لارڈ نذیر احمد ہاؤس آف لارڈز سے نکالے جانے سے پہلے خود ہی ریٹائر ہو گئے


لارڈ نذیر احمد
لارڈ نذیر احمد نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ’غیر منصفانہ‘ تحقیقات کا نتیجہ ہے اور وہ اسے چیلنج کریں گے
برطانیہ کے دارالامراء یا ہاؤس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیر احمد نے اپنے خلاف جنسی استحصال کے الزامات پر مبنی ایک رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہاؤس سے نکالے جانے سے پہلے خود ہی ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا۔

لارڈ نذیر احمد نے اپنے خلاف جنسی استحصال کے الزامات سے متعلق ہاؤس کی ضابطہ اخلاق کی کمیٹی کی ایک رپورٹ دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس رپورٹ میں انھیں ہاؤس سے نکالنے کی سفارش کی گئی ہے۔

ہاؤس کی ضابطہ اخلاق کمیٹی کی رپورٹ طاہرہ زمان کی 2017 میں دائر کی گئی اس شکایت پر مبنی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ لارڈ نذیر احمد نے ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے تھے۔

رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ لارڈ احمد نے 2017 میں اپنے پاس مدد کے لیے آنے والی خاتون طاہرہ زمان کا ’جذباتی اور جنسی استحصال‘ کیا تھا۔

لارڈ نذیر احمد کے رویے کی تحقیق بی بی سی کے حالاتِ حاضرہ کے معروف پروگرام ‘نیوز نائٹ’ میں کیے گئے انکشافات کے بعد شروع ہوئی تھی۔

لارڈ نذیر احمد کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزمات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں اور وہ کمیٹی کے اس فیصلے کے خلاف یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس میں اپیل دائر کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

لارڈ نذیر احمد پر جنسی زیادتی کی فرد جرم عائد

لارڈ نذیر احمد پر ’مجبور خواتین کا فائدہ اٹھانے‘ کا الزام

طاہرہ زمان نے ہاؤس آف لارڈز کی ضابطہ اخلاق کمیٹی کی رپورٹ پر ’خوشی‘ اور ’اطمینان‘ کا اظہار کیا ہے۔

میں مدد کی طلبگار تھی

لارڈز کی ضابطہ اخلاق کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ لارڈ ندیر احمد نے یہ جانتے بوجھتے کہ طاہرہ زمان ذہنی دباؤ اور اضطراب کا علاج کروا رہی تھیں، ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا۔

برطانوی دارالامرا کی سٹینڈرڈز کمشنر لوسی سکاٹ مونکریف نے کہا کہ ان حالات میں ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کی نوعیت ’مزید سنگین‘ ہو جاتی ہے۔

43 سالہ طاہرہ زمان نے بی بی سی کے حالات حاضرہ کے پروگرام نیوز نائٹ کو بتایا تھا کہ ’میں مدد کی تلاش میں تھی لیکن انھوں نے مجبوری کا فائدہ اٹھایا اور اپنی حیثیت کا غلط استعمال کیا‘۔

طاہرہ زمان کا کہنا تھا کہ انھوں نے لارڈ نذیر سے اس امید پر رابطہ کیا تھا کہ وہ پولیس کو کہہ کر ایک ایسے مسلمان پیر کے خلاف تفتیش میں مدد کریں گے جو ان کے بقول خواتین کے لیے خطرناک ہو سکتے تھے۔

طاہرہ زمان

طاہرہ زمان نے الزام عائد کیا تھا کہ لارڈ احمد نے ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے

طاہرہ زمان کا کہنا تھا کہ لارڈ نذیر احمد نے میٹروپولیٹن پولیس کے کمشنر کو 2 مارچ (2017) کو ایک خط لکھا اور یہ کہ وہ فروری 2017 میں مشرقی لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں لارڈ نذیر احمد سے اس معاملے کے بارے میں بات کرنے کی غرض سے ملی تھیں۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ڈنر کے بعد لارڈ نذیر احمد نے نامناسب انداز میں ان کی ٹانگ کے اوپر والے حصے کو چھونا شروع کر دیا۔

طاہرہ زمان نے کہا کہ وہ لارڈ نذیر کے اس رویے سے حیران رہ گئی تھیں اور انھوں نے اس کے بعد ان سے رابطہ ختم کر دیا تھا۔

طاہرہ زمان کے مطابق انھوں نے ایک دوست کے کہنے پر اسی سال 14 جولائی کو ایک بار پھر لارڈ نذیر سے یہ پوچھنے کی غرض سے رابطہ کیا کہ کیا پولیس کی جانب سے ان کی شکایت پر کوئی جواب موصول ہوا ہے۔

