کملا ہیرس سے متعلق نفرت انگیز مواد شائع ہونے پر فیس بک کے نظام پر پھر سے سوال


کملا ہیرس
کملا ہیرس نے امریکہ کی تاریخ میں پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے
فیس بک نے امریکہ کی نومنتخب نائب صدر کملا ہیرس کے بارے میں متعدد نسل پرستانہ اور خواتین مخالف پوسٹ، میمز اور تبصرے ہٹائے ہیں۔

فیس بک نے بی بی سی کی جانب سے مطلع کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔ بی بی سی نے فیس بک کو بتایا تھا کہ تین گروپ ایسے ہیں جو اپنے صفحات پر مستقل طور پر نفرت انگیز مواد پوسٹ کر رہے ہیں۔

فیس بک کا کہنا ہے کہ وہ کسی شکایت سے پہلے ہی اپنے پلیٹ فارم سے 90 فیصد نفرت انگیز مواد ہٹا دیتا ہے۔

ایک میڈیا مانیٹرنگ ادارے نے ان صفحات کے بارے میں کہا کہ یہ ‘نسل پرستانہ اور خواتین مخالف مواد کے لیے وقف ہیں۔’

تاہم کملا ہیرس کے بارے میں نفرت انگیز مواد ہٹانے کے باوجود فیس بک نے کہا ہے کہ وہ اس مواد کو پوسٹ کرنے والے گروپوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ کی پہلی خاتون اور غیر سفیدفام نائب صدر منتخب ہونے والی کملا ہیرس کون ہیں؟

سٹیسی ابرامز: جو بائیڈن کی فتح میں کلیدی کردار ادا کرنے والی سیاہ فام خاتون

سوشل میڈیا پر معلومات کی افراتفری کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

باآسانی شناخت ہونے والا مواد

میڈیا کے نگراں ادارے ‘میڈیا میٹرز’ کے صدر اینجیلو کیروسون نے اس بارے میں کہا کہ ‘میڈیا کی شکایت کے بعد مواد کو ہٹانے سے پتہ چلتا ہے کہ فیس بک کے قواعد اور ہدایات کتنے کھوکھلے ہیں کیونکہ وہ انھیں نافذ کرنے یا ان پر عمل کرنے کی بہت کم یا بالکل بھی کوشش نہیں کرتا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ایسے مواد کی شناخت کرنا قدرے آسان ہے لیکن پھر بھی یہ فیس بک کی نظر سے بچ جاتا ہے، جب تک کوئی اس کی نشاندہی نہیں کرتا۔’

فیس بک

ان صفحات پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ کملا ہیرس امریکی شہری نہیں ہیں کیونکہ ان کی والدہ انڈین ہیں اور ان کے والد جمائیکا سے تعلق رکھتے ہیں۔

دیگر جگہوں پر کہا گیا کہ وہ ‘اتنی سیاہ فام نہیں’ کہ ڈیموکریٹس کے لیے مناسب ہوں۔

ایک اور پوسٹ میں کہا گیا کہ انھیں ‘ملک بدر کر کے انڈیا بھیج دینا چاہیے۔’

اس کے علاوہ بہت سے میمز میں ان کے نام کا مذاق اڑایا گیا ہے۔

جنسی اور فحش مواد

ان میں سے ایک فیس بک پیچ کے چار ہزار رکن ہیں اور دوسرے کے 1200 ارکان ہیں اور اس پر موجود جنسی نوعیت کے بہت سی تفاصیل کے ساتھ خواتین مخالف مواد کو بھی ہٹایا گیا ہے۔

شہری حقوق کے گروپس اور اشتہار دینے والوں کی جانب سے فیس بک پر نفرت انگیز مواد کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے بار بار تنقید کی جاتی رہی ہے۔

کملا ہیرس

اگست میں سینکڑوں کمپنیوں نے احتجاجاً فیس بک پر اپنے اشتہار بند کر دیے تھے۔

'نفرت انگیزی'

اس سے قبل مہم چلانے والوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا تھا کہ نسل پرستی اور نفرت انگیز مواد کی فیس بک کے اندرونی موڈریشن ٹولز نے نشاندہی نہیں کی اور بعض معاملات میں تو اس کی ترویج و اشاعت بھی کی گئی۔

‘سٹاپ ہیٹ فار پرافٹ’ مہم سے تعلق رکھنے والے رشاد رابنسن نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ فیس بک نے ‘ایسا الگورتھم تیار کیا ہے جس سے لوگوں کو نفرت پھیلانے کی تحریک ملتی ہے۔’

فیس بک کے اپنے شہری حقوق کے آڈٹ نے اگست میں کہا تھا کہ کمپنی نے نفرت انگیز مواد کے بارے میں ‘پیچیدہ اور دلدوز’ فیصلے کیے ہیں جن سے ‘شہری حقوق کو دھچکہ’ لگتا ہے۔

اور پچھلے ہفتے جو بائیڈن کے ایک سینیئر ساتھی نے امریکی انتخابات کے بعد کے دنوں میں سازشی نظریات، تشدد کو ابھارنے اور غلط معلومات کے خلاف ٹھیک سے عمل نہ کرنے پر فیس بک کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

نو منتخب امریکی صدر کے نائب پریس سکریٹری بل روسو نے ٹویٹ کیا کہ ‘ہماری جمہوریت نشانے پر ہے۔ ہم جواب چاہتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp