جناح ریزیڈنسی، زیارت اور زیرو پوائنٹ کے دلفریب نظارے


چچا کے گھر ہفتہ اور اتوار آنے کا انتظار رہتا تھا کیونکہ چچا دفتری امور نمٹانے میں ہفتے کے پانچ دن انتہائی مصروف رہتے تھے۔ چھوٹے بھائی نے باہر بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنی شروع کر دی۔ اور کوئٹہ کینٹ میں کرونا کی وجہ سے عرصہ دراز سے چھوڑی ہوئی بچہ کرکٹ کی بحالی کا کام میرے چھوٹے بھائی نے شروع کیا اور اپنے دن رات ایک کر دیے۔ صبح بارہ بجے ناشتہ کر کہ گراؤنڈ میں جاتا شام کے کھانے کے لیے چچی میرے آدھ درجن چکر لگواتیں تھیں کہ اس کو بلا کر آئیں کیونکہ نا تو یہ صیح کھانا کھا رہا ہے اور نا آرام کر رہا ہے۔

چچا نے آسکو ٹائیٹل دیا کہ یہ بچوں کا پیر بن چکا ہے جس کے آستانے پر مریدوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے مگر پیر صاحب ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اور یہ آستانہ بچوں کے کھیلنے کا پارک تھا۔ جس میں میرا بھائی سارا دن گزارتا تھا اور میں کبھی ڈانٹ کے تو کبھی پیار سے اسے گھر واپس لے آتا تھا۔ ہنہ جھیل کا ویک اینڈ بہت اچھا رہا تھا جہاں ہم نے بچوں کی طرح خوب موج مستی کی تھی بچوں کی ٹرین کی سیر کے ساتھ ڈریگن پر چچی اور چھوٹے بھائی کا شور بھی ہنہ جھیل کی یادوں میں ایک حسین اضافہ بنا اگلا ہفتہ آیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہم زیارت میں جناح ریزیڈنسی جا رہے ہیں۔

جناح ریزیڈنسی جانے کی میری ہمیشہ سے خواہش رہی تھی کیونکہ میں نے سن رکھا تھا کہ جناح نے زیارت کے قدرتی نظاروں کی بے حد تعریف کی تھی۔ اور اپنے آخری دو مہینے دس دن انہوں نے زیارت میں ہی گزارے تھے۔ جناح ریزیڈنسی زیارت شہر میں ایک مشہور تاریخی جگہ ہے جسے انگریز نے 1892 میں تعمیر کیا۔ اس کی بلڈنگ انتہائی خوبصورت طرز پر تعمیر کی گئی جس کا زیادہ تر کام لکڑی سے کیا گیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جناح نے اپنے آخری ایام کراچی کی بجائے زیارت میں گزارے۔

کوئٹہ شہر سے جیسے ہی زیارت کی طرف نکلے تو ہمارے اردگرد آسمان سے باتیں کرتے پہاڑ تھے۔ سفر کے دوران بل کھاتی سڑک نے کئی دلفریب مناظر سے ہمیں مستفید کیا۔ مگر سڑک دور دور تک خالی نظر آتی تھی۔ کبھی کبھار کوئی موٹر گاڑی ہمیں کراس کر کہ پہاڑوں کے بیچ بل کھاتی غائب ہوجاتی تھی۔ میں راستے میں یہی سوچتا رہا کہ اکہتر سال پہلے بیمار جناح کو کراچی سے زیارت لانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس وقت تو زیارت میں بنیادی صحت کی سہولیات بھی نہیں ہوں گی۔ کیونکہ موجودہ زیارت میں صحت کی صورت حال انتہائی خراب ہے تو سات دہائیاں پہلے اس جگہ کی کیا حالت ہوگی جہاں بنیادی صحت کا مرکز بھی مجھے راستے میں کہیں نظر نہیں آیا۔

باب زیارت پر یادوں کو تصویروں میں محفوظ کرنے کے لیے تھوڑی دیر رکے اردگرد کی خوبصورتی نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ تصاویر بنوانے کے بعد زیارت شہر کی طرف چل دیے۔ راستے میں ایک جگہ بچوں کے لیے کھانے پینے کی اشیاء لینے کے لیے رکے۔ مختلف دکانوں میں سنیہا کے ساتھ پھرتے ہوئے زیارت شہر اور مقامی لوگوں کو دیکھنے کا موقع ملا جو اپنے رنگ و شکل کی طرح اخلاق میں بھی خوبصورت معلوم ہوئے۔ زیارت ریزیڈنسی کی طرف جاتے ہوئے چچا کسی سے فون پر بات کر رہے تھے جس سے لگ رہا تھا کہ وہ ہمیں ریزیڈنسی دکھانے میں کردار ادا کرنے والا تھا۔

کچھ دیر بعد مجھے چچا سے معلوم ہوا کہ زیارت ریزیڈنسی پر تعینات فوجی افسر ہمارے ہی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا آبائی گھر بھی ہمارے گاؤں کے آس پاس ہی تھا۔ زیارت ریزیڈنسی پہنچنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ ریزیڈنسی پر بریک ٹائم تھا جس میں عوام الناس کا داخلہ ممنوع قرار دیا ہوا تھا۔ البتہ ریزیڈنسی پر تعینات افسر نے ہمارے لیے ریزیڈنسی کھلوا دی جس سے ہمیں پرسکون ماحول میں ریزیڈنسی دیکھنے کا موقع ملا۔

ریزیڈنسی دیکھنے کے بعد آرٹ گیلری بھی دیکھی جس، میں قائد کے استعمال کی اشیاء موجود تھیں۔ ریزیڈنسی کے لان میں ہزاروں سال پرانے درخت کے نیچے ہمارے لیے چائے کا پرتکلف اہتمام کیا گیا تھا۔ چائے پیتے ہوئے دماغ میں تاریخ کے ورق پلٹتے رہے اور قائد اعظم کے مختلف واقعات یاد آتے رہے۔ دماغ یہ بھی سوچتا رہا کہ اسی جگہ کئی انگریز افسروں نے بھی ایک صدی پہلے قیام کیا ہوگا۔ مختلف خیالات ذہن میں ابھرتے رہے اور یوں چائے ختم ہوئی۔ گلاب جامن مجھے ہمیشہ سے ہی بے حد پسند رہے ہیں اور زیارت کے گلاب جامن کی مٹھاس خوبصورت یادوں کے ساتھ قید ہو گئی۔

جون 2013 میں زیارت ریزیڈنسی کو بلوچستان میں باغیوں کی طرف سے ایک حملہ کے بعد جلا کر مسمار کر دیا گیا تھا جس سے قائد اعظم کے استعمال میں اصل فرنیچر بھی ممکنہ طور پر جل گیا تھا۔ البتہ آرٹ گیلری اس سے محفوظ رہی۔ ایک سال بعد حکومت پاکستان نے ریزیڈنسی کی اس کے اصل نقشہ پر تعمیر نو کی۔ موجودہ ریزیڈنسی میں بیشتر فرنیچر ممکنہ طور پر وہ نہیں جو جناح صاحب کے استعمال میں تھا۔ البتہ بالکل ویسا بنایا گیا ہے۔ ریزیڈنسی پر چائے پینے کے بعد ہم زیرو پوائنٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں حسین نظاروں نے آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی۔ زیرو پوائنٹ زیارت کا ایک تفریحی مقام ہے۔ جہاں کافی سارے سیاح قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے جاتے ہیں۔

زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہم نے نیچے نظر آتی حسین وادیوں کا نظارہ کیا۔ دل میں اونچائی سے گرنے کا خوف بھی لاحق ہو گیا۔ میں چھوٹے بھائی اور سنیہا کے بارے میں زیادہ فکر مند تھا۔ بھائی کھائی کے قریب جا کر نیچے کی وادی دیکھنا چاہتا تھا جس پر میں نے بڑے بھائی والا رعب ڈالتے ہوئے اسے منع کر دیا اور وہ ناراض ہو کر چچا چچی کے پاس چل دیا جو تھوڑا فاصلے پر قدرت کے نظاروں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ میرا ڈانٹنا اس طرح کام آیا کہ وہ بے قابو ہونے کی بجائے چچی کے ساتھ گھومنے پھرنے لگا۔ چچی میرے سے دس گنا زیادہ محتاط اور بچوں کو قابو میں رکھنے والی خاتون ہیں۔ میں نے مطمئن ہو کر نظارے کیے اور واپس لوٹنے کے بعد چچا سے اگلا پلان پوچھا جو انہوں نے بتایا کہ زیزری ہٹس خوبصورت جگہ ہے وہاں چلتے ہیں۔

گاڑی کی ڈگی میں پڑا مرغ مسلم سیخوں پر چڑھنے اور تکہ بننے کا انتظار کر رہا تھا جسے ایک رات قبل چچا نے مصالحہ جات سے تیار کیا تھا۔ زیزری کے راستے کھڑے بچوں سے ہم نے مقامی لسی لی جو مجھے اور چچا کو بہت پسند تھی۔ ہم اس پوائنٹ تک پہنچ گئے جہاں تک پختہ سڑک ختم ہو رہی تھی۔ منزل ہم سے کوئی 2 کلومیٹر دور تھی۔ مگر پختہ سڑک نا ہونے کی وجہ سے بیشتر گاڑیوں کو پرخطر پہاڑی راستے میں ڈرائیو مہنگی پڑ سکتی تھی۔ مقامی لوگوں نے بھی ہمیں تنبیہ کی کہ ہماری گاڑی کی سطح نیچے تھی اور راستے میں کافی خم تھے اور پتھر تھے اس لیے واپسی پر چڑھائی بہت مشکل ہو سکتی تھی۔

کوئٹہ سفر کے براستہ رونگھن آغاز نے ہمیں کافی حوصلہ دے رکھا تھا اور چچا کی ڈرائیو پر بھی مجھے بے پناہ اعتماد تھا جو اس سے قبل کسی پہ نہیں تھا۔ وادی زیزری سے واپس آتی ایک گاڑی کے ڈرائیور سے راستے بارے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ راستہ ٹھیک ہے گاڑی چلی جائے گی البتہ واپسی پر چڑھائی کرتے آپ لوگ اتر جائیے گا تا کہ گاڑی سے وزن کم ہو سکے اور ڈرائیور کو پریشانی نا ہو۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).