امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی نادیہ مراد باسی طہ کون ہیں؟


نادیہ مراد کا تعلق عراق کے شمال میں واقع ضلع سنجر، (جس کی سنجر پہاڑیاں عراق اور شام کے درمیان سرحدی خط کھنچتی ہیں ) میں بسے گاؤں ”کوجو“ سے ہے۔ کردوں پہ مبنی اس گاؤں کی آبادی کا بنیادی ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور جہاں کے لوگوں کی زندگی سادہ، امن پسند اور پرسکون تھی۔ 1993؁ء میں پیدا ہونے والی نادیہ کا شمار گاؤں کی ان خوش نصیب لڑکیوں میں تھا جنہیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ تعلیم ختم کرنے کے بعد اس کا ارادہ تاریخ کی استاد بننے اور یا پھر اپنے گاؤں میں بیوٹی سیلون کھولنے کا تھا۔ وہ لوگوں کی زلفیں اور دلہنیں سنوار کے بہت خوشی محسوس کرتی تھی۔

نادیہ کے گاؤں میں لوگوں کے درمیان یگانگیت و محبت کا گہرا رشتہ تھا۔ غالباً اس کی اہم وجہ انسانیت کے علاوہ یہ بھی تھی کہ ان سب کا تعلق ایک اقلیتی گروہ سے تھا جو یزیدی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ عراق کی اکثریت سنی مذہب کی پیروکار ہے۔ یزیدیوں کا شمار اقلیت میں ہونے کے باعث عتاب میں تھا۔ خاص کر ان داعش عسکریوں کی نظر میں جو سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اسلام کے خدائی فوجدار بن کر انہیں دوسری مذہبی اقلیتوں کو کافر قرار دے کر ان سے جنگ لڑنے، ان کے مردوں کو جان سے مارنے، عورتوں کو اپنی کنیزی میں لے کر ان پہ جنسی تشدد اور ان کی خرید و فروخت کا شرعی حق تھا۔ پر تشدد عسکریت پسندوں داعش یاISISیعنی (Islamic State in Iraq and Syria) نے خودساختہ اسلامی ریاست کے دعویدار بن کر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جس بہیمانہ سلوک کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی نظیر کا آج کے دور میں ملنا مشکل ہے۔

3 اگست 2014ء وہ خون آ شام دن تھا جو عراق کے سنجر ضلع میں رہنے والے تین لاکھ پچاس ہزار یزیدی افراد پہ داعش کی اسلامی ریاست کے دعویدار گروہ کی صورت عذاب کی طرح اترا۔ اپنی تمام تر درندگیوں اور وحشیوں کے ساتھ۔ دو بجے صبح کو سنجر ضلع پہ لمبی داڑھیوں والے، کالے کپڑوں میں ملبوس، داعش گروہ نے یزیدیوں کے گھروں پہ حملہ کر کے ان کو شریعہ قانون کے مطابق فیصلہ سنایا کہ یا وہ اپنا مذہب بدلیں بہ صورت دیگر اپنی موت کے لیے تیار ہوجائیں۔ سنجر پہاڑوں کے قریب رہنے والے اکثر یزیدیوں کوبھاگنے یا روپوش ہونے کا موقع مل گیا مگر وہاں کے معذوروں اور بوڑھوں کو موت نے دبوچ لیا۔

نادیہ کا گاؤں ”کوجو“ پہاڑوں سے دور تھا لہٰذا وہاں کے افراد داعش کے درندوں سے فرار نہ حاصل کرسکے۔ داعش نے اس گاؤں کو پندرہ اگست تک محاصرہ میں رکھنے کے بعد عورتوں اور مردوں کو الگ کر دیا گیا۔ انہوں نے ایک دن میں چھ سو مردوں اوربوڑھی عورتوں کو قتل کر دیا۔ جن میں نادیہ کے چھ جوان بھائی اور بوڑھی ماں بھی شامل تھی۔ داعش نے کم عمر لڑکوں کو اپنے گروپ میں شامل کیا تاکہ انہیں مسلمان بنا کے داعش بننے کی تربیت دی جائے۔

جب کہ لڑکیوں اور بچیوں (نو سے اٹھائیس سال تک کی عمر) کو قید کر کے ایک بس میں موصل شہر لے گیے۔ جہاں انہیں ایک عمارت کی بالائی منزل میں رکھا گیا اور نچلی منزل پہ ان کی خرید و فروخت کی بولی کا اہتمام کیا جو ہر روز منڈی کے جانوروں کی تجارت کی طرح جاری رہتا۔ ان عورتوں اور بچیوں کو زبردستی نماز پڑھائی جاتی اور مجبور کیا جاتا کہ وہ ہر روز اپنے جنسی استحصال کے لیے سج بن کے تیار ہوں۔ اب وہ آزاد شہری نہیں بلکہ جنگ میں ہارنے کے بعد جنسی باندیاں تھیں جن کو خریدنے والے مرد انہیں دن میں کئی بار سامان کی طرح بدلتے۔

نادیہ نے بتایا کہ اس کے انکار کرنے اور بھاگنے کی کوشش کی وجہ سے اسے کئی باربے تحاشا مارا اور جسم کو سگرٹوں سے جلایاگیا۔ ایک دن تو اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئی اور بطور سزا اس کا گینگ ریپ بھی کیا گیا۔ وہ کہتے ”ہم اس یزیدی مذہب کو دنیا سے نیست ونابود کر کے چھوڑیں گے“ ۔ جب بھی کوئی شدت پسند وہاں عورت خریدنے آتا تو خواتین سسک سسک کے رونے لگتیں اور اکثر ڈر کے مارے قے کرنا شروع کر دیتیں۔ بہت سی عورتوں نے تو بالائی منزل سے کود کے خودکشی کرلی۔ نادیہ اس جگہ تین ماہ رہی۔

ایک دن نادیہ کی خوش قسمتی سے اس کا نگراں غلطی سے تالا لگانا بھول گیا تو اسے وہاں سے فرار ہونے کا موقعہ مل گیا۔ بھاگناخطرناک تھا کیونکہ وہ محلہ داعش کے حامی سنی مذہب کے پیروکاروں کا تھا۔ لیکن جس گھر میں نادیہ نے پناہ لی اس کے مکین کا نام عمر عبدالجبار تھا۔ جنہوں نے انسانیت کے ناتے نادیہ کی مدد کو ترجیح دیتے ہوئے نہ صرف اپنے گھر میں پناہ دی بلکہ اس کی شناخت بدل کراسے سو میل دور ایک پناہ گزیر کیمپ میں بھی پہنچا دیا۔

جو عراق کے علاقہ ڈھوک (Duhok) میں واقع ہے۔ اس کیمپ میں نادیہ ایک سال تک رہی۔ یہ کیمپ جرمنی حکومت کا لگایا ہوا تھا جو داعش کے مظالم کے ہاتھوں بچ نکلنے والی یزیدی عورتوں کو پناہ اورمدد دے رہا تھا۔ جرمنی واحد ملک تھا جو عراق میں انسانیت کا یہ فریضہ انجام دے رہا تھا۔ نادیہ نے پہلی بار فروری سال 2015ء میں اپنا بیان بیلجین ڈیلی نیوز پیپر کو دیا۔ 2015ء میں ہی جرمنی کے امدادی پروگرام کے تحت نادیہ کا شمار ان گیارہ سو عورتوں اوران کے خاندانوں میں تھا جن کے علاج معالجہ کی غرض سے جرمنی نے انہیں دو سال کا مہاجرین ویزہ دیا۔

پندرہ دسمبر 2015ء میں ہی عالمی سطح پر یزیدیوں کی مدد کے لیے ایک آرگنائزیشن ”یزداں“ کا آغاز ہوا جس نے نادیہ کو یونائٹڈ نیشنز سیکیورٹی کونسل میں داعش کے ہاتھوں یزیدیوں پہ بیتی ظلم کی داستان سنانے کا موقع دیا اور جب سے نادیہ نے اپنے پیغام کو ملکوں ملکوں جا کرسنانے اور انصاف کا کشکول پھیلانے کا عزم کیا، کیونکہ داعش کے ظلم کی یہ آگ صرف ایک اقلیت تک محدود نہیں تھی بلکہ اس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔

نادیہ نے اپنے امن کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لیے ایک آرگنایزیشن ”نادیہ انیشیٹیو“ کے نام سے شروع کی۔ جس کامقصد انسانی اسمگلنگ اور جنسی تشدد کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ اس کے علاوہ ظلم کی داستاں کو اپنی سوانح عمری The last girl: My story of captivity and my fight against the Islamic state بھی رقم کیا جو اکتوبر 2017ء میں چھپی۔

سن 2014ء میں انیس سالہ معصوم طالب علم اور مستقبل کے خواب دیکھنے والی گاؤں کی نادیہ سے آج تک، سماج میں انسانی حقوق کی بحالی کے لیے لڑنے والی، ستائیس سالہ نادیہ کی جدوجہد کا جسمانی اور جذباتی صعوبتوں کا سفر کڑا اور دشوار گزار ہے۔ لیکن اگراس میں اس کا ساتھ دینے والے چند اہم افراد نہ ہوتے تو شاید اس کی آواز کی گونج بلند وبالا ایوانوں تک نہ پہنچتی۔ سفر ہے شرط مسافرنواز بہتیرے کے مصداق آج ظلم کے خلاف اس کا ساتھ دینے والے بہت ہیں۔

داعش کی اسلامی حکومت اور یزیدی انسانوں کے قتل اور جنسی تشدد اور انسانوں کی اسمگلنگ کا مقدمہ انسانی حقوق کی بحالی کی مشہور ایکٹوسٹ وکیل امل کلونی نے لڑا اور اپنے دلائل سے دنیا کو قائل کیا کہ ہمیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہے چاہے وہ دنیا کے کسی خطہ میں کیوں نہ ہو۔ نادیہ کا ہاتھ عمر بھر کے لیے اس کے شوہر عابد نے تھام لیا ہے جو خود بھی یزیدی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے اور نادیہ کے درد سے آشنا ہے۔ اور اس کا ہر گام پہ ساتھ دیتا ہے۔

نادیہ کے لیے ظلم کی اس داستان کو ملکوں ملکوں جا کر بار بار دھرانا اپنے پہ بیتے زخموں کی فصل کو تازہ اور ہرا کرنا ہے۔ مگرانصاف کے حصول میں اس کا یہ درد مانع نہیں۔ وہ ان مظالم پہ روتی ہے اور اپنے جیسے لوگوں کے دکھوں پہ پھاہا بھی رکھتی جاتی ہے۔ اس کا جسم زخم خوردہ سہی، مگر کم حوصلہ نہیں۔ اس کے ایوارڑز کی فہرست طویل ہے مگر اس کی پہچان اسے سال 2018ء میں ملنے والا امن کا نوبل انعام ہے۔ جسے قبول کرنے سے وہ کترا رہی تھی۔

جس نے بقول نادیہ ”میری ذمہ داری بڑھا دی ہے“ ۔ کیونکہ وہ اپنے کو انصاف سے عاری عالمی برادری میں خود کو بے بس محسوس کرتی ہے۔ جو تحفظ دینے کے بجائے خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ اس نے کہا ”مجھے مز ید ہمدردی نہیں چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ ان احساسات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی حقوق، اقلیتوں، عورتوں اور بچوں کا تحفظ کرے“ ۔ اور یقیناً ہم سب اس عالمی برادری کا حصہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).