یادوں کا موسم


سردیوں کی آمد آمد ہے ’ہوا کی خنکی نے ائر کنڈیشنز کا بوجھ بانٹ لیا ہے۔ شام کے مٹر گشت کے لئے نکلا تو گاڑی کے خود کار اے سی نے درجہ حرارت میں سے حرارت کو ایسے بھاگ جانے پہ مجبور کیا کہ ٹھنڈے ہوتے کانوں کو بھی سرگوشی کرنی پڑی اور لگے ہاتھوں ایسی یاد ذہن میں ابھری کہ خوشی سے ہی زندگی اور ماحول کی حدت بڑھ گئی۔ کبھی کبھی کوئی بھولی بسری یاد اور اس یاد سے جڑی کوئی بات‘ کوئی ذات ’کوئی ساعت‘ کوئی مات ’کوئی اثبات یا کچھ اپنے ہی مکتوبات حوصلہ بڑھانے میں بڑے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

ہوا کی خنکی سے ہوتی ہوئی بات جب مکتوبات تک جا ٹھہرے تو مان لینا چاہیے کہ کسی یاد کا کسی واقعے سے یاد آنا ضروری نہیں۔ یہ تو عمر و عیار کی زنبیل کی طرح کا معاملہ ہے ’کہ یہاں پٹاری کو ہاتھ لگا اور وہاں یادوں کا سیلاب امڈ آیا۔ یہ بھی ایسی ہی اک یاد تھی جب ایک معول سے زیادہ ٹھٹھرتے دسمبر میں میری اک ملنگ نما دوست سے بات ہو رہی تھی۔ ضمناً وہاں کے موسم کی بابت دریافت کیا تو فرمانے لگے کہ ہمارے ہاں تو گرمی‘ حدت اور حبس کا موسم ہے۔ ایسے جواب پہ حیران و پریشان ہونا بنتا تھا۔

موصوف ہماری حیرانی کو بھانپتے ہوئے فرمانے لگے کہ آپ ایسے شخص سے ایسی بے ادبی کی توقع نہ تھی۔ مانو گھڑوں پانی پڑ گیا لیکن سمجھ پھر بھی نہ آئے کہ کس بات کی سمجھ نہیں آ رہی اور دوسری طرف سے بات کو کس طرف کو لے جانے کی کوشش کی جائی جا رہی ’پھر خود ہی وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے کہ‘ موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے۔ ہمارا باہر کے موسم سے کیا تعلق ’۔ تب کہیں گتھی سلجھی کی موصوف اس وقت مراقبے والی کیفیت میں تھے اور ابھی تک پوری طرح اس سے باہر نہیں آ پائے تھے۔

جاڑے کا موسم جس دیس میں بھی آیا یہ بات ضرور یاد آئی۔ اور پھر اس یاد کی ذات سے جڑی اور بھی بہت سی یادیں اور باتیں۔ اور پھر یہ سلسلہ اس قدر دراز ہو جاتا ہے کہ جس یاد سے آغاز ہوا وہی معدوم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسی مخمصے میں یہ راز بھی پایا کہ یاد کے بھی زندگی کے باقی پہلووں کے جیسے ہی خصائل ہوتے ہیں۔ جیسے کسی ایک کا سکھ کسی دوسرے کا دکھ بھی ہو سکتا ہے ’ایسے ہی کسی کی حسیں یاد کسی دوسرے کے لئے باعث تشویش ہو سکتی ہے تو کسی تیسرے کے لئے پریشان کن بھی ہو سکتی ہے۔

یادوں کے تاثر کا انحصار اس کی سرایت پہ بھی ہے۔ جس قدر یہ سرایت کرے گی اسی تناسب سے یہ دماغ کے کینوس پہ اپنا اثر چھوڑے گی۔ انسانی نفسیات میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ دونوں طرح کی یادوں کا انتہائی ردعمل نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یادوں کو بھی گزرے ہوئے واقعات کی طرح ہی ساتھ لے کر چلنا چاہیے ’جیسے گیا وقت پلٹ نہیں سکتا ایسے ہی یادوں کے سہارے ساری عمر نہیں گزاری جا سکتی۔ کچھ وقت کے بعد ان کا تاثر خودکار طریقے سے کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

کئی صورتوں میں اندر سے تحلیل ہوتا ہوا شخص خود کو بظاہر مضبوط اور فعال اعصاب کا دکھانے کے لئے کئی روپ ’بہروپ بدلتا رہتا ہے۔ کیونکہ جب تک سانس کی مالا جپنی ہے تب تک یاد کا چرخہ چلنا ہے۔ اب یہ انفرادی سوچ پہ منحصر ہے کہ اس چرخے کی‘ کوک ’سننی ہے یا‘ ہوک ’۔ عرفان صدیقی صاحب نے یہ باب ایسے باندھا کہ:

کیا عجب رشتہ ہے ’موسموں سے یادوں کا
برف پڑتی رہتی ہے ’آگ جلتی رہتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).