آپ اپنی ذہنی صحت کے بارے میں کتنے فکرمند ہیں؟



کیا آپ ایک دکھی انسان ہیں؟
کیا آپ اپنے دکھوں کو سب سے چھپائے پھرتے رہتے ہیں؟
کیا آپ کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہیں؟
کیا آپ ایک خوشحال ’صحتمند اور پرسکون زندگی کے راز جاننا چاہتے ہیں؟
اگر آپ کا ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو آپ گرین زون کے فری سیمینار سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
آج سے چند ماہ پیشتر ’ہم سب‘ پر میرا ایک کالم چھپا تھا
گرین زون سیمینار کی دعوت۔ خوشحال زندگی کی طرف سات قدم

جس میں ہم نے اپنے پائلٹ پراجیکٹ کے لیے بارہ وولنٹیرز کو دعوت دی تھی۔ ہمیں چوبیس لوگوں کے خطوط ملے جن میں سے ہم نے بارہ لوگوں کا چناؤ کیا اور ان لوگوں نے ہمارے ساتھ سات ہفتوں کے سیمیناروں میں شرکت کی۔ وہ تجربہ ہماری توقعات سے کہیں زیادہ کامیاب رہا۔

اس کامیاب تجربے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم زوم کا گرین زون کا ایسا سیمینار پیش کریں جس میں سو لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔

؎ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

یہ سیمینار دو گھنٹوں کا فری سیمینار ہوگا۔ اس میں آپ خود بھی شامل ہو سکتے ہیں اور آپ اپنے ہر اس دوست ’رشتہ دار اوررفیق کار کو بھی دعوت سکتے ہیں جو یا تو کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہیں اور یا وہ ذہنی طور پر ایک صحتمند اور پرسکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

ذہنی صحت ہم سب کے لیے اہم ہے۔

جس شخص نے خود خوش رہنا سیکھا ہے وہ دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شریک کرتا ہے۔ جو خود سکھی ہوتا ہے وہ اوروں کی بھی سکھی رہنے میں مدد کرتا ہے۔

جو شخص خود دکھی رہتا ہے وہ اوروں کو بھی دکھی کر سکتا ہے۔

جو شخص اپنے دل میں نفرت غصہ اور تلخی چھپائے پھرتا رہتا ہے وہ معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ وہ کبھی بھی کہیں بھی کسی بم کی طرح پھٹ سکتا ہے اور تخریب کاری کر سکتا ہے۔

ذہنی صحت کا خیال رکھنا ہم سب کی انفرادی اور سماجی ذمہ دری ہے۔

ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ کرونا وبا نے ہمیں یہ درس پڑھایا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ہیں۔

ہمارا اگلا گرین زون سیمینار
DATE…DECEMBER 12TH, 2020
DAY…SATURDAY
TIME ….10 AM TO 12NOON TORONTO CANADA TIME
8PM TO 10 PM PAKISTANI TIME
اگر آپ خود یا آپ کا کوئی عزیز اس سیمینار میں شرکت کرنا چاہتا ہے تو وہ
مندرجہ ذیل معلومات فراہم کر کے
1. NAME
2.AGE
3. GENDER
4. CITY
5. COUNTRY
6.EDUCATION
7. PROFESSION
8.EMAIL ADDRESS
9. WHATS APP/ PHONE NUMBER
مجھے ای میل کر سکتا ہے
welcome@drsohail.com

ہم پہلے سو لوگوں کو دعوت دیں گے۔ اگر اس سے زیادہ لوگوں کے ای میل آئے تو ہم مستقبل میں ایک اور سیمینار کے بارے میں غور کریں گے۔

اگر آپ گرین زون کے فلسفے کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو آپ ہماری گرین زون کی ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں

www.greenzoneliving.ca

سیمینار میں میرے ہمراہ ثمر اشتیاق گرین زون فلسفے کا بھرپور تعارف کروائیں گی اور زہرا نقوی ’سارہ علی‘ صائمہ نصیر اور ابصار فاطمہ اپنے گرین زون تجربات شیر کریں گی۔ اس کے بعد سیمینار میں شرکت کرنے والے دوستوں کے تاثرات سنے جائیں گے اور ان کے سوالات کے جوابات دیے جائیں گے۔

پچھلے سیمینار میں جن دوستوں نے شرکت کی تھی ہم نے ان سے درخواست کی تھی کہ انہوں نے سات ہفتوں کے سیمیناروں سے جو سیکھا اس کے بارے میں اپنی گرین زون کہانی لکھیں۔ میں وقت اور جگہ کی قلت کی وجہ سے صرف ایک کہانی آپ سے شیر کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو گرین زون کے فلسفے کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ ہو سکے۔

۔ ۔ ۔
سد را حسین کی گرین زون کہانی
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل ’ثمر اشتیاق اور زہرا نقوی نے زوم پر جن گرین زون سیمیناروں کا اہتمام کیا تھا میں نے بڑے شوق سے ان میں شرکت کی۔

گرین زون کے فلسفے پر مبنی ان سیمیناروں میں انسانی نفسیات کی گہرائی اور انسانی جذبات کو لامحدود حصار سے نکال کر ان پر ایک طرح سے بند باندھنے کی کوشش کی گئی ہے

پچھلے کچھ عرصے سے ”ھم سب“ کی خاموش قاری ہونے کے ناتے میں ڈاکٹر خالد سہیل کے کالمز کی بے حد مداح ہوں۔ تاہم مذہب کے حوالے سے ان کے نظریات سے اختلاف رکھنے کے باوجود میں ان کا بے حد احترام کرتی ہوں۔ البتہ انسانی نفسیات پر ان کی گرفت پر داد نہ دینا بہت زیادتی ہو گی۔ انسانی نفسیات اور ان سے جڑی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں انھوں نے بہت کام کیا ہے۔ خصوصی طور پر گرین زون تھراپی اور اس ذیل میں کی گئی گروپ تھراپی کا حصہ بننے پر میں اس ٹیم کی نہایت مشکور ہوں۔ بظاہر اس مشق کے ذریعے ہم اپنے جذبات کو سمجھنے اور ان کا اظہار بہتر طور پر کرنا سیکھتے ہیں جس کی وجہ سے اپنے سے جڑے لوگوں سے کس طرح اچھے تعلقات استوار کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اس گروپ تھراپی کے دوران میں نے سب سے پہلے اپنی ذات سے تعلق استوار کیا اور اپنے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ تاہم اس مشق کے دوران پیش آنے والی پیچیدگیوں کو ڈاکٹر خالد سہیل صاحب اور ان کی ٹیم کے ساتھ ساتھ گروپ کا دیگر افراد کے تجربات کا بیان کرنا، ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف جوڑنے میں مدد دیتا بلکہ اس مشق پر عمل کرنے میں ہمیں مزید آگاھی حاصل ہوتی ہے۔

اس گرین زون تھراپی کے ساتھ قدم بقدم چلتے ہوئے بالآخر میں اس مقام پر پہنچی، جس میں اس بات کی گنجائش پیدا ہو گئی کہ میں اپنی ناراضگی اور خفگی جو کہ اپنے سے جڑے رشتوں سے وابستہ توقعات اور تحفظات سے ہوتی ہیں، کا اظہار الفاظ کی صورت میں ں اس انداز سے کر سکوں جس سے کسی کی دلآزاری کا خدشہ نہ ہو۔ اس سارے عمل کا حصہ بنتے ہوئے اور اس کو سمجھتے ہوئے میں نے جو اپنی ذات کو سمجھنے کا سفر شروع کیا تھا، یہ مجھے ماضی کے کئی تکلیف دہ واقعات کی یادیں تاذہ کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔

جو کہ بیک وقت پردرد اور بہ امر مجبوری کرنا ضروری بھی تھا۔ ماضی کے اس سفر میں مجھ پر کئی راز افشاء ہوئے، اور میں نے یہ بھی جانا کہ بہت سی تلخ یادیں شاید میری جذباتیت بھرے مزاج کی بدولت زیادہ حساس معلوم ہوئی۔ جب کہ حقیقت میں ان واقعات کا اپنے آپ میں وقوع پذیر ہونا شاید اتنا گمبھیر نہ تھا۔ یہ میرا ان واقعات پر غیر ضروری شدید ردعمل تھا جس نے اتنا عرصہ میرے ذہن کو الجھائے رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کی آگاھی بھی حاصل ہوئی کہ ہم میں سے ہر شخص ہی اپنی تلخ یادوں کا یا پھر زندگی کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔

اس لیے ہمیں نہ صرف اپنے آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس بات کا ادراک رکھتے ہوئے اپنے سے وابستہ رشتوں سے تعلقات میں اس بات کا دھیان رکھنا ہو گا کہ ہم ان کی کھڑکی میں بھی جھانک سکیں جس سے ہمیں نہ صرف اپنے جذباتی ردعمل کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی بلکہ اس بات سے شاید ہم اپنے آپ کو ایک پر سکون زندگی فراہم کر سکیں۔ اس بات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے واقعات اپنے آپ میں اتنے برے نہ ہوں ہمیں صرف ان کو غیر جذباتی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

سو آج میں یہ کہتے ہوئے کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں کہ گرین زون تھراپی کی بدولت مجھے نہ صرف رشتوں کو سمجھنے میں مدد ملی بلکہ میں نے اپنی ذات سے بھی ایک مضبوط تعلق استوار کیا۔

اس فلسفے کی بہت سی جہتیں اور بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر گفتگو کر کے اس گروپ تھراپی کے دوران ہم نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سے ہم نے اپنی ذات کے ان پوشیدہ پہلوؤں پر روشنی ڈالی جن کو ہم عام فہم زبان میں blindspot کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی اندرونی کشمکش اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی دباؤ کو کیسے مثبت انداز میں manage کرنا ہے، اس بات سے آگاھی حاصل کی ہے۔ اسی بات کی روشنی میں سب سے پہلے ہم نے اپنی ذات سے تعلق استوار کیا ہے اور باقی کے مراحل میں ہمیں اس بات کی آگاھی حاصل ہوتی ہے کہ لوگوں کو سمجھنے اور ارد گرد کے ماحول کو سمجھنے سے پہلے ہماری خود شناسی کتنی ضروری ہے کیونکہ جب ہم خود کو سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی ذہنی الجھنوں کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارا تجربے کے دوران دوسرے انسانوں کے جذبات، ان کے احساسات اور ان ک عمل اور ردعمل پر غور وفکر کرنے لگتے ہیں۔

ہم نے وہ تمامskeleton جو کہ پچھلے کئی سالوں سے اپنے ماضی کے صندوق میں بند کر کے رکھے تھے، ان کو جھاڑ پھونک کر باہر نکالا ہے اور اپنے ان تکلیف دہ لمحوں کو یاد کر نے کی کوشش کی ہے جن سے ہماری تلخ یادوں وابستہ ہیں۔ اس سارے عمل کو سمجھنے میں کئی زخموں سے کھرنڈ بھی اترے لیکن خود شناسی اور خود آگاہی کے اس عمل نے دوبارہ سے ان زخموں پر مرہم بھی رکھا۔ اور اس کے علاوہ ہماری جذباتی کیفیت بھی ہم پر عیاں کی۔ جن واقعات کو دہراتے ہوئے ہمیں تکلیف ہوتی تھی۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ اپنی ذات کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک بات اور قابل غور ہے کہ اپنی ذات کے پوشیدہ پہلوؤں کے بارے میں جاننے کی شعوری کوشش ہمیں خود شناسی کے سفر میں اپنی ذات کے متعلق دلچسپ حقائق بھی عیاں کرتی ہے۔ ہم اپنے مزاج کے ان رنگوں سے بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں جو کہ ہماری دیدہ و بینا دیکھنے سے قاصر ہے۔

مثال کے طور پر جب ہم اپنے مزاج کے بدلتے رنگوں سے واقفیت حاصل کرتے ہیں اور ان عناصر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری طبیعت پر منفی یا مثبت اثرات ہوتے ہیں، تو ہم بحیثیت مجموعی اپنے سے جڑی الجھنوں اور پریشانیوں کا تجزیہ کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں۔

اس سے نہ صرف ہمیں ذہنی پختگی اور شعور حاصل ہوتا ہے بلکہ بعد میں ہم اس مرحلے میں داخل ہو جاتے ہیں جس میں ہم کسے بھی واقعے یا کسی شخص کے رویے پر ردعمل دینے کے بجائے آپنے آپ کو اس صورتحال میں بھی مضبوط اعصاب کا مالک رکھتے ہوئے ایسے حالات سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے، اس قابل بھی بنتے ہیں۔

یہ مرحلہ دراصل سب سے خوبصورت ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم action and reactionکی chainکو توڑ کر اس قابل ہو جاتے ہیں کہ جب ہم دوسرے لوگوں کے رویے یا حالات کے نامناسب ہونے پر ان کے دباؤ میں آئے بغیر اپنی ذہنی صحت کو کیسے بھتر اور ان حالات میں خود کو ان کے بہاؤ میں جانے سے کیسے روک سکتے ہیں۔ بالیدگی کے اس عمل سے ہم اس قابل ہو جاتے ہیں جس میں ہمیں اپنی جذباتی سو چ اور عمل کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اور یوں ہمارا انسان دوستی کا سفر شروع ہوتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail