پی ایس ایل فائنل پر سمیع چوہدری کا کالم: ’مگر لاہور قلندرز پھر سے ’قلندر‘ بن گئے‘


'قلندر' کوئی ایسا لفظ یا اصطلاح نہیں ہے کہ جس کے یک لفظی یا یک سطری معنی وضع کر دیے جائیں۔ وسیع تر مفاہیم میں قلندر ایک کیفیت کا نام ہے جس کی مثال ہم ایک لمحے سے دے سکتے ہیں۔

یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب شعوری و مادی دائرے اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ جب کیفیت ‘ٹائم’ اور ‘سپیس’ یعنی زمان و مکاں سے ماورا ہو جاتی ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل ایک نکتے پہ اکٹھے ہو کر اسی میں فنا ہو جاتے ہیں۔ اسی فنا میں قلندر کی سرشاری و سرمستی ہوتی ہے۔

دراصل یہ کیفیت شعوری و فکری تشریحات سے اس قدر بلند ہوتی ہے کہ عمومی عقلی پائیدان پہ کھڑے ہو کر اس کی وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ آپ کو سمجھنا ہو تو کسی عہدِ حاضر کے قلندر سے ملیے یا پھر گئے بزرگوں کی سوانح سے کچھ سیکھنے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

سمیع چوہدری کے دیگر کالم

’کراچی جیتے یا لاہور، نمبر ون ہے کوئی اور‘

زمبابوے کی قسمت کب کھلے گی؟

عثمان قادر، وہ وعدہ جو وفا ہوا

پھر قلندر کا یہ ہے کہ جب ایک بار وہ سرور و سرمستی کی اس انتہائی کیفیت کو پا لیتا ہے تو پھر شعوری، لاشعوری، غیر شعوری کسی بھی طرح سے ٹائم اور سپیس کی حقیقت پسندی میں واپس آنے سے گریز کرتا ہے۔ اسے نہ ماضی کا غم ہوتا ہے، نہ حال کی فکر اور نہ ہی مستقبل کا کوئی خدشہ۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ مگر توجیہات لانے والے بتاتے ہیں کہ نام ہی سب کچھ ہے۔ جب رانا فواد کے ہاں یہ ٹیم ‘پیدا’ ہوئی تو یقیناً انھوں نے بھی کافی سوچ بچار کے بعد ہی یہ نام رکھا ہو گا۔

اور اس نام کا لاہور کی ٹیم پہ پورا پورا اثر پڑا۔

اس قدر کہ پہلے چار سیزن اس ٹیم نے متواتر ‘قلندر’ ہونے کا ثبوت دیا۔ یہ واقعی قلندری کیفیت تھی کہ ٹیم زمینی حقائق، زمانی تقاضوں اور منطق و استدلال کو پیروں تلے روندتی پیچھے ‘بڑھتی’ گئی۔

یہ پی ایس ایل کی مقبول ترین ٹیم تھی اور ایک اعتبار سے معروف ترین بھی۔ یہ جیت کے عین قریب آ کر جیت کو غچہ دے دیتے، یہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ زیرِ بحث رہتے، یہ ہار کر بھی ہزیمت کو ہنسی میں اڑا دیتے کیونکہ دنیاوی کامیابیوں اور دھاتی ٹرافیوں کی کیا حیثیت ہے کہ قلندر کو اپنی طرف راغب کر پائیں۔

مگر اس بار قلندرز قلندر نہ رہے۔ شروع کے دو تین میچز چھوڑ کر، باقی سیزن یہ کوئی اور ہی ٹیم نظر آئی جو اپنے وقار کو بحال کرنے میں سنجیدہ بھی تھی اور ٹرافی جیت کر سبھی کے منہ بھی بند کرنا چاہتی تھی۔

گویا اس سیزن کے بیچ ہی کچھ ایسا ہوا کہ قلندر قلندر نہ رہے۔ وہی بیٹنگ جو ہر وقت تمسخر کا نشانہ بنتی تھی، اس بار بڑے بڑے بولرز کے چھکے چھڑانے لگی۔ ایک جنون سا طاری ہو گیا تھا اس ڈریسنگ روم پہ، اپنے ماضی سے جان چھڑا کر نیا مستقبل تعمیر کرنے کا۔

اور پھر فائنل کی رات آ گئی۔

یہ وہ میچ تھا جو پورے ملک کے لیے مرکزِ نگاہ تھا۔ قلندرز جانتے تھے کہ یہ ٹرافی تک پہنچنے کے لیے آخری تین گھنٹے تھے۔

ان تین گھنٹوں میں وہ نہ صرف ماضی کے تمام دھبے دھو سکتے تھے بلکہ کراچی سے دیرینہ رقابت کا حساب بھی چکا سکتے تھے اگر وہ ایک بار پھر ‘قلندر’ نہ بن جاتے۔

مگر نجانے ایسا کیا ہوا کہ جانتے بوجھتے، چاہتے نہ چاہتے، طوعاً و کرہاً لاہور کی ٹیم کو ایک بار پھر قلندرز بننا ہی پڑا۔

وسیم اکرم کے تیار کردہ بہترین بولنگ پلان نے قلندرز کے بلے بازوں کو اپنی ‘سہولت’ سے باہر نکل کر کھیلنے پہ آمادہ کیا۔

لاہور کے بلے بازوں نے بھی اپنے کمفرٹ زون سے نکل کر بولنگ کا بھرپور جواب دینا چاہا مگر وکٹ کی سست رفتاری اور عماد وسیم کے بولرز کی مہارت آڑے آ گئی اور لگ بھگ ساری بیٹنگ لائن سکور بورڈ کی فرسٹریشن پہ قربان ہوتی چلی گئی۔

یہ وکٹ بیٹنگ کے لیے خاصی مشکل تھی مگر اتنی بھی نہیں کہ اس پہ ڈیڑھ سو کا مجموعہ ترتیب نہ دیا جا سکتا۔

لیکن جو ہدف لاہور نے ترتیب دیا، وہ بھی اتنا سہل نہ ہوتا اگر شاہین آفریدی کا مقابلہ بابر اعظم جیسے مشاق سٹروک میکر سے نہ ہوتا۔

سہیل اختر کی بطور کپتان یہ سب سے بڑی کامیابی تھی کہ اپنی ٹیم کو پہلی بار آخری خانے سے اٹھا کر فائنل تک لے آئے۔ مگر سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ وہ تھکاوٹ کے احساس میں گم ہو گئے اور ہاتھ آتی ٹرافی اچانک کسی نے اڑا لی۔

قلندرز کا پی ایس ایل کا سفر بہت ہی داستاں ناک رہا ہے۔

ہار کی دل شکستگی اپنی جگہ مگر یہ تشفی بھی کافی ہے کہ اب قلندرز ٹائٹل کی دوڑ میں دوڑنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

اب سوال صرف یہ ہے کہ اگلے سیزن کے آغاز تک قلندرز یہ سبق یاد رکھیں گے یا پھر سے ‘قلندر’ بن جائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp