ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ اور تجاویز


پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں تیزی کے ساتھ بڑھتا ہوا ٹریفک ایک بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور میرے اندازے کے مطابق آئندہ پانچ دس برسوں کے بعد یہ ممکن ہی نہیں رہے گا کہ موجودہ چھوٹی بڑی شاہراہوں پر ٹریفک بآسانی رواں دواں رہ سکے۔ ٹریفک کے یہ مسائل ان اوقات میں اور بھی عروج پر ہوتے ہیں جو اسکولوں، کالجوں کے کھلنے اور بند ہونے کے ہوتے ہیں۔ ویسے تو ملوں اور کارخانوں کے اوقات کار بھی ہمیشہ ٹریفک کی روانی میں ایک بہت بڑا مسئلہ رہے ہیں لیکن اب تعلیمی ادارے بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ کی صورت میں سامنے آتے جا رہے ہیں۔ اگر دفتری اور تعلیمی اداروں کے اوقات کار کو بھی درست انداز میں تقسیم دیا جائے تب بھی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پورے ملک، خصوصاً بڑے صنعتی شہروں میں کافی حد تک ٹریفک کے مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن لگتا ہے کہ اس جانب کوئی ادارہ بھی توجہ دینے کے لئے تیار نہیں۔

ہر فرد اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ شاہراہوں پر سب سے زیادہ دباؤ دفتری اوقات میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات ہر دفتر، مل اور کارخانے کے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ جب سب کو ایک ہی وقت میں اپنے اپنے فرائض کے لئے پہنچنا ہو اور ایک ہی وقت میں گھروں کی جانب لوٹنا ہو تو پھر سڑکوں اور شاہ راہوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ جانا کوئی انہونی بات نہیں۔ ٹھیک یہی اوقات نہ صرف آفس جانے والوں کے لئے ذہنی تناؤ کا سبب بنے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ وہ افراد جن کا دفاتر، ملوں اور کارخانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، وہ سب بھی ٹریفک کے اس دباؤ میں پھنس کر شدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک جانب دفتری اوقات ہی عوام اور شاہراہوں کے لئے اذیت بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب اسکولوں کے اوقات نے ایک اور پریشان کن صورت حال پیدا کر کے رکھ دی ہے۔ دفتری اوقات میں تو صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ شاہراہوں پر آمد و رفت بہت زیادہ سست تو ضرور ہو جاتی ہے لیکن بہاؤ کم رفتار ہونے کے باوجود ٹریفک بنا کسی رکاوٹ رواں دواں ہی رہتا ہے البتہ اسکولوں کے اوقات کی وجہ سے راستے اس حد تک تنگ ہو جاتے ہیں کہ چھ چھ لینوں والی شاہراہوں پر بھی ایک سے بھی کم لین کی جگہ بچی ہوئی ہوتی ہے جہاں سے بصد مشکل ایک ہی گاڑی گزر پاتی ہے۔ جو سڑک تین، چار یا اس سے بھی زائد لینوں میں گاڑیاں گزار سکتی ہو وہاں اگر ایک ہی لین رہ جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ گایا جا سکتا ہے کہ اس شاہراہ پر کتنی دور دور تک گاڑیاں جمع ہوجاتی ہوں گی گی جس کی وجہ سے اسکولوں کے راستوں سے گزرنے والے مسافروں کو کتنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔

پورے ملک میں اسکولوں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات کیونکہ ایک ہی ہیں ایک ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ساری آنے والی گاڑیاں ں آٹھ دس منٹ کے فرق کے ساتھ تقریباً ایک ہی وقت میں آجا رہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

صبح کے اوقات میں تو پھر بھی اسکول کی ہر سواری طلبہ کو اتارتے ہی روانہ ہو جاتی ہے لیکن چھٹی کے اوقات میں اپنے اپنے طلبہ کو اٹھانے والی سواریاں آدھے گھنٹے پہلے سے لے کر آدھے گھنٹے بعد تک سڑکوں کو بلاک کیے ہوئے کھڑی رہتی ہیں۔ ان کا اس طرح آ کر پہلے سے کھڑا ہونا یا بعد تک کھڑا رہنا بھی اتنا تکلیف دہ نہ ہو لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ تین تین چار چار کی متوازی قطاروں میں اس طرح جڑ کر کھڑی ہو جاتی ہیں کہ بصد مشکل ایک وقت میں ایک ہی گاڑی ان کے درمیان سے گزر سکتی ہے۔

شاہراہوں پر بڑھتے ہوئے ٹریفک دباؤ کے لئے کچھ تو شاہراہوں کی کشادگیاں بڑھانے کی ضرورت ہے اور کچھ نئے نئے راستے نکالنا ضروری ہو گیا ہے۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن اگر دفاتر اور تعلیمی اداروں کے اوقات میں مناسب تقسیم عمل میں آ جائے تب بھی یہ بات ممکن ہے کہ ٹریفک کی روانی کو قدر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

فرض کر لیا جائے پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں دفاتر اور کارخانوں کی کل تعدا 1 ہزار ہے۔ اگر ان کو 4 گروپوں میں بھی تقسیم کر دیا جائے تو ہر گروپ میں 250 دفاتر اور کارخانے آئیں گے۔ اب اگر ہر گروپ کے کھلنے اور بند ہوجانے کے اوقات میں دو دو گھنٹے کا فرق رکھ دیا جائے تو روڈ پر ایک دم بڑھ جانے والا رش بھی خود بخود 4 اوقات میں بٹ جائے گا۔ بالکل اسی طرح اگر پرائمری، سیکنڈری، کالج اور یونیورسٹیوں کے الگ الگ گروپ بنا دیے جائیں تو آنے اور جانے والے ٹریفک میں ایک ردھم پیدا ہو سکتا ہے۔

ملک میں عجیب عجیب اقسام کی بسوں کی اسکیموں پر کھرب ہا کھرب روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک یہ سب حکومتوں کا سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ان سب اسکیموں کی بجائے اگر ایک ایک دو دو کلو میٹر کے فاصلے پر بڑے بڑے ملٹی اسٹوریز پارکنگ لاٹس، خاص طور سے ان سڑکوں کے آس پاس جو گنجان آباد علاقوں میں دفاتر، کارخانوں اور بڑی بڑی مارکٹوں کی جانب جاتی ہوں، تعمیر کر دیے جائیں تو وہ بھی ایک بہت بڑا حل ہے۔ ان پارکنگ پلازوں سے آگے کسی بھی غیر ضروری سواری کو جانے کی اجازت نہ بلکہ صرف شٹل سروسز چلائی جائیں۔ اس سروسز کو کارو و باری مراکز اور دفاتر کے تعاون سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔

یہی طریقہ کار ہر بڑے اسکول کو اپنانے کے لئے بھی زور دیا جا سکتا ہے۔ کئی اسکولوں کے قرب و جوار میں بچوں کے لئے پک اپ اور ڈراپ پوائنٹ بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ پوائنٹس ہوں جہاں والدین یا ذمہ داران اپنے بچوں کو ڈراپ کر دیں اور ان پوائنٹ سے آگے ہر اسکول کی اپنی اپنی شٹل سروس ہو۔ ایک ہی اسکول کے اردگرد سو سو کاروں کی بجائے آٹھ دس شٹلز نہ تو سڑکوں پر ٹریفک بہاؤ کے لئے مسئلہ بن سکیں گی اور نہ ہی بچوں کے پک اور ڈراپ کا مسئلہ پیدا ہوگا۔

دفاتر، مل مالکان اور کارخانے داروں کو بھی اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ تمام ملازمین کو پک اور ڈراپ پوائنٹس تک لانے لے جانے کا مناسب بند و بست کریں۔

اگر ان چند تجاویز پر تمام متعلقہ محکمے اور ذمے داران سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے بعد کوئی ٹھوس اور مربوط منصوبہ سازی کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ایک طرف تو سڑکوں پر ایک ہی وقت میں اچانک ٹریفک کا بہت بڑا دباؤ نہیں آئے گا تو دوسری طرف شاہراہیں اور سڑکوں پر ہمہ وقت ٹریفک یکساں انداز میں رواں دواں نظر آئے گا۔ امید کی جا سکتی ہے ارباب اختیار و اقتدار اس معاملے پر ضرور توجہ دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).