اس کے جواب میں لارڈ نذیر نے جواب دیا کہ پولیس کا ان سے رابطہ ہوا ہے اور انھوں نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے طاہرہ زمان کو مشرقی لندن میں واقع اپنی رہائش گاہ پر بلایا۔

طاہرہ زمان نے گذشتہ برس نیوز نائٹ کو بتایا تھا کہ لارڈ نذیر نے ان سے کہا تھا کہ وہ ایک خوبصورت خاتون ہیں۔ اس کے بعد ستمبر 2017 کی اسی شام دونوں نے ہم بستری کی۔

کمشنر فار سٹینڈرڈز نے اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ’میرے خیال میں اس کا غالب امکان ہے کہ طاہرہ زمان لارڈ نذیر احمد کی دعوت پر ان کے گھر اس مقدمے کے حوالے سے پولیس کے ساتھ ملاقات کی پیشکش پر بات کرنے کے لیے گئی تھیں۔ تاہم ان کی نیت ان کے خدشات پولیس تک پہنچانے کی نہیں تھی اور انھیں گھر بلانے کی نیت غلط تھی۔‘

اس کے بعد بھی لارڈ نذیر کا ان سے ملنے جلنے کا سلسلہ جاری رہا اور مسز زمان کو محسوس ہوا کہ ان کا لارڈ نذیر احمد سے تعلق استوار ہو رہا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو اکثر پیغامات بھیجتے رہتے تھے۔

طاہرہ زمان نے کہا کہ وہ لارڈ نذیر احمد سے ان کے گھر میں ملتی رہیں اور دونوں نے کئی بار ہمبستری کی۔

لیکن طاہرہ زمان نے کہا کہ دو ماہ بعد لارڈ نذیر احمد نے ان پر واضح کر دیا کہ وہ اپنی بیوی کو نہیں چھوڑیں گے جس کے بعد سے ان کا تعلق ختم ہو گیا۔

طاہرہ زمان کا مزید کہنا تھا کہ انھیں لگتا ہے کہ لارڈ نذیر نے ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا کیونکہ وہ اس وقت ذہنی دباؤ اور اضطراب کا شکار تھیں۔

انھوں نے جنوری میں ہاؤس آف لارڈز میں لارڈ نذیر احمد کے رویے کی شکایت کی لیکن جب کشمنر فار سٹینڈرڈ نے انھیں بتایا کہ ان کی شکایت پر کوئی کارروائی اس لیے نہیں ہو سکتی کیونکہ اس شکایت کا تعلق ممبر کے پارلیمانی فرائض سے نہیں ہے، تو انھوں نے نیوز نائٹ سے رابطہ کیا۔

نیوز نائٹ کی تحقیقات

بی بی سی کے حالات حاظرہ کے پروگرام نیوز نائٹ نے جب ہاؤس آف لارڈز کی طرف سے طاہرہ زمان کی شکایت نہ کرنے کے فیصلے کی تحقیق شروع کیں تو کیو سی اور سابق ڈپٹی جج لارڈ کارلئیل نے بی بی سی کو بتایا کہ لارڈز کے کمشنر فار سٹینڈرڈ سے ’غلطی سرزد‘ ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جب کوئی آپ کے پاس مدد کے لیے آتا ہے اور وہ مجبور ہے، تو اگر آپ اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتے ہیں تو یہ شرمناک بات ہے‘۔

لارڈز کی کمشنر فار سٹینڈرڈز نے تردید کی اور نیوز نائٹ کو بتایا کہ یہ ضابطہ اخلاق کو سمجھنے کی غلطی تھی۔

بی بی سی پر فلم چلنے کے دس ہفتوں کے بعد ہاؤس آف لارڈز نے ضابطہ اخلاق کے الفاظ میں تبدیلی کی اور ‘پارلیمانی فرائض’ کے الفاظ کو ‘فرائض’ سے بدل دیا اور اس کا اطلاق پچھلی تاریخ سے کیا گیا۔

طاہرہ زمان نے ایک بار پھر اپنی شکایت درج کرائی جس کے بعد تحقیقات کا آغاز ہوا۔

میں انصاف کی متلاشی تھی

ہاؤس آف لارڈز کی رپورٹ کے آنے کے بعد طاہرہ زمان نے کہا ہے کہ ‘میں بہت خوشی اور اطمینان محسوس کر رہی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ میں مسلسل اپنے آپ کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ جو میں چاہتی تھی وہ مجھے مل گیا، میں انصاف چاہتی تھی۔‘

لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ وہ اس رپورٹ کے نتائج سے ’بہت مایوس‘ ہیں جو ’غلط اور غیر منصفانہ تحقیقات کا نتیجہ ہے‘۔

انھوں نے کہا ’میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ اس شکایت میں لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس میں چیلنج کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp