کورونا وائرس: تحقیق کے مطابق گھر سے کام کرنا دوستوں کے درمیان بدگمانیوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے


کام کام کام
ایک نئی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے دوران گھر سے کام کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے تاہم گھر سے کام کرنے کے دوران دوستوں کے درمیان بدگمانیوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آ سکتا ہے۔

برطانیہ میں وولف انسٹیٹیوٹ کے لیے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ایک ساتھ اور ایک ہی جگہ کام کرنے سے لوگوں کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں اکثر دور ہو جاتی ہیں۔

انسٹیٹیوٹ کے بانی ایڈ کیسلر نے بتایا کہ کووڈ کی وبا کے دوران زیادہ سے زیادہ لوگ گھروں سے کام کرنے پر مجبور ہیں اور اس سے ان کے تنہا ماحول میں محدود ہو جانے کا خطرہ ہے۔

انھوں نے وزرا سے مطالبہ کیا کہ وہ معاشرتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے دفاتر اور کام کی جگہوں پر توجہ دیں۔

انسٹیٹیوٹ کی اس تحقیق کے لیے پولنگ کمپنی سرویشن نے مختلف مذاہب کے 11 ہزار سے زائد افراد کے ساتھ سروے کیا۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا میں گھر سے کام: ملازمت کی جگہ پر دوستیاں کیوں ضروری ہیں؟

پاکستان میں وبا کے دنوں میں کون گھر سے کام کر سکتا ہے؟

کورونا وائرس: کھڑکی سے باہر دنیا کا نظارہ

غیروں کو سمجھنے کا موقع

ہادیہ مسلمان ہیں۔ ایک ساتھ کام کرتے ہوئے ان کی سیموئل روزنگارڈ (جن کا تعلق یہودی مذہب سے ہے) کے ساتھ اچھی دوستی ہو گئی۔

سیموئل نے بتایا کہ وہ اسلام کے خلاف یا نسل پرستی کے حامی شخص نہیں تھے، لیکن انھیں مسلمانوں کے بارے میں چند غلط فہمیاں ضرور تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ہادیہ سے ملنے کے بعد ان کے بہت سارے خیالات غلط ثابت ہوئے۔

ہادیہ نے بتایا کہ وہ بھی یہی سمجھتی تھیں کہ ’اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کا سبب ایک سیاسی مسئلہ ہے۔‘

لیکن ساتھ کام کرتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست بن چکے ہیں۔

ہادیہ نے بتایا کہ ’ہماری دوستی بہت قدرتی انداز میں ہوئی کیوں کہ ہمارے مقاصد اور جذبے ایک جیسے تھے۔‘

ہادیہ کہتی ہیں ’ہم دونوں کا تعلق بہت مختلف پس منظر سے ہے اور اسرائیل اور فلسطین ہمارے یہاں ایک بہت ہی سیاسی موضوع ہے۔ لیکن ہم دونوں اس موضوع پر اس انداز میں بات کر سکے جس سے دونوں طرف کا موقف سمجھا جا سکے۔‘

سیموئل نے بتایا کہ ’کووڈ سے قبل ہم دونوں اکثر اس طرح کے موضوعات پر باقاعدہ بات کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ یہودی اور مسلم کمیونٹیز کے مابین مشترکہ ثقافتی اقدار اور اختلاف رائے کے شعبوں کی بھی نشاندہی کرتے تھے۔‘

گھر سے کام

انھوں نے کہا ’ہادیہ اور میں دفتر میں اکثر ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے تھے اور پھر ایسی کوئی بات شروع ہوتی تو ساتھ کافی پیتے اور باتیں کرتے۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں۔ یہ نقصان ہوا ہے۔‘

محققین کا دعویٰ ہے کہ وہ لوگ جو کیبنز کے باہر کھلے دفاتر میں کام کرتے ہیں ان میں سے 76 فیصد افراد نسلی اعتبار سے مختلف لوگوں کے ساتھ کام کر رہے تھے۔

حالانکہ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ 37 فیصد افراد جو بے روزگار ہیں ان کے زیادہ تر دوستوں کے ان کی اپنی برادری یا نسل سے ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

ریسرچ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ دفاتر کے ایسے نظام کا کوئی متبادل نہ نکالے جانے کی صورت میں مختلف مذاہب، نسلوں اور برادریوں کے افراد کے ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع کم ہوتے چلے جائیں گے۔

اس ریسرچ میں لوگوں کے معاشرے میں تنوع سے متعلق خیالات پر بھی غور کیا گیا ہے۔

ریسرچ کے مطابق سیاہ فام اور ایشیائی نسلوں کے باہر تقریباً تین چوتھائی افراد ایسے تھے جنھیں اپنے خاندان کے فرد کے کسی سیاہ فام یا ایشیائی نژاد شخص سے شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ 44 فیصد سے کم افراد نے کہا کہ اگر ان کا کوئی نزدیکی رشتہ دار کسی مسلمان سے شادی کرتا ہے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

ریسرچ میں سامنے آیا کہ لوگوں میں منفی جذبات ’پاکستانی‘ سے زیادہ ’مسلم‘ لفظ سن کر بھڑک سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ برطانیہ میں مقیم 90 فیصد مسلمان پاکستانی نژاد ہیں۔

اس تحقیق میں مقامی انتظامیہ میں بھی بدگمانی کا جائزہ لیا گیا، جس میں مختلف علاقوں سے ردعمل شامل کیا گیا۔

ملک بھر کے مختلف علاقوں میں دوستی اور ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ تعلقات میں بھی فرق پایا گیا۔

جب عمر، تعلیم اور نسل جیسے عناصر پر غور کیا گیا تو سامنے آیا کہ لندن کے مقابلے شمال مشرقی انگلینڈ میں برطانوی افراد سے دوستی کرنے کا 150 فیصد رجحان جبکہ 68 فیصد کا رجحان صرف برطانوی افراد کے ساتھ کام کرنے میں ہے۔

رپورٹ کے مطابق، مذاہب کی جانب بظاہر بدگمانی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ لوگ عام طور پر کسی نسل کی جانب تعصب ظاہر کرنے کے بجائے مذہب کی جانب منفی جذبات کا اظہار کرنے کو زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’آج بھی مذہب کی بنیاد پر لوگ دوسروں کے خلاف منفی جذبات کا اظہار زیادہ کرتے ہیں۔‘

رپورٹ کو تیار کرنے والے ڈاکٹر جولیئن ہارگریوز نے بتایا کہ ’برطانیہ میں ’مسلمان‘ لفظ، بدگمانی پیدا کرنے کا محرک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp