جناب وزیر اعظم! لبیک تحریک کا دھرنا ختم کروانے پر ایک تقریر بنتی ہے


سرکار کے حاشیہ بردار صحافیوں کے ٹوئٹ دیکھے جائیں یا عمران خان کے پرستاروں کے تبصرے ملاحظہ کئے جائیں تو اندازہ ہوسکتا ہے کہ وزیر اعظم کی دانشمندی سے فیض آباد میں دیا گیا دھرنا محض ایک روز بعد ہی بخیر و خوبی اختتام کو پہنچا۔ اس طرح گلگت بلتستان میں تمام تر سرکاری کوششوں کے باوصف نامکمل ’کامیابی‘ سے منہ کا مزا کرکرا ہونے والی کوفت دور ہوگئی۔ حیرت ہے کہ اس شاندار ’فتح‘ پر عمران خان اور ان کے منہ زور ترجمان خاموش ہیں۔ حالانکہ اس موقع پر ایک زور دار تقریر تو بنتی تھی۔

تقریر کا ذکر یوں ضروری ہے کہ حکومت کی کل کارکردگی تقریروں ، بیانات اور دعوؤں تک محدود ہے۔ نہ منڈی کے بھاؤ دیکھ کر حکومت کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے اور نہ ملک میں لوگوں کی معاشی کسمپرسی سے یہ جانا جاسکتا ہے کہ ملک پر دیانت دار اور عوام دوست لوگ حکومت کررہے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو جدید عہد کے تیز رفتار مواصلاتی ذرائع کا کہ عوام کو اس مایوسی سے نکالنے کے لئے وزیروں، مشیروں اور عہدیداروں کے بیانات ماحول میں گرمی پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یوں تو حکومت اور اس کے نمائندے اپوزیشن اور اس کے اتحاد پی ڈی ایم پر ’بھارت کی زبان‘ بولنے کا الزام عائد کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اپوزیشن نے جمہوری تحریک کے نام پر رونق نہ لگائی ہوتی تو وزیر مشیر بلکہ ساری کی ساری سرکار کیا کرتی؟ کس کو نیچا دکھا کر اپنے سربلند ہونے کا اعلان کیا جاتا اور کس کی غلطیوں کی نشاندہی سے اپنی نااہلی اور ناکامی کا بدنما چہرہ چھپایا جاتا؟

وزیر اعظم نے گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہاں اگلی حکومت تحریک انصاف قائم کرے گی۔ یہ اعلان اس حقیقت کے باوجود کیا گیا ہے کہ وہاں تحریک انصاف کو 23 میں سے 9 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ یعنی پارٹی حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ اس مقصد کے لئے اسے ان چھ سات آزاد ارکان کو ساتھ ملانا پڑے گا جو ’آزاد‘ ہو کر اسی لئے انتخاب لڑتے ہیں تاکہ کامیابی کی صورت میں اپنی ’آزادی‘ کی مناسب ’قیمت ‘ وصول کرسکیں۔ عمران خان ہی نہیں ، پاکستان کا بچہ بچہ یہ بات جانتا ہے کہ ووٹوں کی جو خرید و فروخت انتخابات سے پہلے نہ ہوسکے، انتخابات کے بعد ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لئے آزاد ارکان یا چھوٹی پارٹیوں کی لوٹ سیل لگتی ہے اور عام طور سے طاقت ور گروہ ہی اس میں کامیاب ہوتا۔ گلگت بلتستان چونکہ مرکز کا محتاج ایک انتظامی یونٹ ہے اس لئے وہاں حکومت سازی کے لئے سب سے مضبوط پوزیشن بھی اسی پارٹی کو حاصل ہوگی جو وفاق میں حکومت کررہی ہے۔ نیا پاکستان تعمیر کرنے والے وزیر اعظم انتخاب میں اپنی پارٹی کی ناقص کارکردگی اور واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود جب گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت قائم کرنے کی نوید دے رہے ہیں تو جانا جاسکتا ہے کہ اس مقصد کے لئے کون سا جھرلو کام میں لایا جائے گا۔

