تاریک ایام: سویڈش ادیب ہینی مانکل کے ڈرامے کا اردو قالب


’تاریک ایام‘ سویڈش ادیب ہینی مانکل کے ایک ون ایکٹ پلے کا اردو قالب ہے جسے نارویجئن پاکستانی ادیب، ڈائریکٹر اور اداکار ٹونی عثمان نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

اوسلو میں اسٹیج پرپیش کرنے کے لئے اس ڈرامے کا ترجمہ تین برس قبل کیا گیا تھا تاہم موضوع کی اہمیت اور یورپ آنے والے مہاجرین کے دکھوں اور تکلیفوں کو اردو قارئین تک پہنچانے کے لئے اسے اب کتابی شکل میں شائع کیاگیا ہے۔ یہ اردو زبان میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ ہمارے عہد کے ایک ممتاز سویڈش ادیب کی ایک اہم تصنیف کو اردو میں پیش کرنا اپنے طور پر بھی ایک قابل ذکر خدمت ہے لیکن اس ڈرامہ میں اس سہانی تصویر کا اصل رخ پیش کیا گیا ہے جو ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے نوجوانوں میں یورپ کی خوش حالی، انسان دوستی اور مساوات کے بارے میں راسخ کردی گئی ہے۔

اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ یورپ کے بیشتر ممالک اور خاص طور سے اسکینڈے نیوین ممالک فلاحی ریاستوں کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں عام لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل ہیں۔ غریب ممالک کے لاکھوں تارکین وطن اور پناہ گزین بھی ان ملکوں میں آکر آباد ہوئے ہیں اور سماجی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ تاہم ان معاشروں میں پائی جانے والی ناانصافی اور عدم مساوات بھی اہم مسئلہ ہے۔ یورپی ادیب ان مسائل کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں لیکن یہ تحریریں عام طور سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کی دسترس سے دور رہتی ہیں۔ اس طرح لاکھوں نوجوان اس امید پر یورپ کا سفر کرتے ہیں کہ وہاں جاتے ہی وہ ترقی اور خوشحالی کے سفر کا حصہ بن جائیں گے۔

کثیر مالی وسائل صرف کرکے اور متعدد مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے یورپ کا رخ کرنے والے نوجوانوں کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزین بھی یورپ پہنچنے کی یا تو کوشش کرتے ہیں یا جنگ اور تشدد کی وجہ سے اپنے علاقے چھوڑ کر یہ سفر اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس سفر میں انہیں جن جذباتی ، نفسیاتی اور مالی و سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی حقیقی تصویر اردو قارئین تک کم ہی پہنچ پاتی ہے۔ ’تاریک ایام‘ میں ایک ایسے ہی المیہ کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے ہینی مانکل نے چابکدستی سے سویڈش زبان میں لکھا تھا۔ ٹونی عثمان نے اس کا عام فہم اور آسان اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے جو قارئین کو تصویر کا دوسرا رخ دکھاتا ہے۔

ٹونی عثمان نے یہ ڈرامہ اسٹیج پر پیش کرنے کے لئے ترجمہ کیا تھا ۔ کتاب کے پیش لفظ میں وہ بتاتے ہیں کہ ترجمہ کرتے وقت صرف اسٹیج پر پیشکش کے حوالے سے درپیش ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا تھا۔ کتابی شکل میں شائع کرنے کا خیال بعد میں آیا۔ تاہم اس اہم موضوع پر اس کتاب کی اشاعت ٹونی عثمان کی ایک قابل قدر ادبی خدمت ہے۔ اس طرح نہ صرف اردو زبان میں ایک دور دراز ملک کے ایک اہم ادیب کی ایک تخلیق پہنچ سکی ہے بلکہ ان مسائل سے آگاہی کی صورت بھی پیدا ہوئی ہے جو عام طور سے اردو قارئین کے مشاہدہ میں نہیں آتے۔

ہینی مانکل 67 برس کی عمر میں اکتوبر 2015 میں کینسر کی وجہ سے انتقال کرگئے تھے۔ تاہم انہوں نے ناولوں ، ڈراموں اور سیریز کی صورت میں قابل ذکر ادبی سرمایہ چھوڑا ہے۔ ’تاریک ایام‘ ان کی اہم تخلیقات میں شامل ہونے کے علاوہ ان کے سیاسی اور سماجی نظریا ت کا اظہار بھی کرتا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی سماجی انصاف اور مساوات کے لئے کام کیا۔ وہ معاشرے کو جھنجوڑنے کے لئے اس دکھ اور تکلیف سے آگاہ کرنا چاہتے تھے جس سے لاکھوں لوگ گزرتے ہیں لیکن خوشحال معاشروں میں رہنے والے لوگ عام طور سے ان سے بے خبر رہتے ہیں۔ اس طرح وہ سماجی انصاف کے ایسے محدود تصور کو اپنا لیتے ہیں جس کے تحت ان کے روزمرہ حالات بہتر ہوسکیں۔ ہینی مانکل کے اس ڈرامے کی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی دکھوں اور مصائب کی کہانی بہت وسیع، تاریک اور سنگین ہے۔

کتاب کے تعارفی مضمون میں سویڈن میں طویل عرصہ مقیم رہنے والے صحافی، دانشور اور ادیب فاروق سلہریا نے ہینی مانکل کو یورپ کی 68 جنریشن کا حصہ قرار دیا ہے جو دنیا کو تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ ہینی مانکل نے اپنی تحریروں، عملی خدمات اور افریقی ملک موزمبیق میں خدمات سرانجام دے کر انسانی بہبود میں کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ وہ صرف مصنف ہی نہیں بلکہ بائیں بازو کے متحرک ایکٹیوسٹ بھی تھے ۔ وہ 2010 میں غزہ کی حصار بندی کے خلاف احتجاج کرنے والے اس بحری بیڑے پر سوار لوگوں میں بھی شامل تھے جس کے ایک بحری جہاز پر اسرائیلی حملہ سے 9 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ہینی مانکل نے جہاز کے عرشے پر چھپ کر اپنی جان بچائی تھی۔

’تاریک ایام‘ ایک باپ اور بیٹی کی کہانی ہے جو پناہ گزینوں کو لانے والی ایک کشتی کے ذریعے کسی ایسے مقام تک پہنچے ہیں جہاں وہ انتہائی خوف اور پریشانی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ دونوں اپنے ساتھ پیش آنے والے صدموں سے متاثر ہیں اور یورپ میں آباد ہونے کے لئے مناسب دستاویز کا انتظار کررہے ہیں۔ ایک تاریک کمرے میں باپ بیٹی کے درمیان مکالموں پر مشتمل اس ڈرامے میں مہاجرین کی مشکلوں اور پریشانیوں کو بیان کیا گیا ہے۔

ٹونی عثمان نے بہت محنت سے ایک سویڈش ڈرامے کو اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ انہوں نے ڈرامے کی عالمگیریت بحال رکھنے اور کہانی کو کسی علاقے، مذہب یا خاص لوگوں سے منسلک کرنے کی بجائے اس کے انسانی پیغام کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ اردو ترجمہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ سویڈش روایت اور ادبی اصطلاحات سے نابلد ارودو قارئین کو اسے سمجھنے میں کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔

’تاریک ایام ‘ کو لاہور کے پبلشر فولیو بکس نے عمدہ طریقے سے شائع کیا ہے۔ 80 صفحات پر مشتمل ایک اچھی کہانی اور اہم کتاب کی دیدہ زیب پیش کش قاری کے لئے ایک خوشگوار حیرت کا سبب ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali