاج سے ذمہ داران کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).