امریکہ آنے والے طلباء کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی


امریکہ میں سال 2019۔ 2020 کے دوران دس لاکھ پچھتر ہزار چار سو چھیانوے ( 1075496 ) غیر ملکی سٹوڈنٹس پڑھنے کے لیے آئے۔ جو کہ گزشتہ تعلیمی سیشن 2018 / 2019 کے مقابلے میں ایک اعشاریہ پانچ فیصد کم ہے۔ اس دوران پاکستان سے امریکہ آنے والے طلباء کی تعداد سات ہزار نو سو انتالیس ( 7939 ) تھی۔

امریکہ آنے والے ٹاپ پچیس ممالک کے سٹوڈنٹس میں پاکستان کا نمبر بائیسواں ہے۔ پاکستان گزشتہ سال بھی اسی پوزیشن پر تھا۔ مگر پچھلے تعلیمی سیشن کے مقابلے میں رواں سیشن میں پاکستان سے اٹھارہ طلباء کم آئے۔

2018۔ 2019 کے سیشن میں پاکستان سے امریکہ پڑھنے کے لیے سات ہزار نو ستاون ( 7957 ) طلباء آئے۔ جبکہ گزشتہ سیشن میں دینا بھر سے امریکہ پہنچنے والے طلباء کی تعداد دس لاکھ پچانوے ہزار دو سو ننانوے ( 1095299 ) تھی۔ جو کہ رواں سال کے مقابلے میں انیس ہزار آٹھ سو تین سٹوڈنٹس کم بنتی ہے۔ اس طرح امریکہ آنے والے طلباء کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ادارے بیورو آف ایجوکیشنل اینڈ کلچرل افیئرز اور انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کی جانب سے گزشتہ روز جاری کی جانے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق پہلے ٹاپ دس ممالک کے طلباء میں چین اور بھارت بدستور پہلے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ چین سے سب سے زیادہ تین لاکھ بہتر ہزار پانچ سو بتیس ( 372532 ) سٹوڈنٹس امریکہ آئے۔

بھارت سے امریکہ آنے والے طلباء کی تعداد ایک لاکھ ترانوے ہزار ایک سو چوبیس ( 193124 ) رہی۔ ٹاپ ٹین کے دیگر ممالک میں ساؤتھ کوریا سے انچاس ہزار آٹھ سو نو ( 49809 ) طلباء، سعودی عرب سے تیس ہزار نو سو ستاون ( 30957 ) ، کینیڈا سے پچیس ہزار نو سو بانوے ( 25992 ) ، ویتنام سے تئیس ہزار سات سو ستتر ( 23777 ) ، تائیوان سے تئیس ہزار سات سو چوبیس ( 23724 ) ، جاپان سے سترہ ہزار پانچ سو چون ( 17554 ) ، برازیل سے سولہ ہزار چھ سو اکہتر ( 16671 ) ، اور میکسیکو سے چودہ ہزار تین سو اڑتالیس ( 14348 ) طلباء سٹڈی کے لیے امریکہ پہنچے۔

امریکہ آنے والے زیادہ تر طلباء کی دلچسپی کے حامل مضامین سائنس، ٹیکنالوجی، انجنئیرنگ اینڈ میتھمیٹکس (STEM) اور کمپیوٹر سائنس تھے۔ مجموعی طور پر امریکہ آنے والے ایک ملین سے زائد سٹوڈنٹس میں سے باون فیصد طلباء نے مذکورہ سائنس مضامین کا انتخاب کیا۔ صرف انجنئیرنگ کے شعبے میں 20.5 فیصد طلباء مختلف تعلیمی اداروں میں داخل ہوئے۔ میتھس اور کمپیوٹر سائنس دوسرے نمبر پر رہے جہاں دو لاکھ پانچ ہزار دو سو سات طلباء نے داخلہ لیا۔ جو کہ گزشتہ تعلیمی سال کے مقابلے میں 0.9 فیصد زیادہ ہے۔

دینا بھر سے امریکہ آنے والے ایک ملین سے زائد یہ طلباء امریکہ کی پچاس ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں تعلیمی اداروں میں داخل ہوئے۔ سب سے زیادہ سٹوڈنٹس نے داخلے کے لیے نیویارک یونیورسٹی (NYU) کا انتخاب کیا۔ جہاں پر اکیس ہزار ترانوے طلباء انرول ہوئے۔ دوسرے نمبر پر بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی رہی جہاں سترہ ہزار چار سو اکانوے غیر ملکی طلباء نے داخلہ لیا۔ سدرن یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں سترہ ہزار تین سو نو۔ کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں سترہ ہزار ایک سو پینتالیس اور پانچویں نمبر پر یونیورسٹی آف ایلے نائے رہی جہاں تیرہ ہزار نو سو باسٹھ غیر ملکی طلباء داخل ہوئے۔

ریاست کیلیفورنیا واحد امریکی ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار پانچ سو بانوے طلباء پڑھنے کے لیے آئے۔ نیویارک سٹیٹ کے تعلیمی اداروں میں ایک لاکھ پچیس ہزار نو سو گیارہ جبکہ ریاست ٹیکساس اور میساچوسیس میں بلترتیب ستتر ہزار ستانوے اور تہتر ہزار چھ سو پچانوے طلباء کی آمد ہوئی۔

دینا کے دوسرے ممالک جہاں سے بھاری تعداد میں طلباء و طالبات پڑھنے کے امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ سے بھی گزشتہ سال امریکی طلباء کی ایک کثیر تعداد نے سٹڈی کے لیے دینا کے دیگر ممالک کا رخ کیا۔ اس ایجوکیشن سال میں تین لاکھ سنتالیس ہزار ننانوے ( 347099 ) امریکی طلباء پڑھائی کے لیے دوسرے ممالک میں گئے۔

یورپین ممالک جیسے انگلینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، سپین اور آئرلینڈ میں سب سے زیادہ امریکی سٹوڈنٹس گئے۔ امریکی طلباء کی دوسری ترجیح لاطینی امریکہ اور قریبین ممالک رہے۔ جہاں ایک لاکھ ترانوے ہزار سے زائد سٹوڈنٹس پڑھنے کے لیے پہنچے۔ طلباء کی تیسری چوائس ایشیائی ممالک تھے۔ سات امریکی طلباء تعلیم کے لیے پاکستان بھی آئے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت میں تین ہزار تین سو چھیاسٹھ امریکی طلباء تعلیم کے لیے گئے۔

مجموعی طور پر یہ اعداد و شمار زیادہ تر کرونا یعنی کوڈ۔ 19 کے پہلے عرصے کے ہیں۔ موجودہ موسم خزاں۔ 2020 کے سمیسٹر میں امریکی تعلیمی اداروں میں داخل ہونے والے 99 فیصد غیر ملکی طلباء کی کلاسیز آن لائن ہو رہی ہیں۔ جس کے لیے امریکی تعلیمی اداروں نے ”ہائی برڈ ٹاٹ کلاسیز آن لائن“ کا ایک مربوط نظام وضع کیا ہے۔ ایسے انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کی ایک کثر تعداد مختلف ممالک میں اپنے گھروں میں بیٹھ کر امریکہ کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

اس آن لائن عارضی بندوبست سے یقیناً ایسے لاکھوں غیر ملکی طلباء کو ویزہ فیسوں، ٹریولنگ، لاجنگ اینڈ بورڈنگ اور دیگر اخراجات کی مد میں پیسے تو بچیں گے۔ مگر وہ فیزیکلی کلاسیز اور کیمپس میں بیٹھ کر پڑھنے کے ماحول سے لطف اندوز نہیں ہو سکیں گے۔

دوسری جانب امریکی محکمہ کامرس کے اعداد و شمار کے مطابق 2019۔ 2020 کے تعلیمی سیشن میں امریکہ میں آ کر تعلیم حاصل کرنے والے ایک ملین سے زائد غیر ملکی سٹوڈنٹس امریکی اکانومی میں 44 بلین یو۔ ایس ڈالر کے کثر زر مبادلہ اضافے کا باعث بنے۔

دینا کے تمام ممالک میں کرونا جیسی ناگہانی آفت نے جہاں ہر شعبہ زندگی سے متعلق لوگوں میں خوف، بے یقینی اور معاشی بحران سے لے کر نفسیاتی، ذہنی اور سوشل مسائل پیدا کیے ہیں۔ وہیں خاص طور پر تعلیم اور اس میں بھی بین الاقوامی تعلیمی شعبے پر بھی اس نے گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ جن میں سے بعض تو نظر آتے ہیں اور بعض محض محسوس ہی کیے جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).