کیا دنیا میں صرف ایک تہذیب ہے؟


اگرچہ مارک ذکربرگ نے انسانیت کو آن لائن متحد کرنے کا خواب دیکھا ہے مگر آف لائن دنیا کے حالیہ واقعات ’تہذیبوں کے تصادم‘ والے تھیسز میں تاز گی سے بھرپور سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ بہت سارے پنڈت، سیاست دان اور عام شہری یہ مانتے ہیں کہ شام کی خانہ جنگی، دولت اسلامیہ کا عروج، بریگزٹ کی تباہی اور عدم استحکام، ان سب کا نتیجہ ’مغربی تہذیب‘ اور ’اسلامی تہذیب‘ کے مابین تصادم ہے۔ مغربی ممالک کا مسلم ممالک پر جمہوریت اور انسانی حقوق مسلط کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ایک پرتشدد اسلامی رد عمل سامنے آیا۔ جس کی وجہ سے مسلم امیگریشن کے ساتھ ساتھ اسلامی دہشت گردی کی ایک لہر نے یورپی رائے دہندگان کے ملٹی کلچرل خواب کی تعبیر کی بجائے مقامی شناخت کے حق میں رائے ہموار کردی۔

اس تھیسسز کے مطابق، انسانیت کو ہمیشہ متنوع تہذیبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کے ارکان دنیا کو ناقابل حل مسائل میں الجھے ہوئے دیکھتے ہیں۔ دنیا کے یہ متضاد نظریات تہذیبوں کے مابین تنازعات کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ جس طرح قدرتی چناؤ کے بے رحم قانون کے مطابق مختلف جانوروں کی نسلیں بقا کی جنگ لڑتی ہیں۔ بالکل اسی طرح پوری تاریخ انسانی میں تہذیبوں کے درمیان بار بار تصادم ہوتا رہا ہے اور جو سب سے مضبوط تھے وہی کہانی سنانے کے لیے باقی بچ گئے ہیں۔ وہ لوگ جو اس سنگین حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں ( خواہ وہ لبرل سیاستدان ہوں یا پھر اپنی مرضی کرنے والے انجنئیر) وہی اس طرح کے خطرے مول لیتے ہیں۔

تہذیبوں کے تصادم تھیسسز کے دور رس سیاسی مضمرات ہیں۔ اس کے حامیوں کا موقف ہے کہ ’مسلم دنیا‘ کے ساتھ ’مغرب‘ کی مفاہمت کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکام ہوگی۔ مسلم ممالک مغربی اقدار کو نہیں اپنائیں گے اور مغربی ممالک کبھی بھی مسلم اقلیتوں کو کامیابی کے ساتھ اپنے اندر جذب نہیں کرسکیں گے۔ اس کے مطابق امریکہ کو شام یا عراق سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو داخلہ کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور یورپی یونین کو مغربی شناخت کے حق میں اپنی ملٹی کلچرکی غلط آئیڈیالوجی کو ترک کرنا چاہیے۔ آخر کار، صرف ایک ہی تہذیب فطری انتخاب کے ناقابل معافی امتحانوں سے بچ سکتی ہے اور اگر برسلز میں بیوروکریٹس مغرب کو اسلامی خطرہ سے بچانے سے انکار کرتے ہیں تو برطانیہ، ڈنمارک یا فرانس کوتنہا ہی اس کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔

اگرچہ اس تھیسز کو وسیع پیمانے بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ ایک گمراہ کن مقالہ ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی شاید واقعی ایک بنیادی چیلنج بن سکتی ہے، لیکن اسے جس ”تہذیب“ نے چیلنج کیا ہے وہ ایک منفرد مغربی مظاہر کی بجائے عالمی تہذیب ہے۔ دولت اسلامیہ کے پاس ایران اور امریکہ کے خلاف متحد ہونے کے لیے کوئی جواز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی بنیاد پرست ( اپنی تمام قرون وسطیٰ کے خیالی تصورات کے لئے ) ساتویں صدی کے عرب کی نسبت کافی زیادہ حد تک موجودہ عالمی ثقافت میں جمع ہو گئے ہیں۔

وہ اب قرون وسطی کے کسانوں اور سوداگروں کے بجائے یہاں کے ماحول سے اجنبی نوجوانوں کے خوف اور امید کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ چونکہ پنکج مشرا اور کرسٹوفر ڈی بیلاگو نے متاثر کن دلائل دیے ہیں کہ اسلامی بنیاد پرست مارکس اور فوکوالٹ سے اتنے ہی متاثر ہوئے ہیں جتنے وہ محمد سے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں انیسویں صدی کے یورپی انتشار پسندوں، امیوں اور عباسی خلیفہ کی وراثت ایک ساتھ ورثے میں ملی ہے۔ لہذا یہ بات زیادہ درست ہے کہ دولت اسلامیہ کو پراسرار درخت کی ایک شاخ کی حیثیت سے دیکھنے کی بجائے، اس عالمی ثقافت کی غلطی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو ہم سب کا مشترکہ اثاثہ ہے۔

مزید اہم بات یہ ہے کہ تاریخ اور حیاتیات کے مابین مشابہت جو ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے تھیسسز کی تائید کرتی ہے، وہ غلط ہے۔ انسانی گروہ ( چھوٹے قبیلے سے لے کر بڑی بڑی تہذیبوں تک ہر طرح سے ) بنیادی طور پر جانوروں کی پرجاتیوں سے مختلف ہے اور تاریخی تنازعات قدرتی انتخاب کے عمل سے بہت مختلف ہیں۔ جانوروں کی پرجاتیوں کی معروضی شناخت ہے جو ہزاروں نسلوں تک برقرار رہتی ہے۔ چاہے آپ چمپینزی ہوں یا گوریلا آپ کی ذات آپ کے عقائد کی بجائے جینز پر منحصرہے اور مختلف جین الگ الگ معاشرتی سلوک کا اظہار کرتے ہیں۔

چمپینز نر اور مادہ کے مخلوط گروپوں میں رہتے ہیں۔ وہ دونوں جنسوں کے حامیوں کے اتحاد قائم کر کے اقتدار کے لئے مقابلہ کرتے ہیں۔ گوریلوں کے درمیان، اس کے برعکس، ایک ہی غالب مرد عورتوں کا ایک حرم قائم کرتا ہے، اور عام طور پر کسی بھی ایسے بالغ مرد کو نکال دیتا ہے جو اس کی پوزیشن کو للکار سکتا ہے۔ چمپینزی کبھی بھی گوریلہ جیسے معاشرتی انتظامات کو نہیں اپنا سکتے ہیں اور اسی طرح گوریلے چمپینزی کی طرح خود کو منظم کرنا شروع نہیں کر سکتے ہیں۔ اور جہاں تک ہم جانتے ہیں بالکل اسی معاشرتی نظام نے نہ صرف حالیہ دہائیوں میں بلکہ سینکڑوں ہزاروں سالوں سے چمپینز اور گوریلوں کی خصوصیات بنائی ہے۔

آپ کو انسانوں میں ایسا کچھ نہیں ملتا ہے۔ ہاں، انسانی گروہوں کے الگ الگ معاشرتی نظام ہوسکتے ہیں، لیکن یہ جینیاتی طور پر طے شدہ نہیں ہیں اور وہ شاذ و نادر ہی چند صدیوں سے زیادہ عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بیسویں صدی کے جرمنوں کے بارے میں سوچیے۔ سو سال سے بھی کم وقت میں جرمن لوگوں نے خود کے چھ مختلف نظام تشکیل دیے ہیں۔ یقیناً ً جرمنوں نے اپنی زبان اور بریٹ ورسٹ سے اپنی محبت رکھی۔ لیکن یقیناً جرمن لوگوں کے کچھ لاثانی جو ہر ہے جس کی وجہ یہ باقی ساری دنیا سے مختلف ہیں۔

یورپی آئین کے (غیر مصدقہ) دیباچہ کا آغاز یہ بیان کرتا ہے کہ وہ یورپ کی ثقافتی، مذہبی اور انسان دوستی کی وراثت سے متاثر ہوتا ہے۔ جس سے انسانی فرد، جمہوریت، مساوات، آزادی اور قانون کی حکمرانی کے قابل صد احترام اور ناقابل تسخیر حقوق کی آفاقی اقدار تیار ہوئیں۔ اس سے کسی کو آسانی سے یہ تاثر مل سکتا ہے کہ یورپی تہذیب کی تعریف انسانی حقوق، جمہوریت، مساوات اور آزادی کی اقدار سے ہوتی ہے۔ متعدد تقریریں اور دستاویزات قدیم ایتھنائی جمہوریت سے لے کر موجودہ یورپی یونین تک براہ راست لکیر کھینچتی ہیں، جس میں 2500 سال کی یورپی آزادی اور جمہوریت کا جشن منایا جاتا ہے۔

یہ وہ جگہ ہے جو ہمیں اس محاورے والے اندھے کی یاد دلاتی ہے جو ہاتھی کی دم کو پکڑتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ہاتھی ایک طرح کا برش ہے۔ ہاں، جمہوری نظریات صدیوں سے یورپی ثقافت کا حصہ رہے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی کامل نہیں تھے۔ اس کی ساری شان و شوکت اور اثر کے لئے ایتھنیا کی جمہوریت ایک نیم رضا مند دل کے ساتھ کیا گیا تجربہ تھا، جو بلقان کے ایک چھوٹے سے کونے میں بمشکل 200 سال تک زندہ رہا۔ اگر گزشتہ پچیس صدیوں سے یورپی تہذیب کی تعریف جمہوریت اور انسانی حقوق کے ذریعہ کی گئی ہے تو سپارٹا، جولیس سیزر، صلیبی جنگیں، انکوزیشن، غلاموں کی تجارت، لوئس 14، نپولین، ہٹلر اور سٹالین سے جڑی روایات کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ سب کسی دوسری دنیا سے آگھسے تھے؟

حقیقت میں یورپی تہذیب و تمدن وہی کچھ ہے جو یورپی لوگوں نے تشکیل دیا ہے، عین اسی طرح جس طرح عیسائیوں نے عیسائیت، مسلمانوں نے اسلام اور یہودیوں نے یہودیت کو بنایا ہے۔ بلاشبہ سبھی نے اپنی اپنی تہذیب کو صدیوں کے محیط عرصے میں مختلف نمایاں چیزوں سے ملا کر بنایا ہے۔ انسانی گروہ اپنے اندر آنے والی کسی بھی تبدیلی کی بنا پر پہنچانے جاتے ہیں، لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود ان کا ماضی سے رشتہ جڑا رہتا ہے۔ کہانی سنانے کا فن اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انہیں کون کون سے انقلابات کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ سبھی تجربات کو ایک ہی دھاگہ میں پرو لیتے ہیں۔

یہاں تک کہ ایک فرد انقلابی ذاتی تبدیلیوں کی مدد سے مربوط اور طاقتور زندگی کی کہانی بنا سکتا ہے : میں وہ شخص ہوں جو کبھی سوشلسٹ تھا، لیکن پھر سرمایہ دار بن گیا تھا۔ میں فرانس میں پیدا ہوا تھا اور اب امریکہ میں رہتا ہوں۔ میری شادی ہوئی اور پھر طلاق ہو گئی۔ مجھے کینسر ہو گیا تھا اور پھر ٹھیک ہو گیا تھا۔ ’اسی طرح جرمنوں کی طرح ایک انسانی گروہ بھی اپنی تبدیلیوں سے اپنی ذات کی وضاحت کر سکتا ہے :‘ ایک بار جب ہم نازی تھے، لیکن ہم اپنا سبق سیکھ چکے ہیں اور اب ہم پر امن جمہوریت پسند ہیں۔”

لوگ اکثر ان تبدیلیوں کو دیکھنے سے انکار کرتے ہیں، خاص طور پر جب بنیادی سیاسی اور مذہبی اقدار کی بات ہو۔ ہم اصرار کرتے ہیں کہ ہماری اقدار قدیم اجداد کی ایک قیمتی میراث ہیں۔ پھر بھی صرف ایک ہی چیز جو ہمیں یہ کہنے کی اجازت دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے آبا و اجداد طویل عرصہ سے مر چکے ہیں اور اپنے لئے بات نہیں کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین کے بارے میں یہودی کے رویوں پر غور کریں۔ آج کل انتہائی قدامت پرست پبلک مقامات پر خواتین کی تصاویر پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ ان قدامت پرست یہودیوں سے متعلق بل بورڈ اور اشتہارات میں (کبھی بھی عورتوں اور لڑکیوں کو نہیں دکھایا جاتا ہے ) صرف مردوں اور لڑکوں کو ہی دکھایا گیا ہے۔

دو ہزار گیارہ میں، ایک اسکینڈل اس وقت پھوٹ پڑا جب انتہائی قدامت پرست بروکلین پیپر ’ڈی زیٹینگ‘ نے امریکی اہلکاروں کی تصویر شائع کی جس میں اسامہ بن لادن کے احاطے پر چھاپہ مارتے دیکھا یا گیا تھا لیکن اس تصویر سے تمام خواتین کو ڈیجیٹل طور پر مٹا دیا گیا تھا، ان میں سیکریٹری خارجہ ہلیری کلنٹن بھی شامل تھیں۔ مقالے کی وضاحت کی گئی کہ یہودیوں کے ”شائستہ قوانین“ نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ اسی طرح کا ایک اسکینڈل اس وقت پھوٹ پڑا جب ہامیوسر اخبار نے انجیلا مرکل کو چارلی ہیبڈو کے قتل عام کے خلاف مظاہرے کی تصویر سے خارج کر دیا، مبادا اس کی تصویر عقیدت مند قارئین کے ذہنوں میں کوئی فحش سوچ پیدا کرے۔ تیسرے انتہائی آرتھوڈوکس اخبار کے پبلشر ہموڈیا نے یہ وضاحت کرتے ہوئے اس پالیسی کا دفاع کیا کہ ’ہمیں ہزاروں سال کی یہودی روایت کی حمایت حاصل ہے۔

عبادت گاہوں کے علاوہ کہیں بھی عورتوں کو دیکھنے پر سخت پابندی نہیں ہے۔ آرتھوڈوکس کی عبادت گاہوں میں خواتین کو مردوں کے احاطے سے الگ رکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ایک محدود علاقے میں قید کریں جہاں وہ پردے کے پیچھے چھپی ہوئی ہوں۔ تاکہ نماز یا آسمانی صحیفوں کو پڑھتے ہوئے کسی بھی مرد کی نظر کسی عورت پر نہ پڑے۔ اگر یہ سب کچھ ہزاروں سال کی یہودی روایت اور ناقابل تغیر خدائی قوانین کی تائید میں ہے تو اس حقیقت کی وضاحت کیسے کی جائے کہ جب آثار قدیمہ کے ماہرین نے اسرائیل میں قدیم عبادت خانوں کی کھدائی مشنا اور تلمود کے زمانے سے کی تھی تو انھیں صنفی تفریق کا کوئی نشان نہیں ملا تھا اور اس کے بجائے عورتوں کی تصویر کشی کرنے والی زمین پر بنی نقش نگاریاں اور وال پینٹنگوں کا پردہ چاک کیا۔ ان میں سے کچھ نے تو بمشکل ہی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ مشنا اور تلمود لکھنے والے ربی باقاعدگی سے ان عبادت خانوں میں نماز پڑھتے تھے اور مطالعہ کرتے تھے۔ لیکن موجودہ دور کے قدامت پرست یہودی انہیں قدیم روایات کی توہین گردانتے ہیں۔

قدیم روایات کی اسی طرح کی بگاڑ تمام مذاہب کی خصوصیات ہے۔ دولت اسلامیہ نے فخر کیا ہے کہ وہ اسلام کے خالص اور اصل نسخے کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ لیکن حقیقت میں، ان کا اسلام کے حوالے سے جواز بالکل نیا ہے۔ ہاں، انھوں نے متعدد قابل احترام عبارتوں کا حوالہ دیا، لیکن ان میں یہ منتخب کرنے میں بہت صوابدیدی گنجائش رہتی ہے کہ کون سے متن کا حوالہ دیا جائے اور کون سا نظرانداز کیا جائے اور ان کی ترجمانی کیسے کی جائے۔ درحقیقت، نصوص کی ترجمانی کرنے کا ان کا خود کا طرز عمل بہت جدید ہے۔

روایتی طور پر، تشریح ایک عالم دین (جیسا کہ وہ علما ء جنہوں نے قاہرہ الازہر جیسے نامی گرامی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہو) کی اجارہ داری تھی۔ دولت اسلامیہ کے بہت کم رہنماؤں کو اس طرح کی سند حاصل ہے، اور انتہائی معزز علمائے کرام نے ابوبکر البغدادی اور ان کے افراد کو جاہل اور مجرم قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی ریاست ”غیر اسلامی“ یا ”اسلام مخالف“ رہی ہے، جیسا کہ کچھ لوگوں کا استدلال ہے۔ یہ خاص طور پر ستم ظریفی کی بات ہے کہ جب بارک اوباما جیسے عیسائی رہنماؤں کو یہ اعتماد حاصل ہوتا ہے کہ وہ ابوبکر البغدادی جیسے خود اعتراف کرنے والے مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ اس کے مسلمان ہونے کا کیا مطلب ہے۔ اسلام کے جوہر سے متعلق گرما گرم بحث بے معنی ہے۔ اسلام کا کوئی مخصوص ڈی این اے نہیں ہے۔ اسلام وہی جو مسلمان اسے بناتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).