حکومت سازی کے یہ وہی ہتھکنڈے ہیں جو پرانے پاکستان میں متعارف ہوئے تھے لیکن نئے پاکستان کا ’معمار‘ انہیں فخر اور اعتماد سے استعمال میں لانے کا ذکر کررہا ہے۔ واضح رہے وزیر اعظم نے یہ نہیں کہا کہ تمام تر کوشش کے باوجود تحریک انصاف گلگت بلتستان میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ، اس لئے وہ اس خطے کی بہبود کے لئے آزاد اور دیگر ارکان کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کامل یقین سے اعلان کیا ہے کہ تحریک انصاف ہی گلگت بلتستان میں اگلی حکومت بنائے گی۔ ایسے میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ بند ہ پرور عام پاکستانی تو اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے لیکن وزیر اعظم کے منہ سے یہ خوشخبری سن کر دل ٹھنڈا ہوگیا کہ جو این آر او شریف خاندان اور آصف زرداری کو نہیں مل سکتا، عمران خان نے گلگت بلتستان میں خود کو ہی دینے کا اعلان کرکے سارے دلدر دور کردیے۔ حالانکہ حکومت سازی تو بعد کی بات ہے پہلے تو انہیں ان وزیروں کی گوشمالی کرنا چاہئے تھی جو سرکاری خزانے کے منہ کھولنے اور انتظامیہ پر مکمل دسترس کے باوجود صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو شکست سے دوچار کرنے کا اہتمام ہی کرسکے۔ تحریک انصاف کو فیصلہ کن اکثریت نہیں دلوا سکے۔

تاہم جو کام امین گنڈا پور کئی ہفتوں کی جاں فشانی کے باوجود گلگت بلتستان میں نہیں کرسکے، عمران خان کے وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری اور وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے فیض آباد دھرنے کے ایک ہی دن میں کر دکھا دیا۔ انہوں نے ایک سادہ کاغذ پر تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ دس سطری معاہدہ کیا جس میں چار نکاتی ’مطالبات‘ منظور کرتے ہوئے کئی کئی ہفتے تک دھرنا دینے کی عادی جماعت کو فوری طور سے گھر جانے پر آمادہ کرلیا۔ اسی لئے حیرت ہے کہ وزیر اعظم نے انتخابی اصلاحات کے انقلابی اعلانات کے لئے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملک میں انتخابی دھاند لی کی تاریخ تو تفصیل سے بتائی اور واضح کیا کہ کس طرح ماضی میں انتخابات کو داغدار کیا جاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ کے پی کے سے تحریک انصاف کے بیس ارکان اسمبلی کو خرید کر سینیٹ انتخابات میں بھی دھاندلی کی گئی تھی جس کی اصلاح کے لئے اب حکومت آئین میں ترمیم کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر اپوزیشن نے اس ترمیم کو منظور نہ ہونے دیا تو عوام کو پتہ چل جائے گا کہ کون بدنیت ہے۔ لیکن انہوں نے اس دھرنا کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا جس کے خوف میں اسلام آباد کو حصار بند کرلیا گیا تھا اور اتوار کو سارا دن پولیس مظاہرین کو منتشر کرنے اور امن و امان بحال کرنے کی جد و جہد کرتی رہی۔ لیکن یہ مظاہرین فیض آباد پہنچ گئے اور لیاقت باغ راولپنڈی سے فیض آباد تک جانے والی ’پر امن‘ ریلی کو دھرنےمیں تبدیل کردیا گیا۔

سرکاری ذرائع نے میڈیا کو بتایا ہے کہ پہلے حکم دیاگیا تھا کہ کسی بھی طرح ان غیر قانونی مظاہرین کو فیض آباد سے بھگایا جائے ۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز ایکشن کی منصوبہ بندی کررہی تھیں کہ حکم آیا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر مذاکرات کے ذریعے احتجاج کو پرامن طریقے سے ختم کروایا جائے گا۔ وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کو خاص طور سے لاہور سے بلوایا گیاجنہوں نے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے ساتھ مل کر ’کامیاب مذاکرات‘ کئے اور تحریک لبیک کے سارے مطالبات مان کر انہیں دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کرلیا۔ ٹی ایل پی نے ایک صفحے پر مشتمل اس معاہدے کی نقل جاری کی ہے لیکن حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے حالانکہ یہ معاہدہ ’حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان و قیادت تحریک لبیک پاکستان‘ کے درمیان طے پایا ہے۔ اس پر تحریک لبیک کے تین قائدین کے علاوہ کمشنر کراچی اور دو وفاقی وزرا کے دستخط ثبت ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس ’معاہدہ‘ کے کم از کم ایک نکتہ پر فوری طور سے عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے۔ یعنی حکومت نے اس ریلی کی روک تھام کے لئے پنجاب کے مختلف علاقوں سے ٹی ایل پی کے جو کارکن گرفتار کئے تھے ، وزارت داخلہ نے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

ایک چوک پر چند ہزار لوگوں کے ذریعے حکومتوں سے گھٹنوں کے بل پر مطالبات منوانے والے اس گروہ نے جس نئے معاہدہ کی نقل جاری کی ہے اس میں اہم ترین نکتہ پاکستان سے فرانس کے سفیر کو نکالنا ہے۔ معاہدہ کے الفاظ میں ’حکومت فرانس کے سفیر کو دو سے تین ماہ کے عرصے کے اندر پارلیمنٹ سے فیصلہ سازی کے ذریعے ملک بدر کرے گی‘۔ اس کے علاوہ دونوں وفاقی وزرا نے وعدہ کیا ہے کہ پاکستان فرانس میں سفیر تعینات نہیں کرے گا۔ تحریک لبیک کی ریلی کے حوالے سے جن کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، انہیں فوری رہا کیا جائے گا اور ان پر بعد میں بھی’ اس مارچ کے حوالہ سے کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جائے گا‘۔ تحریک لبیک کے لیڈروں کی لیاقت واہلیت اور وزیروں کی حیثیت کا درست اندازہ کر نے لئے اس معاہدہ کے متن کا مطالعہ ضروری ہوگا۔ زبان و بیان کی ’خوبیوں ‘ کے علاوہ تحریک کے لیڈروں کو ’صاحب‘ لکھا گیا ہے جبکہ وزیروں کے نام کے ساتھ یہ اضافت ضروری نہیں سمجھی گئی۔

حکومت دھرنا ختم کروانے میں تو کامیاب ہوگئی ہے لیکن اس معاہدہ پر تحریک لبیک کی طرف سے کامیابی کے شادیانے اور حکومت کی طرف سے مکمل خاموشی نے پراسرار کیفیت پیدا کردی ہے۔ البتہ سرکاری صحافیوں اور اینکرز کے پیغامات اور خوشی کے اظہار سے یہ سکوت ٹوٹا ہے اور عوام کو اندازہ ہوسکا ہے کہ عمران خان کی اولوالعزم قیادت میں حکومت نے ایک دھرنا ختم کرواکے کیسی شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستانی عوام البتہ اپنے محبوب قائد کی جوشیلی تقریر سے ہنوز محروم ہیں۔ حالانکہ اس بے مثال کامیابی پر وزیر اعظم کو ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے بتانا چاہئے تھا کہ ان کی حکومت نے ’جائز‘ مطالبے مان کر کیسے عوام کو بحران سے محفوظ رکھا ہے۔ بلکہ اس موقع پر 2017 کے دھرنا کا حوالہ بھی دیا جاسکتا ہے جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت تین ہفتے تک دھرنا ختم کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ آخر فوج نے ضامن بن کر حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدہ کروایا اور دھرنا میں شامل لوگوں کو سفر خرچ دے کر گھروں کو روانہ کیا۔ عمران خان اپنے اس کارنامے کا ذکر بھی کرسکتے ہیں کہ ان کی حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ بھی کرلیا اور سفر خرچ کی مد میں سرکاری خزانے پر بار بھی نہیں ڈالا گیا۔ وزیر اعظم کے چوکس معاشی مشیر اس بچت کی تفصیلات بھی فراہم کرسکتے ہیں۔ پھر شاید نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایک نئے ریفرنس کے ثبوت بھی نیب کے ہاتھ آجائیں۔

لیکن وزیر اعظم خاموش ہیں۔ یا تو وہ اس عظیم کامیابی پر کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں یا پھر اس حساب کتاب میں مصروف ہیں کہ علامہ خادم رضوی پھر کب فیض آباد آئے گا۔ مستقبل پر نگاہ رکھنے والا لیڈر آنے والے خدشات کا حل پہلے سے ڈھونڈنے لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali