انڈیا: تین ہزار کلومیٹر کے طویل ترین سفر کے بعد شیر کو اپنی مادہ کا انتظار


واکر شیر
انڈیا کی تاریخ میں سب سے طویل پیدل سفر طے کرتے ہوئے ایک شیر جانوروں کی ایک پناہ گاہ میں ’بس گیا‘ ہے جہاں وہ واحد شیر ہے۔

محکمۂ جنگلات کے حکام اسے پیار سے ’واکر‘ یعنی چلنے والا کہتے ہیں۔ ساڑھے تین سال کا یہ نر شیر شکار، نئے علاقے یا پھر مادہ ساتھی کی تلاش میں گذشتہ سال جون میں مغربی ریاست مہاراشٹر میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ میں اپنا گھر چھوڑ کر نکل پڑا تھا۔

اس کی گردن پر ایک ریڈیو کالر یعنی پٹہ لگا ہوا ہے جس سے یہ پتہ چلا کہ اس نے مہاراشٹر کے اندر سات اضلاع کا سفر کیا پھر پڑوسی ریاست تیلنگانہ میں داخل ہوا اور وہاں سے پھر مارچ کے مہینے میں جا کر مہاراشٹر میں ہی موجود ایک دوسری پناہ گاہ میں مقیم ہو گیا۔ اس کا یہ سفر نو مہینے تک جاری رہا اور اس دوران اس نے تقریباً تین ہزار کلو میٹر یعنی ایک ہزار 864 میل کا سفر طے کیا۔

یہ بھی پڑھیے

’ہماری قدر کریں، ہمارے گھر کو بچائیں‘

انڈیا کے آدم خور شیروں سے کیسے نمٹا جائے؟

دو برس کی تلاش کے بعد آدم خور شیرنی ہلاک

تقریباً 205 مربع کلومیٹر پر پھیلے گیان گنگا پناہ گاہ میں چیتے، نیل گائے، جنگلی سؤر، مور، مورنی اور چتکبڑے ہرن رہتے ہیں۔ وائلڈ لائف حکام کا کہنا ہے کہ واکر واحد شیر ہے جو وہاں رہتا ہے۔

ریاست مہاراشٹرا میں محکمہ جنگلات کے سینیئر ترین عہدیدار نتن کاکوڈکر نے بی بی سی کو بتایا: ’اس کے پاس اب علاقے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور اس کے لیے شکار بھی کافی ہیں۔‘

شیر

انڈیا میں دنیا بھر کے شیر کی 70 فیصد آبادی رہتی ہے

اب حکام اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیا واکر کو شریک حیات دینے کے لیے کسی مادہ شیر کو وہاں منتقل کیا جائے۔ یہ ایک ایسا قدم ہو گا جو ’پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ شیر تنہائی پسند مخلوق نہیں ہیں اور کسی ساتھی کی چاہت ان کی فطری جبلت ہے۔ تاہم کسی شیرنی کو وہاں منتقل کرنا آسان فیصلہ نہیں ہو گا۔

مسٹر کاکوڈکر نے کہا: ’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی بہت بڑی پناہ گاہ نہیں ہے۔ یہ چاروں طرف کھیتوں اور تباہ ہوتے ہوئے جنگلات سے گھرا ہے۔ اس کے علاوہ اگر یہاں واکر کے بچے ہوتے ہیں تو پھر شکار کی کمی ہو جائے گی اور اس کے بچوں کو منتشر ہونا پڑے گا۔‘

انڈیا میں شیروں کی مجموعی تعداد تقریباً تین ہزار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شیروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن ان کے مسکن کا رقبہ کم ہوا ہے اور انھیں شکار ہمیشہ وافر تعداد میں میسر نہیں ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک شیر کے ‘فوڈ بینک’ کے لیے اس علاقے میں کم از کم 500 ایسے جانور ہونے چاہیے جو بچے دے رہے ہوں۔

واکر کی گردن میں گذشتہ سال فروری میں ایک ریڈیو کالر لگایا گیا تھا اور مون سون میں بارشوں کے آغاز تک وہ اپنے آبائی جنگل میں گھومتا رہا لیکن پھر اس نے ’آباد ہونے کے لیے مناسب علاقے کی تلاش شروع کر دی۔‘

وائلڈ لائف حکام کا کہنا ہے کہ بلی کے خاندان کا یہ بڑا جانور ’مستقل سیدھے طور پر‘ سفر نہیں کرتا۔ ہر گھنٹے جی پی ایس سیٹلائٹ کے ذریعہ اس کا سراغ لگایا جاتا رہا اور اسے 5000 سے زیادہ مقامات پر ریکارڈ کیا گیا۔

سردیوں کے موسم اور حالیہ موسم گرما کے بیشتر حصوں میں واکر کو دریاؤں، جھرنوں اور شاہراہوں کے ساتھ ساتھ کھیتوں سے کبھی آگے کی جانب بڑھتے تو کبھی پیچھے واپس جاتے ٹریک کیا گیا۔ مہاراشٹر میں موسم سرما میں کپاس کی کاشت کا موسم ہوتا ہے اور کپاس کی بلند فصل نے اس شیر کو کھیتوں میں پوشیدہ رہنے اور چلنے میں مدد فراہم کی۔ وہ زیادہ تر رات کو سفر کرتا تھا اور اپنے کھانے کے لیے جنگلی سور اور مویشیوں کا شکار کرتا تھا۔

اس کا صرف ایک بار انسان سے سامنا ہوا جب اس نے اتفاقی طور پر ایک شخص کو زخمی کر دیا۔ دراصل وہ شخص اس کے پاؤں کے نشان کا پیچھا کرتا ہو اس جگہ پہنچ گیا تھا جہاں وہ آرام کر رہا تھا۔ اسے معمولی زخم آئے اور وہ بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سینیئر ماہر حیاتیات ڈاکٹر بلال حبیب نے بی بی سی کو بتایا: ’اس کے اس لمبے سفر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمام تر انسانی ترقیات اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے باوجود مہاراشٹر کے دیہی علاقے اب بھی شیروں کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے موزوں ہیں۔ اس لحاظ سے جدید ترقی اب بھی یہاں جانوروں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ نہیں بن سکی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp