گلگت بلتستان الیکشن 2020ء: اصل دھاندلی کہاں ہوئی ہے؟


2018 ء کے عام انتخابات پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے شکوک اور حکومت کے ان انتخابات کی شفافیت کے دعوے کی سچائی کا معیار گلگت بلتستان کے نتائج کو قرار دیا گیا ہے۔ اب نتائج سامنے ہیں، ایک طرف کامیابی پر جے جے کار اور دوسری طرف حسب روایت دھاندلی کی دہائی۔

اس خطے میں گزشتہ پچاس سال میں جو ایک چیز نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے وہ ملک کے دیگر صوبوں سے بہتر شرح خواندگی ہے۔ وسائل اور معاشی مواقع کی کمی کو لوگوں نے انسانی وسائل پر سرمایہ کاری کر کے پوری کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے اب یہاں متوسط طبقے میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ یہاں ووٹ روایتی طور پر ایک وقت کے کھانے یا چند روپوں کی خاطر نہیں دیا جاتا ہے۔ ان انتخابات میں ایسے امید وار بھی تھے جن کو لوگوں نے صرف ووٹ دے کر جتوایا ہی نہیں بلکہ ان کی مالی مدد بھی کی ہے۔

یہاں انتخابی نتائج کو انتظامی دھاندلی سے زیادہ سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کی کارکردگی اور طرز عمل پر عوامی رد عمل کے طور دیکھا جائے تو مستقبل میں سیاست کی سمت کو تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

2009 ء میں گلگت بلتستان کو غیر آئینی مگر انتظامی صوبے کی حیثیت دے کر پیپلز پارٹی نے انتخابات جیت لئے تو پہلی بار مقامی اہل حشم کا تزک و احتشام اور کروفر دیکھنے میں آیا۔ اس علاقے میں راجگی نظام کا خاتمہ کرنے والی پیپلز پارٹی کے جیالے اب پروٹوکول کی ہوہوکار اور ہٹو بچو کی صداؤں میں سرعت کے ساتھ دھول اڑاتے گزرتے دکھائی دینے لگے۔

سکردو سے تعلق رکھنے والے ایک سید زادے کو وزیر اعلیٰ کی سنگھاسن پر بٹھایا گیا تو اس جیالے میں احساس برتری کا گھمنڈ دیکھ کر لوگ ان کی جاہ وحشمت کو بھی بھول گئے جن کا خاتمہ کر کے اس جماعت نے عامۃ الناس کو رعایا ہونے کے بجائے برابر کے شہری ہونے کا احساس دلایا تھا۔

وہ جیالے جنھوں نے دہائیوں تک انتظار کیا تھا کہ اختیارات ان کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہوں تو ان کے بھی دن بدل جائیں گے اب اپنے منتخب نمائندوں کی دید کو ترس گئے۔ منتخب نمائندے گلگت بلتستان میں کم اسلام آباد کی سڑکوں پر سائرن بجاتی گاڑیوں کے ساتھ زیادہ دکھائی دینے لگے۔

سرکاری نوکری عموماً پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشت میں ایک غریب کا واحد سہارا ہوتی ہے۔ ہر نوجوان اس امید پر جیتا ہے کہ اس کو روزگار مل جائے تو دن بدل جائیں گے۔ مگر پیپلز پارٹی کے دور میں نوکریاں سر عام بکنے کی خبریں آنے لگیں۔ نوکریاں بیچنے والوں نے صرف روزگار بیچ کر لوگوں کے ساتھ ہی ظلم نہیں کیا بلکہ ”ہمیں اوپر بھی حصہ دینا ہوتا ہے“ کہہ کر اپنی قیادت کو بھی بدنام کر کے جماعت کی عزت بھی مٹی میں ملا دی۔ ایسے لوگوں کا پارٹی میں احتساب کرنے یا جواب طلبی کے بجائے ان کے سروں پر تاج رکھ کر پیپلز پارٹی نے کارکنان اور عوام میں اپنی جماعت کے لئے بد دلی پیدا کی۔

جمہوریت بہترین انتقام ہے, یہ کہنا بھی پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ہے۔ جب اپنی مدت پوری کرنے کے بعد جیالے انتخابات میں اترے تو لوگوں نے حساب چکتا کر دیا۔

مسلم لیگ نون جو مشرف کے پراشوب دور میں ایک سیٹ تک محدود ہو گئی تھی اسلام آباد میں جماعت کی حکومت بنتے ہی گلگت بلتستان میں بھی قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں انتخابی معرکے میں اتری تو لوگوں نے اس کے نامزد امیدواروں کو جتوا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ نون ہمیشہ سے جیتنے والے گھوڑوں پر ہی شرط لگاتی آئی ہے۔

حافظ حفیظ الرحمان نے وزیر اعلیٰ بن کر 2009ء کے صدارتی فرمان میں ترامیم کر کے اس میں دیے گلگت بلتستان اسمبلی اور کونسل کے قانون سازی اور انتظامی اختیارات کو وزیر اعظم کو سپرد کر کے ایک طرح کی شخصی حکمرانی قائم کر دی۔ قانون سازی کے لئے اسمبلی، کونسل، گورنر اور وزیر اعظم میں شراکت داری کا تصور ختم ہونے پر سخت تنقید کا سامنا ہوا تو سینیٹر سرتاج عزیز پر مشتمل ایک کمیٹی بنا کر گلگت بلتستان میں آئینی اور قانونی اصلاحات کے لئے سفارشات مرتب کروائی گئیں مگر حافظ حفیظ الرحمان نے اپنی حکومت کی بنائی کمیٹی کی سفارشات کو سرد خانے میں ڈال دیا۔

مسلم لیگ نون جب اپنے پانچ سال پورے کر کے انتخابی معرکے میں صف آرا ہوئی تو لوگوں نے نشاندہی کی کہ ہسپتال صرف عمارت کا نام نہیں اس میں سہولتیں بھی ہونی چاہئیں جو ندارد ہیں۔ سی پیک کے نام پر لاہور میں رنگ برنگی سڑکیں اور ریلوے لائنیں بچھانے والی مسلم لیگ نون یہاں اس مں صوبے کے تحت کوئی سڑک تک نہ بنا سکی۔ سوال یہ بھی اٹھا کہ سکردو اور گلگت کو ملانے والی سڑک تو بن گئی مگر اس میں سرنگیں بنانے کے کام کو منہا کر کے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے نتائج سے یہ اخذ کرنا کہ ملکی سیاسی بیانیہ کی بحث میں کون صحیح یا غلط ہے، بے جا ہو گا۔ گلگت بلتستان میں جیتنے اور ہارنے کی ہر حلقے اور ہر علاقے میں وجوہات مختلف ہیں جن پر غور کر کے سیاسی جماعتیں نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے ملک میں ایک نئی سیاسی سمت کا تعین کر سکتی ہیں۔

گزشتہ دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شوگر بلتستان سے واحد سیٹ اب اس کے پاس نہیں مگر گلگت میں دو سیٹیں اس جماعت کے صوبائی صدر نے جیت کر تاریخ بھی رقم کی ہے۔ سکردو جہاں سے پیپلز پارٹی کا پہلا وزیر اعلیٰ منتخب ہوا تھا اب اس ضلع کی بیشتر سیٹیں سابقہ راجاؤں کے وارث جیت گئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس جماعت کو لوگ عوامی مزاج کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جیالے منتخب ہو کر جب اشرافیہ بننے کی کوشش یا اس کی نقل کرتے ہیں تو لوگوں کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔ افسر شاہی کے دست نگر عوام کو منتخب وزیروں اور مشیروں کے دروازوں تک رسائی کی امید ہوتی ہے۔ جب ان کے منتخب وزیر اور مشیر عوام کو روزگار دینے کے بجائے نوکریوں کا کاروبار کرتے ہیں تو لوگوں کے پاس بھی ان کے خلاف ووٹ کے استعمال کے ذریعے اپنی ناراضی کے اظہار کا واحد راستہ بچ جاتا ہے۔

مشرف کے دور میں جب پوری مسلم لیگ نون گجرات کے چوہدریوں کی ق لیگ بن چکی تھی تو اس وقت بھی غذر میں ایک حلقہ نواز شریف کے نام رہا جو آج پی ٹی آئی کا بن چکا ہے۔ سابقہ دور میں پی ٹی آئی کی ایک ہی سیٹ تھی جو اب مسلم لیگ نون نے جیت کر اپنی عزت بحال رکھی ہے۔ مسلم لیگ کی صوبائی قیادت خوب جانتی ہے کہ مسلم لیگ کو ملنے والا حلقہ پیپلز پارٹی کی بے اعتنائی کا شکار ہونے والے غلام محمد کو ان کی طرف سے دی جانے والی عزت کا مرہون منت ہے تو جانے والا حلقہ منتخب ہونے والے سلطان مدد سے اس کے قائد نواز شریف اور پارٹی کی بے وفائی کا نتیجہ ہے۔ سابقہ وزیر اعلیٰ اس دن الیکشن ہار چکا تھا جب اس نے اپنی ہی جماعت کی مرتب کردہ اصلاحات کی سفارشات کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

سب سے بڑی سازش اور دھاندلی سیاسی جماعتیں اور راہنما اپنے خلاف خود ہی کرتے ہیں۔ اقتدار میں آ کر اپنے جماعتی نصب العین کو بھلا کر یا بالائے طاق رکھ کر اپنی سیاسی حکمت عملی کو اپنے ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات کے تابع کرنا سب سے بڑی دھاندلی ہے جس کی زد میں ہماری سیاسی جماعتیں اور راہنما آتے رہتے ہیں۔ ووٹ نہ ملنے کی وجوہات میں بیرونی سازشوں کے خلاف احتجاج تو کیا جا سکتا ہے مگر اپنی خود احتسابی اس سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ اصل دھاندلی اندر سے ہوتی ہے جو اپنے لوگ خود ہی کرتے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan